نفاق کی نشانیاں

عاصم مٹھو

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تمام تعریفیں اُس اللہ کے لیے جس نے سب جہانوں کو صرف چھ ۶ دن میں پیدا کیا اور اُس سبحان اور اعلٰی ذات کو زرہ سی بھی تھکان نہیں ہوئی اور درود و سلام اور ہزاروں لاکھوں کروڑوں انگنت رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پر اُن کی آل پر اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم پر۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ Ď۝ۘ
اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو (زبان سے تو) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کے دن پر مگر وہ ایمان دار ہیں نہیں
يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ Ḍ۝ۭ
وہ اللہ تعالٰی اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔
فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَھُمُ اللّٰهُ مَرَضًا ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌۢ ڏ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ 10۝
ان کے دلوں میں بیماری تھی اور اللہ تعالٰی نے انہیں بیماری میں مزید بڑھا دیا اور ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
سورۃ البقرہ آیت نمبر ۸،۹،۱۰
جس طرح ایمان اور کفر کی مختلف قسمیں اور صورتیں ہیں اسی طرح " نفاق" کی بھی دو۲ قسمیں ہیں
اعتقادی نفاق یہی حقیقی نفاق ہے یعنی بظاہر اللہ کی توحید ، رسالت، فرشتے، اور حشر و نشر کے اعتقاد رکھنے کا دعوی کرنا مگر دل سے اس کا انکار کرتا ہے۔ یہی وہ نفاق ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا۔ اسی نفاق کو قرآن مجید نے کفر بھی کہا ہے اور اسی نفاق کے بارہ میں یہ وعید آئی ہے کہ دوزخ میں منافقین کا ٹھکانا کافروں سے بھی نیچے ہوگا،
عملی نفاق
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص میں چار باتیں ہوں گی، وہ منافق ہوگا یا جس شخص میں ان چاروں میں سے کوئی خصلت ہو گی، تو اس میں نفاق کی خصلت ہو گی، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔
اس حدیث سے عملی نفاق کی وضاحت ہوتی ہے کہ جس میں جتنی زیادہ نشانیاں ہونگی وہ اتنا ہی منافقین کے قریب ہوگا یعنی ایک مسلم کو ڈرایا کہ ان علامات میں سے اپنے اندر کوئی علامت پیدا نہ ہونے دے ورنہ آخرت میں آگ کا عذاب بھگتنا ہوگا۔
اب ان شاءاللہ اُن نشانیوں پر بات کریں گے جو منافقین کی قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔
بشیر بن خالد، محمد، شعبہ، سلیمان، عبداللہ بن مرہ، مسروق عبداللہ بن عمرو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص میں چار باتیں ہوں گی، وہ منافق ہوگا یا جس شخص میں ان چاروں میں سے کوئی خصلت ہو گی، تو اس میں نفاق کی خصلت ہو گی، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے، جب وہ گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے، اور جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے، اور جب جھگڑا کرے تو بد زبانی کرے۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2297 حدیث مرفوع
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو چار ۴ نشانیاں بتائیں ہیں۔
نمبر۱۔جھوٹ بولنامنافق کی بڑی نشانی ہے۔بعض لوگ لوگوں کو ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بول جاتے ہیں تو اس سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو منع کیا ہے۔ اس آدمی کے لیے تباہی ہے جو باتوں باتوں میں اس لیے جھوٹ بولتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کے لیے ہلاکت ہے۔
مسند امام احمد،جلد ۵
جھوٹا شخص ہر حال میں لعنتی ہے خواہ وہ سنجیدگی میں جھوٹ بولے یا مذاق میں۔
جھوٹا پن ایک مسلم کی پہچان نہیں ہو سکتا کیونکہ منافقین اسی جھوٹ کی بدولت اپنے کفر کو چھُپاتے ہیں ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ۔۔۔۔۔
