نعت : وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں : حضرت احمد رضا خان ۔رح

وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی ٴ دل و جاں نہیں
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہ ہاں نہیں

میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں

بخدا خدا کا یہی در ہے نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہی آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

کرے مصطفی کی اہانتیں کھلے بندوں اس پہ یہ جراتیں
کہ میں کیا نہیں ہوں محمدی ارے ہاں نہیں ارے ہاں نہیں

ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں
کوئی کہہ دو یاس و امید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں

یہ نہیں کہ خلد نہ ہو وہ نکو وہ نکوئی کی بھی ہے آبرو
مگر اے مدینہ کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں

ہے انہیں کے نور سے سب عیاں ہے انہیں کے جلوہ میں سب نہاں
بنے صبح تابش مہر سے رہے پیش مہر یہ جاں نہیں

وہی نور حق وہی ظل رب ہے انہیں سے سب ہے انہیں کا سب
نہیں ان کی ملک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں

وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سر عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں

سر عرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

ترا قد تو نادر دہر ہے کوئی مثل ہوتو مثال دے
نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سرو چماں نہیں

نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کو گل کہے کیا کوئی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں

کروں مدح اہل دول رضا پڑے اس بلا میں میری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارہٴ ناں نہیں

حضرت احمد رضا خان ۔رح
 

مہ جبین

محفلین
وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی ٴ دل و جاں نہیں
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہ ہاں نہیں

میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں

بخدا خدا کا یہی در ہے نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہی آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

کرے مصطفی کی اہانتیں کھلے بندوں اس پہ یہ جراتیں
کہ میں کیا نہیں ہوں محمدی ارے ہاں نہیں ارے ہاں نہیں

ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں
کوئی کہہ دو یاس و امید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں

یہ نہیں کہ خلد نہ ہو وہ نکو وہ نکوئی کی بھی ہے آبرو
مگر اے مدینہ کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں

ہے انہیں کے نور سے سب عیاں ہے انہیں کے جلوہ میں سب نہاں
بنے صبح تابش مہر سے رہے پیش مہر یہ جاں نہیں

وہی نور حق وہی ظل رب ہے انہیں سے سب ہے انہیں کا سب
نہیں ان کی ملک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں

وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سر عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں

سر عرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

ترا قد تو نادر دہر ہے کوئی مثل ہوتو مثال دے
نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سرو چماں نہیں

نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کو گل کہے کیا کوئی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں

کروں مدح اہل دول رضا پڑے اس بلا میں میری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارہٴ ناں نہیں

حضرت احمد رضا خان ۔رح
سیدہ سارہ بہن بہت خوب انتخاب ہے آپ کا
اللہ آپ کو اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کا فیضان عطا فرمائے آمین
 

مہ جبین

محفلین
کعبہ کے بدر الدجٰی تم پہ کروڑوں درود
طیبہ کے شمس الضحٰی تم پہ کروڑوں درود

شافع روز جزا تم پہ کروڑوں درود
دافع جملہ بلا تم پہ کروڑوں درود

جان و دل اصفیا تم پہ کروڑوں درود
آب و گل انبیا تم پہ کروڑوں درود

لائیں تو یہ دوسرا، دوسرا جس کو ملا
کوشک عرش و دنٰی تم پہ کروڑوں درود

اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا، تم پہ کروڑوں درود

طور پر جو شمع تھا چاند تھا ساعیر کا
نیر فاراں ہوا تم پہ کروڑوں درود

دل کرو ٹھنڈا مرا وہ کف پا چاند سا
سینے پہ رکھ دو ذرا تم پہ کروڑوں درود

ذات ہوئی انتخاب وصف ہوئے لاجواب
نام ہوا مصطفیٰ (صلی للہ علیہ وسلم) تم پہ کروڑوں درود

غیت و علت سببب بہر جہاں تم ہو سب
تم سے بنا تم بنا تم پہ کروڑوں درود

تم سے جہاں کی حیات تم سے جہاں کا ثبات
اصل سے ہے ظل بندھا تم پہ کروڑوں درود

مغز ہو تم اور پوست، اور ہیں باہر کے دوست
تم ہو درون سرا تم پہ کروڑوں درود

کیا ہیں جو بیحد ہیں لوث، تم تو ہو غیث اور غوث
چھینٹے میں ہوگا بھلا تم پہ کروڑوں درود

تم ہو حفیظ و مغیث، کیا ہے وہ دشمن خبیث
تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود

