نماز ضرورت ، عادت یا مجبوری کیوں؟

ساجدتاج

محفلین
نماز ضرورت ، عادت یا مجبوری کیوں؟

السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ:۔



نماز ضرورت ، عادت یا مجبوری کیوں؟


انسان اپنا آپ سنوارنے کے لیے ساری عمر کچھ نہ کچھ کرتا ہی رہتا ہے۔ چہرہ اچھا کرنے کے لیے بیوٹی پالرز اور بے شمار کریموں کا سہارا لیتا ہے۔ دوسروں کو اچھا لگنے اور دکھاوے کے لیے اچھے اور مہنگے مہنگے کپڑوں کا استعمال کرتا ہے۔ دنیا میں اچھا مقام حاصل کرنے کے لیے کتنوں کی جڑیں کاٹتے ہیں اور کتنوں کا حق مار لیتے ہیں یہ معصومانہ انداز میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کتنی محنت سے یہ سب حاصل کیا ہے۔ اپنا مال بیچنے کے لیے من گھڑت جھوٹی باتوں اور جھوٹی قسموں کا سہارا لیتا ہے۔ پیسہ کمانے کی ہوس میں دن رات محنت کرتا ہے، عارضی رشتوں کو نبھاتے نبھاتے ایک دن دنیا سے ہی رُخصت ہو جاتا ہے لیکن آخر میں‌ملتا کیا ہے ؟ صرف دو گز کفن کے دو گز زمین۔ جن کے ساتھ اچھا کیا اُن کے منہ سے چند اچھے الفاظ نکلتے ہوں گے اور جن کے ساتھ زیادتی کی ، پریشان کیا ، کسی کو دکھ و پریشانی میں‌ مبتلا کیا ، کسی کا حق مارا یا کسی بھی طرح سے کسی کو نقصان پہنچایا اُن کے منہ سے بدعائیں اور گالیاں ہی نکلتی رہتی ہیں۔

اس مختصر سی زندگی میں اپنے رِب کو کہاں خوش اور راضی کیا ؟‌ اُس کے احکام کب اور کہاں مانے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے سے اپنی زندگی گزاری؟

آج کا مسلمان جب کوئی اچھا یا نیک کام کرتا ہے تو اُس کے پیچھے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ اپنے رَب سے ڈرتا ہے یا اُس ذات کو راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ وہ یہ سب کام اپنے کسی مقصد یا کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کرتا ہے۔

کسی غریب کی مدد کرتا ہے تا کہ وہ لوگ اُس کو یہ کہیں کہ کتنا نیک اور رحم دل انسان ہے اور ہم اپنی خوشامد
کروا کر خوش ہوتے ہیں۔ کسی کی مدد کر کے ہم اُس کو اپنا محتاج بنا لیتے ہیں اور اُس سے کچھ بھی کام کروا لیتے ہیں‌کیونکہ وہ شخص اُس کے احسانوں کے تلے دبہ جو ہوتا ہے۔
کسی کو پیشہ دیتے وقت یہ سوچ نہیں‌رکھتے کہ کسی کی ضرورت پوری ہو جائے گی بلکہ یہ سوچ کر دیتےہیں‌کہ اُس سود سمیت واپس لیا جائے۔
ہمیں‌نماز پڑھنے کا حکم ہوا مگر ہم نماز کو بھی عادت ، مجبوری یا ضرورت سمجھ کر پڑھتے ہیں‌۔ نماز پڑھتے ہمارے ذہنوں میں شیطانی وسوسے چل رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح پیسہ کمایا جائے، نماز پڑھتے ہوئے ہی سوچ رہے ہوتے ہیں کہ نماز کے بعد دوستوں کے گھومنے پھرنے جائیں گے یا جانا ہے، نماز پڑھنے کے بعد کون سی فلم دیکھیں گے، اللہ تعالی کے گھر کھڑے ہو کر ہمارے دل اور ذہن میں‌کسی سے جھوٹ بولنے کی پلاننگ جاری ہو گی، نماز مسلمان کو اللہ کے ایک ہونے کا یقین دلاتی ہے اور اللہ تعالی کی واحدانیت ہونے کا احساس دلاتی ہے مگر ہم نماز پڑھتے وقت ہی یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ نماز کے فورا بعد ہم نے دربار میں حاضری دینے بھی جانا ہے وہاں بھی سلام کرنا ہے۔ نماز پڑھتے وقت انسان اللہ تعالی سے ہم کلام ہوتا ہے مگر ہمارے ذہنوں میں‌ گھر ، رشتے دار ، فحاشی ، جھوٹ ، غیبت، پیسہ ، لالچ، کاروبار ، فیوچر پلاننگ اور پتہ نہیں‌کیا کیا چیزیں گھوم رہی ہوتی ہیں۔