صفوان بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ کیا مؤمن بودا بزدل ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں، پھر پوچھا کیا مومن بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں، پوچھا کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں۔
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 2371
یعنی مومن سے دوسرے گناہ تو ہو سکتے ہیں مگر مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
مگر افسوس بعض لوگ جھوٹ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور وہ بھی اس کو جائز سمجھتے ہوئے حالانکہ قرآن مجید میں اللہ نے جھوٹوں پر لعنت بھی کی ہے اللہ ہم کو ایسے جھوٹوں سے بچا کر رکھے،آمین۔
نمبر۲۔وعدہ خلافی ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان اپنا اعتماد دوسروں کی نظروں میں کھو دیتا ہے اور اعمال نامے میں نفاق کی ایک علامت کا اضافہ بھی کروا لیتا ہے اس لیے اگر آپ کسی سے کوئی وعدہ کریں ساتھ ان شاءاللہ کہیں اور ساتھ یہ وضاحت بھی کر دیں کہ یہ وعدہ نہیں ہے میں کوشش کروں گا کہ کام ہو جائے اگر نہ کر سکا تو معذرت چاہتا ہوں اس طرح اگر وہ کام آپ سے نہ ہو سکے تو آپ پر کچھ گناہ نہ ہوگا۔
نمبر۳۔عہد شکنی۔ چاہے کسی کافر سے بھی کوئی معاہدہ کرے تو بھی اس کے خلاف نہ کرے۔
عبد اللہ بن ہاشم، عبدالرحمن ابن مہدی، سفیان، علقمہ بن مرثد، حضرت سلیمان بن بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آدمی کو کسی لشکر یا سریہ کا امیر بناتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خاص طور پر اللہ سے ڈرنے اور جو ان کے ساتھ ہوں ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت فرماتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا نام لے کر اللہ کے راستے میں جہاد کرو عہد شکنی نہ کرو اور مثلہ نہ کرو اور کسی بچے کو قتل نہ کرو اور۔۔۔۔۔الخ
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 25 حدیث مرفوع
نمبر۴۔گالیاں دینا۔ یہ ایک بہت ہی بُرا فعل ہے گالی دینے میں پہل کرنے والا اصل میں اپنے والدین کو خود گالی دلوانے کا سبب بنتا ہے،
احمدبن یونس، ابراہیم بن سعد، سعد، حمیدبن عبدالرحمن، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت کرے، کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! آدمی اپنے ماں باپ پر کس طرح لعنت کرسکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی دوسرے کے باپ کو گالی دے تو وہ اس کے ماں اور باپ کو گالی دے گا۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 913

سلیمان بن حرب، شعبہ، منصور، ابووائل، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کا ایک دوسرے کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے،
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 982
اور جو کچھ آج کل ہو رہا ہے اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ نبی علیہ السلام کے ساتھیوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دی جاتی ہیں وہ بھی دین اور ثواب سمجھ کر اللہ ان ظالموں کو ہدایت دے اور ان کے مذہب میں یہ لازمی ہے کہ وہ لعان طعان کریں نبی علیہ السلام کے ساتھیوں پر اصل میں یہی لعنت اُنہی پر لوٹ کر واپس آتی ہے ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اگر کسی نے کسی مسلم بھائی پر لعنت کی اور وہ لعنتی نہ ہوا تو وہ لعنت کہنے والے پر پلٹ جاتی ہے اور اسی طرح ایک اور ارشادِ نبی ﷺ ہے کہ اگر کسی نے کسی مسلم کو کافر کہا اور وہ کافر نہ ہوا تو کہنے ولا کافر ہو جائے گا
زہیر بن حرب، عبدالصمد بن عبدالوارث، حسین ابن بریدہ، یحیی بن یعمر، ابواسود، حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا۔
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219

اب اگر کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے تو یہ الفاظ اسی ظالم پر واپس آ جاتے ہیں اور وہ لعنتی کافر کرار پاتا ہے۔
