حسن رضا نعت ۔ ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا

ہے پاک رُتبہ فکرسے اُس بے نیاز کا​
از: استادزمن علامہ حسن رضا بریلوی
ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا​
کچھ دخل عقل کا ہے نہ کام اِمتیاز کا​
شہ رگ سے کیوں وصال ہے آنکھوں سے کیوں حجاب​
کیا کام اس جگہ خردِ ہرزہ تاز کا​
لب بند اور دل میں وہ جلوے بھرئے ہوئے​
اﷲ رے جگر ترے آگاہ راز کا​
غش آ گیا کلیم سے مشتاقِ دید کو​
جلوہ بھی بے نیاز ہے اُس بے نیاز کا​
ہر شے سے ہیں عیاں مرے صانع کی صنعتیں​
عالم سب آئینوں میں ہے آئینہ ساز کا​
اَفلاک و ارض سب ترے فرماں پذیر ہیں​
حاکم ہے تو جہاں کے نشیب و فراز کا​
اس بے کسی میں دل کو مرے ٹیک لگ گئی​
شُہرہ سنا جو رحمتِ بے کس نواز کا​
مانندِ شمع تیری طرف لَو لگی رہے​
دے لطف میری جان کو سوز و گداز کا​
تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شمار جرم​
دیتا ہوں واسطہ تجھے شاہِ حجاز کا​
بندہ پہ تیرے نفسِ لعیں ہو گیا محیط​
اﷲ کر علاج مری حرص و آز کا​
کیوں کر نہ میرے کام بنیں غیب سے حسنؔ​
بندہ بھی ہوں تو کیسے بڑے کار ساز کا​
 
مجرمِ ہیبت زدہ جب فردِ عصیاں لے چلا
لطفِ شہ تسکین دیتا پیشِ یزداں لے چلا
دل کے آئینہ میں جو تصویرِ جاناں لے چلا
محفلِ جنت کی آرائش کا ساماں لے چلا
رہرو جنت کو طیبہ کا بیاباں لے چلا
دامنِ دل کھینچتا خار ِمغیلاں لے چلا
گل نہ ہو جائے چراغِ زینت گلشن کہیں
اپنے سر میں، میں ہوائے دشتِ جاناں لے چلا
روئے عالمتاب نے بانٹا جو باڑا نور کا
ماہِ نو کشتی میں پیالا مہرِ تاباں لے چلا
گو نہیں رکھتے زمانے کی وہ دولت اپنے پاس
پر زمانہ نعمتوں سے بھر کے داماں لے چلے
تیری ہیبت سے ملا تاجِ سلاطیں خاک میں
تیری رحمت سے گدا تختِ سلیماں لے چلا
ایسی شوکت پر کہ اڑتا ہے پھریرا، عرش پر
جس گدا نے آرزو کی ان کو مہماں لے چلا
دبدبا کس سے بیاں ہو ان کے نامِ پاک کا
شیر کے مونہہ سے سلامت جان سلماں لے چلا
صدقے اس رحمت کے ان کو روزِ محشر ہر طرف
ناشکیبا شورِ فریادِ اسیراں لے چلا
ساز و سامانِ گدائے کوئے سرور کیا کہوں
اس کا منگتا سروری کے ساز و ساماں لے چلا
دو قدم بھی چل نہ سکتے ہم سرِ شمشیر تیز
ہاتھ پکڑے ربِّ سلّم کا نگہباں لے چلا
دستگیرِ خستہ حالاں دستگیری کیجئے
پاؤں میں رعشہ ہے سر بارِ عصیاں لے چلا
وقتِ آخر نا امیدی میں وہ صورت دیکھ کر
دل شکستہ دل کے ہر پارہ میں قرآں لے چلا
قیدیوں کی جنبشِ ابرو سے بیڑی کاٹ دو
ورنہ جرموں کا تسلسل سوئے زنداں لے چلا
روز محشر شاد ہوں عاصی کہ پیشِ کبریا
رحم ان کو امتی گویاں و گریاں لے چلا
شکلِ شبنم راتوں کا رونا تِرا ابرِ کرم
صبح محشر صورتِ گل ہم کو خنداں لے چلا
کشتگانِ ناز کی قسمت کے صدقے جائیے
ان کو مقتل میں تماشائے شہیداں لے چلا
اخترِ اسلام چمکا کفر کی ظلمت چھنٹی
بدر میں جب وہ ہلالِ تیغِ براں لے چلا
اللہ اللہ صرصرِ طیبہ کی رنگ آمیزیاں
ہر بگولا نزہتِ سرو گلستاں لے چلا
قطرہ قطرہ ان کے گھر سے بحرِ عرفاں ہو گیا
ذرہ ذرہ ان کے در سے مہر ِتاباں لے چلا
صبح محشر ہر ادائے عارضِ روشن میں وہ
شمع نور افشاں پئے شامِ غریباں لے چلا
شافع روزِ قیامت کا ہوں ادنٰی امتی
پھرحسؔن کیا غم اگر میں بارِ عصیاں لے چلا
از برادرِ امامِ اہلسنت مولانا حسن رضا خان علیہ الرحمہ​
 