ہم نماز کو نماز سمجھ کر پڑھتے ہی نہیں‌جس طرح سے اللہ تعالی اور اُس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو دنیا میں اَن گنت نعمتوں سے نوازا ہے جس کا شکر ادا انسان اگر ساری زندگی بھی کرے اور وہ اُس پاک ذات کی ایک نعمت کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ انسان ہے ہی ناشُکرا۔

اللہ تعالی کی خوبصورت نعمتوں میں سے ایک خوبصورت نعمت نماز ہے جس کو انسان اگر اپنا لے وہ ساری زندگی گمہراہ نہیں‌ہو سکتا۔ نماز کوئی ضرورت ، مجبوری یا عادت نہیں بلکہ نماز ہم مسلمانوں کو دوسرے انسانوں سے الگ کرتی ہے۔ نماز اگر سچے دل ، مخلص ایمان اور مکمل یقین کے ساتھ پڑھی جائے کہ یہ ہمارے رَب کا حکم ہے اور ہمیں‌ اپنے رَب کا حکم ماننا ہے تو انسان کی حفاظت ذمے داری اللہ تعالی پر ہوتی ہے۔

نماز پڑھنے والا اچھے بُرے کی پہچان کر سکتا ہے۔
نماز کو سچے دل اور سمجھ کر پڑھنے والا ہمیشہ بُرائی سے دور رہتا ہے
ہمشیہ پاک صاف رہتا ہے، اُس کا چہرہ نورسے بھرا ہوتا ہے اُسے کسی پالر یا کریم کی ضرورت نہیں ہوتی
نماز پڑھنے سے انسان کو جو دلی سکون ملتا ہے وہ دنیا کے کسی کام کو کرنے میں‌نہیں‌ملتا۔
نماز اللہ تعالی کو راضی کو کرنے اور اُس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
جو لوگ اپنے رَب کو راضی کر لیتے ہیں انہیں دُنیا کی کوئی چیز نقصان نہیں‌پہنچا سکتی۔
جو لوگ اپنے رَب سے مخلص ہو کر اُس کی بارگاہ میں‌سجدہ ریز ہوتے ہیں تو رَب اپنی رحمت کے تمام دوازے اپنے بندے کے لیے کھول دیتاہے۔
جس کو اپنے رَب کے ساتھ محبت ہو جائے اُس کے لیے دنیا کی کوئی محبت معنی نہیں‌رکھتی۔
رَب سے رشتہ جوڑے رکھنے والا دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

نوٹ:۔

ہم دن میں کتنے غلط کام کرتے ہیں، کتنی بار گناہوں کا حقدار بنتے ہیں، کتنی بار اپنے رَب کو ناراض کرتے ہیں، دن میں‌ کتنے ہی جھوٹ بولتے ہیں ، کتنی چغل خوری اور غیبت کرتے ہیں، چوری ، ڈاکا ، لوٹ مار، زنا اور پتہ نہیں‌کن کن کاموں سے خود کو جہنم کی آگ کی آگ کی طرف لے جارہے ہیں۔ لیکن کبھی یہ نہیں سوچا کہ ایک ذات ایسی بھی ہے جو ہمیں‌یہ سب کام کرتے ہوتے دیکھ رہی ہے۔ ہم اپنی طرف سے ہر گناہ دنیا سے چھپ کر کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتےہیں کہ ایک ذات ایسی بیٹھی ہے اوپر آسمان پر جس سے کچھ چھپا ہوا نہیں‌ہے۔ کیا ہم سے کچھ چھپا کے قابل ہیں ؟ کیا اُس سے کچھ چھپ سکتا ہے؟
پورے دن کی مصروفیت میں‌کیا ہم اپنے رَب کے لیے دن میں‌ پانچ بار صرف چند منٹس نہیں نکال سکتے؟ اُس کی ذات ہمیں‌ دنیاوی کاموں سے کب منع کرتی ہے لیکن جب ہم دنیاوی کاموں میں‌ اُس رَب کو بھول جائیں گے تو کیا پھر ہم مصیبتوں ، مشکلوں ، پریشانیوں اور بیماریوں کے حقدار نہیں؟
نماز پڑھنے کی جب نیت کریں تو اُسے پختہ ایمان کے ساتھ ادا کریں۔ نماز کو وقتی ضرورت ، عادت یا مجبوری نہ سمجھیں یہ نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے۔ نماز پڑھیں گے پڑھیں گے کرتے کرتے کہیں ہماری نماز پڑھنے کا وقت نہ ہو جائے۔

سوچ اے انسان

تحریر : ساجد تاج​
 
Top