اللہ ہم کو ایسے بُرے لوگوں سے،بُری صحبت سے بچا کر رکھے آمین۔
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٤٢؁ۡۙ
بیشک منافق اللہ سے چال بازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی برائے نام کرتے ہیں ۔سورۃ النسا ۱۴۲
اس ایک آیت میں منافق کی ۳ نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔
۱۔عبادت میں کاہلی دیکھانا،
۲۔لوگوں کو دیکھانے کی خاطر نماز ادا کرنا،
ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، سلمہ ابن کہیل حضرت جندب علقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی لوگوں کو سنانے کے لئے کوئی کام کرے گا تو اللہ تعالی اس کی ذلت لوگوں کو سنائے گا اور جو آدمی دکھلاوے کے لئے کوئی کام کرے گا تو اللہ تعالی اس کی برائیاں لوگوں کو دکھلائے گا۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2980 حدیث مرفوع
قیامت کے دن بھی اللہ ایسا کر سکتا ہے اور اس زندگی میں بھی ایسا کر سکتا ہے۔اس زندگی میں کرے تو بھی بدنامی آخرت میں کرے تو اس سے بھی زیادہ نقصان ہوگا۔ اور ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ریاکاری شرک خفی ہے۔
۳۔اللہ کا ذکر بہت کم کرنا،
یحیی بن ایوب، محمد بن صباح، قتیبہ و ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، علاء بن عبدالرحمن، حضرت علاء بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر بصرہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ تو منافق کی نماز ہے کہ سورج کو بیٹھے دیکھتا رہتا ہے جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان میں ہوتا ہے تو کھڑا ہو کر چار ٹھونگیں مارنے لگ جاتا ہے اس میں اللہ تعالی کا ذکر نہیں کرتا مگر بہت تھوڑا۔
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1407 حدیث مرفوع
منافق کی نشانی ہے کہ اللہ کو یاد تو کرتا ہے مگر بہت کم آج ہم کو اپنا جائزہ بھی لینا چاہیے کہ ہم اللہ کا کتنا ذکر کرتے ہیں اگر اللہ کو دن میں بلکل ہی یاد نہیں کرتے تو کیا ہم مسلمان کہلانے کا حق رکھتے ہیں؟اللہ کا تو حکم ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ الاحزاب ۴۱
اللہ ہم سب کو ۵ وقت کا نمازی بنائے آمین۔
منافق کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اہلِ ایمان والوں پر طعنہ زنی کرتا ہے
اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي الصَّدَقٰتِ وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْ ۭ سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ ۡ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 79؀
جو لوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر نہیں، پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے انہی کے لئے دردناک عذاب ہے۔
بشر بن خالد، غند ر، شعبة، سلیمان، ابووائل، ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس وقت ہم لوگوں کو صدقہ خیرات کرنے کا حکم فرمایا تو ابوعقیل آدھا صاع لے کر حاضر ہوئے اور ایک آدمی زیادہ لے کر حاضر ہوا تو اس پر منافقین نے کہا کہ اس (ابو عقیل) کے صدقہ سے اللہ بے نیاز ہے (یعنی اس قدر معمولی صدقہ خیرات کی اس کو کیا ضرورت ہے؟) اور دوسرے شخص نے ریاکاری کے واسطے صدقہ خیرات کیا ہے اس پر یہ آیت تلاوت کی۔
سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 441 حدیث مرفوع
افسوس کہ آج تک اُن منافقوں کی نسل چلتی آ رہی ہے جو منافق نبی علیہ السلام کی زندگی میں صحابہ کرام کی شان میں گستاخیاں کرنے سے نہیں ڈرتے تھے آج وہ کس سے ڈر سکتے ہیں۔الحمد للہ کہ اللہ نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے یہاں نہیں تو آخرت میں اپنے کیے کا اجر پا کر رہیں گے۔ان شا اللہ
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْ۔َٔ۔لُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١٤١؁ۧ