بہت خوبصورت نعتیہ کلام
مولانا حسن رضا خان نے اپنے غزلیات کے مجموعہ میں بھی اسی زمین میں اشعار کہے ہیں، چند یہ ہیں

آرزوئے دیدِ جاناں بزم میں لائی مجھے
بزم سے میں آرزوئے دیدِ جاناں لے چلا

داغِ عشقِ یار بھی کیسے مزے کی چیز ہے
لالہ و دل سے بچا تو مہرِ تاباں لے چلا

دل کو جاناں سے حسن سمجھا بجھا کے لائے تھے
دل ہمیں سمجھا بجھا کر سوئے جاناں لے چلا
 
بہت خوب جناب @ابوالمیزاب اویس بھائی استاد زمن علامہ حسن رضا بریلوی کا کلام سبحان اللہ !!

شافع روزِ قیامت کا ہوں ادنٰی امتی
پھرحسؔن کیا غم اگر میں بارِ عصیاں لے چلا
 
مولانا حسن رضا خان نے اپنے غزلیات کے مجموعہ میں بھی اسی زمین میں اشعار کہے ہیں، چند یہ ہیں

آرزوئے دیدِ جاناں بزم میں لائی مجھے
بزم سے میں آرزوئے دیدِ جاناں لے چلا

داغِ عشقِ یار بھی کیسے مزے کی چیز ہے
لالہ و دل سے بچا تو مہرِ تاباں لے چلا

دل کو جاناں سے حسن سمجھا بجھا کے لائے تھے
دل ہمیں سمجھا بجھا کر سوئے جاناں لے چلا

علامہ حسن رضا بریلوی کی غزلیں محفل پر آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/ثمر-فصاحت-از-علامہ-حسن-رضا-بریلوی-سے-انتخاب.61959/
 

مہ جبین

محفلین
دو قدم بھی چل نہ سکتے ہم سرِ شمشیر تیز
ہاتھ پکڑے ربِّ سلّم کا نگہباں لے چلا
دستگیرِ خستہ حالاں دستگیری کیجئے
پاؤں میں رعشہ ہے سر بارِ عصیاں لے چلا
سبحان اللہ کیا بات ہے مولانا حسن رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کی ، ہر ہر شعر بے مثال ہے
جزاک اللہ ابو المیزاب اویس
 

آبی ٹوکول

محفلین
دل کو جاناں سے حسن سمجھا بجھا کے لائے تھے
دل ہمیں سمجھا بجھا کر سوئے جاناں لے چلا

واہ سبحان اللہ کیا کہنے ہیں
 

Saadullah Husami

محفلین
تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شمار جرم​
دیتا ہوں واسطہ تجھے شاہِ حجاز کا​
الحمدللہ کہ شافع محشر کا دامن ہے ،نہیں تو اللہ کی پناہ تھی؟
حمد باری کی جھلک نعت احمد میں مل جائے تو اِس دنیا میں وہ جنت کے مزے !
بہت خوب کلام۔​
 
Top