نماز کی حقیقت

میاں شاہد

محفلین
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن (صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ بتلاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر جاری ہو جس میں روزانہ پانچ دفعہ وہ نہاتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین نے عرض کیا کہ کچھ بھی میل باقی نہ رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بالکل یہ مثال پانچ نمازوں کی ہے۔ اللہ تعالٰی ان کے ذریعہ سے خطاؤں کو دھوتا اور مٹا دیتا ہے"۔ (بخاری و مسلم) فائدہ:۔ انسان اللہ کا بندہ اور عبد یعنی غلام ہے۔ اللہ تعالٰی ہی اس کا خالق اور الٰہ ہے۔ اللہ کو اپنا رب اور معبود ماننے کا تقاضہ یہ ہے کہ بندہ اپنی زندگی اللہ ہی کی اطاعت اور بندگی میں بسر کرے۔ اسی کے دیئے ہوئے احکام کو اپنی زندگی کا قانون بنائے۔ اسی کے آگے سر جھکائے۔ اسی کے آگے سجدہ ریز ہو۔ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرے اور نماز ہی درحقیقت اللہ تعالٰی کی عبادت اور اس کی پرستش کا کامل طریقہ ہے۔ نماز میں بندہ بار بار اللہ تعالٰی کے سامنے حاضر ہوتا ہے اور اس کے سامنے اپنی عاجزی اور بندگی کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے کا عہد کرتا ہے۔ اس سے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگتا ہے۔ صاحب ایمان بندہ جس کو نماز کی حقیقت نصیب ہو۔ جب نماز میں مشغول ہوتا ہے تو اس کی روح گویا اللہ تعالٰی کے بحر جلال و جمال میں غوطہ زن ہوتی ہے اور جس طرح کوئی میلا کچیلا اور گندہ کپڑا دریا کی موجوں میں پڑ کر پاک و صاف اور اجلا ہوجاتا ہے اسی طرح اللہ تعالٰی کے جلال و جمال کے انوار کی موجیں اس بندہ کے سارے میل کچیل کو صاف کردیتی ہیں اور جب دن میں پانچ دفعہ یہ عمل ہو تو ظاہر ہے کہ اس بندہ میں میل کچیل کا نام و نشان بھی نہ رہ سکے گا۔ پس یہی حقیقت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال کے ذریعہ سمجھائی ہے۔ یعنی جس طرح پانچ مرتبہ غسل کرنے سے جسم پر میل باقی نہیں رہ سکتا اسی طرح پانچوں وقت کی نماز ادا کرنے سے گناہ بھی باقی نہیں رہ سکتے۔ اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دیتا ہے۔ گناہوں اور خطاؤں کے برے اثرات قلب پر پڑتے ہیں۔ یہ اثرات نماز سے زائل ہو جاتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ نماز حقیقت میں نماز ہو۔ محض دکھاوے کی نماز نہ ہو۔ بلکہ پورے آداب اور حضور قلب کے ساتھ ادا کی گئی ہو۔ بےشک اللہ تعالٰی کا قرب اور اس قرب کی کیفیت جو بندے کو نماز میں حاصل ہوتی ہے اس کی موجودگی میں گناہ کیسے باقی رہ سکتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اس حقیقت پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے:۔ "دن کے دونوں کناروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیا کرو۔ بےشک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں اور یہ نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کے لیے"۔ (ہود۔114)۔ ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےسردی کے دِنوں میں ایک درخت کی دو ٹہنیوں کو پکڑا اور ہلایا تو ایک دم اس کے پتے جھڑنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: "اے ابوذر! جب بندہ مومن خالص اللہ کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ان پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں۔ (مسنداحمد)۔ یعنی جس طرح آفتاب کی شعاعوں اور موسم کی خاص ہواؤں نے ان پتوں کو خشک کردیا ہے اور یہ ہوا کے معمولی جھونکوں سے اور ذرا سی حرکت دینے سے اس طرح جھڑتے ہیں اسی طرح جب بندہ مومن پوری طرح اللہ تعالٰی کی طرف متوجہ ہوکر صرف اس کی رضا جوئی کے لیے نماز پڑھتا ہے تو انوار الٰہی کی شعاعیں اور رحمت الٰہی کے جھونکے اس کے گناہوں کی گندگی کو فنا اور اس کے قصوروں کے میل کچیل کو اس سے جدا کرکے اس کو پاک صاف کردیتے ہیں۔
 
Top