یہ امت ہے جو گزر چکی، جو انہوں نے کیا ان کے لئے ہے اور جو تم نے کیا وہ تمہارے لئے، تم ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہ کئے جاؤ گے۔ سورۃ البقرہ ۱۴۱
اس اللہ کے حکم کے بعد ہمارے پاس کیا دلیل ہے کہ ہم گزرے ہوئے لوگوں پر لعن طعن کریں اور وہ بھی اصحابِ رسول ﷺ پر اللہ کی پناہ ایسے بُرے عمل سے۔
دین کی باتوں کا مذاق اُڑانا
آج کل جہالت کی بناہ پر بہت سے مسلمان کہلانے والے خود اپنے دین کا مذاق اُڑاتے ہیں، مثلا کوئی باحیا عورت پردہ کرتی ہے تو اس سے مذاق کیا جاتا ہے کہ وہ دیکھو ڈاکو جا رہی ہے،
اگر کوئی مرد سنت کے مطابق ڈارھی رکھتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ کیا سکھوں کی طرح ڈارھی رکھ لی ہے
)اللہ کی پناہ ایسے کفریہ الفاظ سے(
وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ ۭ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُ وْنَ 65؀
اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ۔
لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ ۭاِنْ نَّعْفُ عَنْ طَاۗىِٕفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَاۗىِٕفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِيْنَ 66؀ۧ
بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں تو دوسری جماعت کو سزا بھی دینگے۔ کیونکہ وہ گناہ کرتے رہے ہیں۔
سورۃ التوبہ آیت ۶۵۔۶۶
ایک اور بات یہاں کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ آجکل موبائیل پر ایسے لطیفے پوسٹ کیے جاتے ہیں جن میں جنت،جہنم،فرشتوں،نماز،مسجد وغیرہ سے مذاق کیا جاتا ہے اگر ایسا میسج آپ کو ملے تو اس کو فورا مِٹا دیں اور بھیجنے والے کو بھی سمجھائیں کہ یہ کفریہ کام ہے۔
جھوٹی قسمیں کھانا
منافقین کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں حالانکہ دل میں اُن کے کچھ اور ہوتا ہے۔
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَهَاۗءُ ۭ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَهَاۗءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ 13۝
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اور لوگوں (یعنی صحابہ) کی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو جواب دیتے ہیں کہ ہم ایسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لائے ہیں، خبردار ہو جاؤ یقیناً یہی بیوقوف ہیں، لیکن جانتے نہیں ۔
وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا ښ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ 14۝
اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان والے ہیں جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں ، تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں۔ سورۃ البقرہ آیت ۱۳،۱۴
اِتَّخَذُوْٓا اَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنَّهُمْ سَاۗءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ Ą۝
انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے پس اللہ کی راہ سے رک گئے ،بے شک برا ہے وہ کام جو یہ کر رہے ہیں۔
سورۃ المنافقون آیت ۲
ان آیات میں جھوٹ بولنا اور جھوٹی قسموں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا بتایا گیا ہے۔ ایک مسلم کا ایسا رویہ نہیں ہوتا وہ دل سے ایمان لاتا ہے جیسا کہ کہا کہ ان جیسا ایمان لاؤ ظاہر ہے اشارہ ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف تو اس جگہ بھی منافقین نے ان کا مذاق ہی اُڑایا یہ شروع سے ہی منافقین کی خاص پہچان رہی ہے کہ جیسے بھی ہو صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کی جائے تو آج بھی آپ اُن کو پہچان سکتے ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ایسے بُرے عمل سے بچا کر رکھے۔آمین
نماز با جماعت سے پیچھے رہنا۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشرعبدی، زکریا بن ابی زائدہ، عبدالملک بن عمیر، ابی احوص، حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ہم دیکھتے تھے کہ سوائے منافق کے نماز سے کوئی بھی پیچھے نہیں رہتا تھا جس کا نفاق ظاہر ہو یا وہ جوبیما رہو اگر بیمار ہوتا تو بھی دو آدمیوں کے سہارے چلتا ہوا نماز پڑھنے کے لئے آجاتا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سنن ہدی سکھایا ہے اور سنن ہدی میں یہ کہ اس مسجد میں نماز پڑھنا کہ جس میں اذان دی جاتی ہو۔
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1482 حدیث متواتر

اس بندے کا معاملہ تو واضح ہے جو ایسے علاقے میں رہتا ہے جہاں مسلم کم ہیں یا جہاں مسجد نہیں ہے وہ گھر میں ہی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ نماز پڑھ لے مگر جہاں مسجد ہو وہاں باجماعت نماز کے لیے نہ جانا نفاق کی پکی علامت ہے۔
اللہ کو بھولنا
اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ لْمَعْرُوْفِ وَيَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَهُمْ ۭنَسُوا اللّٰهَ فَنَسِيَهُمْ ۭاِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 67؀
منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں، یہ لوگ برائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے روکتے ہیں، اور یہ بند رکھتے ہیں اپنے ہاتھوں کو (ہر کار خیر سے) یہ بھول گئے اللہ کو، جس کے نتیجے میں اللہ نے ان کو بھلادیا بلاشبہ یہ منافق پکے بدکار ہیں
سورۃ التوبہ آیت ۶۷
اس ایک آیت میں اللہ نے نفاق کی ۴ نشانیاں بتائیں ہیں۔
۱۔بُرائی کا حکم دیتے ہیں،
آجکل میوزک ساز کو جائز اور حلال بتانے والوں کی آپ کو کمی محسوس نہیں ہو گی یعنی کہا جاتا ہے کہ قوالی میوزک کے ساتھ سُننا جائز ہے بلکہ میں نے کئی بار لوگوں کو منع کیا کہ بھائی میوزک اسلام میں حرام ہے تو جواب ملتا ہے کہ یہ قوالی میوزک کے ساتھ سُننا جائز ہے فلاں فلاں مولوی صاحب اس کو جائز کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ دینِ اسلام میں حرام پلید کام ہے مگر جاہل لوگ اس کو دین بنا کر پیش کر رہے ہیں یعنی بُرائی کا حکم دیتے ہیں وہ بھی دین بنا کر یہ اس سے بھی بڑی گمراہی پھلا رہے ہیں۔
" حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، راگ وگانا دل میں نفاق کو اس طرح اگاتاہے جس طرح پانی کھیتی کواگاتاہے۔ (بہیقی)
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 741
ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ میوزک کے جتنے بھی اوزار ہیں وہ سب شیطان کے ہتھیار ہیں جن سے وہ مسلمانوں کو گمراہ کرتا ہے۔ اس حدیث کا حوالہ مجھے ابھی یاد نہیں ہے اگر کسی بھائی کو معلوم ہو تو پلیز بتا دے جزاک اللہ۔
اس احادیث کو پڑھنے کے بعد سمجھ آتی ہے کہ میوزک کو کیوں یہ لوگ عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ دلوں میں نفاق پیدا ہو جائے۔ اے اللہ تو ہم کو ان ظالموں کی چالوں سے بچا کر رکھنا آمین۔
۲۔بھلائی سے روکتے ہیں،
جب کوئی بُرائی کی دعوت عام کر رہا ہوتا ہے تو اصل میں وہ لوگوں کو بھلائی سے روک کر بُرائی میں لے جارہا ہوتا ہے۔
۳۔خیر کے کاموں سے اپنے ہاتھوں کو روکے رکھتے ہیں،
یعنی اگر کسی غریب کی مدد کا معاملہ آجائے تو کہیں گے کہ ہمارا آجکل گزارہ مشکل سے ہو رہا ہے مگر جب فضولیات کا معاملہ آتا ہے مثلا بسنت،کوئی میلہ ٹھیلہ،کسی دوست کی مہندی کی ہندوانہ رسم،اس طرح کے اور بہت سے کام تو پتا نہیں کہاں کہاں سے پیسے نکل آتے ہیں ہزاروں لاکھوں روپے اسی عیاشی کی نظر کر دیتے ہیں مگر کسی غریب مسکین کی مدد ان سے نہیں ہوتی۔
۴۔اللہ کو بھول گئے۔
جب ایک انسان اپنے مالک خالق کو بھول جاتا ہے تبھی وہ ایسے بُرے کام کرتا ہے اگر ان کو اللہ یاد ہوتا تو ایسے عمل کرنے سے اللہ سے ڈر نہ جاتے۔
اہلِ ایمان کی مشکل میں خوش ہونا۔
اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۚ وَاِنْ تُصِبْكَ مُصِيْبَةٌ يَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَّهُمْ فَرِحُوْنَ 50؀
اگر آپ کو کوئی اچھی حالت پیش آئے تو ان کو یہ امر برا لگتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پڑجائے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنا کام پہلے ہی ٹھیک کرلیا تھا، اور یہ لوٹتے ہیں خوشیاں کرتے ہوئے، سورۃ التوبہ آیت ۵۰
جہاد نہ کرنا یا اس کی تمنا نہ ہونا نفاق کی ایک قسم ہے۔
عبدہ بن سلیمان، ابن مبارک، وہیب، عمر بن محمد بن منکدر، سمی ابوصالح، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو اس حال میں مرا کہ نہ اس نے جہاد کیا اور نہ ہی اس کے دل میں جذبہ جہاد پیدا ہوا تو گویا وہ ایک طرح کے نفاق سے مرا۔
کتاب سنن ابوداؤد جلد 2 حدیث نمبر 730
فحش گوئی اور فضول گپ شپ
حضرت ابوامامہ نبی سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا شرم وحیا اورزبان کو قابو میں رکھنا ایمان کی دوشاخیں ہیں جب کہ فحش گوئی اور لاحاصل بکواس نفاق کی دوشاخیں ہیں۔ (ترمذی)
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 729
منافق بزدل ہوتا ہے۔
وَاِذَا رَاَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْ ۭ وَاِنْ يَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۭ كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۭ يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۭ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ ۡ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ Ć۝
اور جب تم ان (کے تناسب اعضاء) کو دیکھتے ہو ان کے جسم تمہیں (کیا ہی اچھے معلوم ہوتے ہیں اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو تم ان کی تخریج کو توجہ سے سنتے ہو گویا لکڑیاں ہیں جو دیواروں سے لگائی ہوئی ہیں کہ (بزدل ایسے کہ) ہر زور کی آواز کو سمجھیں (کہ) ان پر (بلا آئی) یہ (تمہارے) دشمن ہیں ان سے بے خوف نہ رہنا۔ اللہ ان کو ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔سورۃ المنافقون آیت ۴
اس آیت مبارکہ میں منافق کی ۳ نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔
نمبر ۱۔ ان کے جسم ظاہر میں بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔
ظاہر میں ان کے جسم تو بہت خوبصورت ہیں مگر دل کی حالت بنجر زمین سے بھی بدتر ہوتی ہے دل کی صفائی ستھرائی کی طرف بلکل ہی توجہ نہیں۔
نمبر ۲۔ جب بات کرتے ہیں تو چرب زبانی اور متکبرانہ انداز۔
نمبر۳۔ بزدل ایسے کہ ہر زور کی آواز سے ڈر جائیں۔
منافق بزدل ہوتا ہے اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے مگر جو ظالم صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو اس صف میں کھڑا کرتے ہیں وہ ظالم غزوہ بدر، غزوہ اُحد، غزوہ حنین، غزوہ خندق اور نبی علیہ السلام کی زندگی میں جتنے بھی غزوے اور سریہ ہوئے اور آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی جتنی جنگیں ہوئیں اُن سب میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی بہادری، شجاعت بھول گئے ہیں؟ کہاں ۳۱۳ اور کہاں ۱۰۰۰،کہاں ۳۰۰۰ مسلمین اور کہاں کفار ۱۰ ہزار، ایرانی آتش پرستوں اور رومیوں کے ساتھ جنگوں میں بھی ایک مسلم کا مقابلہ ۱۰۔۱۰ مشرکوں سے تھا پھر بھی الحمد للہ مسلمین کو فتح نصیب ہوئی اور ایرانی آتش پرستوں اور رومی عیسائیوں کو شکستِ فاش ہوئی یہ سب کچھ اللہ کی نصرت اور مدد سے ہی ممکن ہوا تھا اور اللہ کی مدد مومنین مسلمین کے ساتھ ہوتی ہے نہ کے منافقین کے ساتھ۔اصل میں جب انسان کی عقل پر تعصب کا پردہ پڑ جاتا ہے تو وہ خوبیاں نہیں بلکہ خامیاں تلاش کرتا ہے،
بیعتِ رضوان کے دن اللہ نے یہ خوشخبری نازل کی۔۔۔۔۔۔۔
لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا 18؀ۙ
بے شک الله مسلمانوں سے راضی ہوا جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے پھر اس نے جان لیا جو کچھ ان کے دلو ں میں تھا پس اس نے ان پر اطمینان نازل کر دیا اور انہیں جلد ہی فتح دے دی
سورۃ الفتح آیت نمبر ۱۸
علی بن عبداللہ مدینی، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے دن صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا: آج تم تمام زمین والوں سے افضل ہو۔ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اس دن چودہ سو آدمی تھے۔ اگر آج میں بینا ہوتا تو تم کو درخت کی جگہ بتاتا اس حدیث کو سفیان کے ساتھی اعمش بھی بیان کرتے ہیں انہوں نے سالم بن ابی جعد سے سنا اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ چودہ سو آدمی تھے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1323

قتیبہ بن سعید، حاتم، یزید بن ابی عبید سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت سلمہ بن اکوع سے کہا کہ تم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کس اقرار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی تھی وہ کہنے لگے ہم نے موت پر بیعت کی تھی۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1335
آیت اور احادیث سے اس بات کی وضاحت ہوئی کہ اللہ ان ۱۴۰۰ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے دلوں میں ایمان کو جان لیا اور ان سے راضی ہوا اور آپ سب بھائی بہنیں جانتے ہونگے کہ عبداللہ بن ابی جس کو منافقوں کا سردار کہہ لیں وہ اپنے سب منافق ساتھیوں کو ساتھ لے کر واپس مدینہ چلا گیا تھا بیعت رضوان کے وقت ایک بھی منافق نبی علیہ السلام کے ساتھ نہیں تھا اللہ نے خود ہی حکمت سے ان کو مومنین سے علیحدہ کروا دیا تھا۔
۱۴۰۰ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے موت پر بیعت کی کیا کوئی بزدل ایسا قدم اُٹھا سکتا ہے؟ یقینا ڈرپھوک منافق ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ ان کے علاوہ اور بہت سی قرآن کی آیات اور احادیث مبارکہ ہیں جن میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی فضیلت بیان ہوئی ہے شانِ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم تھریڈ میں سب داخل کروں گا ان شاءاللہ۔
انصار (صحابہ کرام) سے دشمنی نفاق کی نشانی۔
ابوالو لید، شعبہ، عبد اللہ بن جبیر، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (نقل کرتے ہیں) کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انصار سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی نشانی ہے اور انصار سے دشمنی رکھنا منافق ہونے کی علامت ہے۔
کتاب صحیح بخاری جلد 1


محمد بن مثنی، عبدالرحمن، ابن مہدی، شعبہ، عبد اللہ بن عبد اللہ بن جبیر حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا منافق کی علامت انصار سے بغض ہے اور ایمان کی علامت انصار سے محبت ہے۔
کتاب صحیح مسلم جلد 1 حدیث نمبر 237
نبی علیہ السلام کے ان ارشادات پر کوئی تشریح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
نفاق سے بچنے کی دعا۔

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ حَدَّثَنَا ضُبَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السُّلَيْکِ عَنْ دُوَيْدِ بْنِ نَافِعٍ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ السَّمَّانُ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَدْعُو يَقُولُاللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ الشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَسُوئِ الْأَخْلَاقِ


عمرو بن عثمان، ضبارہ بن عبد اللہ بن ابی سلیک، دوید بن نافع، ابوصالح سمان، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا کرتے تھے اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں عداوت سے، نفاق سے، اور بد اخلاقی سے۔
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1533
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو صراط مستقیم پر ثابت قدمی سے چلائے اور کفار اور منافقین کی چالوں سے،ان کی گمراہیوں سے ہم کو بچا کر رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
 
Top