وہ شب معراج راج، وہ صف محشر کا تاج
کوئی بھی ایسا ہوا تم پہ کروڑوں درود
 

مہ جبین

محفلین
جان و جہان مسیح، داد کہ دل ہے جریح
؎نبضیں چھٹیں دم چلا تم پہ کروڑوں درود

اف وہ رہ سنگلاخ، آہ یہ پا شاخ شاخ
اے مرے مشکل کشا تم پہ کروڑوں درود

تم سے کھلا باب جود،تم سے ہے سب کا وجود
تم سے ہے سب کی بقا تم پہ کروڑوں درود

خستہ ہوں اور تم معاذ،بستہ ہوں تم ملاذ
آگے جو شہ کی رضا تم پہ کروڑوں درود

گرچہ ہیں بےحد قصور ، تم ہو عفو و غفور
بخشدو جرم و خطا تم پہ کروڑوں درود

مہر خدا نور نور، دل ہے سیہ دن ہے دور
شب میں کرو چاندنا تم پہ کروڑوں درود

تم ہو شہید و بصیر ، اور میں گنہ پر دلیر
کھول دو چشم حیا تم پہ کروڑوں درود

چھینٹ تمہاری سحر چھوٹ تمہاری قمر
دل میں رچا دو ضیاء تم پہ کروڑوں درود

تم سے خدا کا ظہور اس سے تمہارا ظہور
لم ہے یہ وہ ان ہوا تم پہ کروڑوں درود

بے ہنر و بے تمیز کس کو ہوئے ہیں عزیز
ایک تمہارے سوا تم پہ کروڑوں درود
 

مہ جبین

محفلین
آس ہے کوئی نہ پاس، ایک تمہاری ہے آس
بس ہے یہی آسرا، تم پہ کروڑوں درود

طارم اعلٰی کا عرش،جس کف پا کا ہے فرش
آنکھوں پہ رکھ دو ذرا تم پہ کروڑوں درود

کہنے کو ہیں عام و خاص ایک تم ہی ہو خلاص
بند سے کردو رہا تم پہ کروڑوں درود

تم ہو شفائے مرض، خلق خدا خود غرض
خلق کی حاجت بھی کیا تم پہ کروڑوں درود

آہ وہ راہ صراط، بندوں کی کتنی بساط
المدد اے رہنما تم پہ کروڑوں درود

بے ادب و بد لحاظ، کر نہ سکا کچھ حفاظ
عفو پہ بھولا رہا تم پہ کروڑوں درود

لو تہ دامن کہ شمع، جھونکوں میں ہے روز جمع
آندھیوں سے حشر اٹھا تم پہ کروڑوں درود

سینہ کہ ہے داغ داغ کہ دو کرے باغ باغ
طیبہ سے آکر صبا تم پہ کروڑوں درود

گیسو قد و لام الف، کردو بلا منصرف
لا کے تہ تیغ لا، تم پہ کروڑوں درود

تم نے برنگ فلق جیب جہاں کر کے شق
نور کا تڑکا کیا تم پہ کروڑوں درود
 

مہ جبین

محفلین
نوبت دربیں فلک، خادم در ہیں ملک
تم ہوجہاں بادشاہ تم پہ کروڑوں درود

خلق تمہاری جمیل ، خلق تمہارا جلیل
خلق تمہاری گدا تم پہ کروڑوں درود

طیبہ کے ماہ تمام جملہ رسل کے امام
نوشہ ملک خدا تم پہ کروڑوں درود

تم سےجہاں کا نظام، تم پہ کروڑوں سلام
تم پہ کروڑوں ثنا تم پہ کروڑوں درود

تم ہو جواد و کریم تم ہو رؤ ف و رحیم
بھیک ہو داتا عطا تم پہ کروڑوں درود

خلق کے حاکم ہو تم رزق کے قاسم ہو تم
تم سے ملا جو ملا تم پہ کروڑوں درود

نافع و دافع ہو تم، شافع و رافع ہو تم
تم سے بس افزوں خدا تم پہ کروڑوں درود

شافی و نافی ہو تم کافی و وافی ہو تم
درد کو کر دو دوا تم پہ کروڑوں درود

جائیں نہ جب تک غلام، خلد ہے سب پر حرام
ملک تو ہے آپ کا تم پہ کروڑوں درود

مظہر حق ہو تمہیں، مظہر حق ہو تمہیں
تم میں ہے ظاہر خدا تم پہ کروڑوں درود

زور دہ نا رساں تکیہ گہ بے کساں
بادشہ ماورا تم پہ کروڑوں درود

برسے کرم کی بھرن پھولیں نعم کے چمن
ایسی چلادو ہوا تم پہ کروڑوں درود
 

مہ جبین

محفلین
کیوں کہوں بیکس ہوں میں کیوں کہوں بے بس ہوں میں
تم ہو میں تم پر فدا تم پہ کروڑوں درود

گندے نکمے کمین مہنگے ہوں کوڑی کے تین
کون ہمیں پالتا تم پہ کروڑوں درود

باٹ نہ در کے کہیں، گھاٹ نہ گھر کے کہیں
ایسے تمہیں پالنا تم پہ کروڑوں درود

ایسوں کو نعمت کھلاؤ، دودھ کے شربت پلاؤ
ایسوں کو ایسی غذا تم پہ کروڑوں درود

گرنے کو ہوں روک لوغوطہ لگے ہاتھ دو
ایسوں پر ایسی عطا تم پہ کروڑوں درود

اپنے خطا واروں کو اپنے ہی دامن میں لو
کون کرے یہ بھلا تم پہ کروڑوں درود

کرکے تمہارے گناہ مانگیں تمہاری پناہ
تم کہو دامن میں آ تم پہ کروڑوں درود

کردو عدو کو تباہ حاسدوں کو روبراہ
اہل ولا کا بھلا تم پہ کروڑوں درود

ہم نے خطا میں نہ کی، تم نے عطا میں نہ کی
کوئی کمی سرورا تم پہ کروڑوں درود

کام غضب کے کئے اس پہ ہے سرکار سے
بندوں کو چشم رضا تم پہ کروڑوں درود

آنکھ عطا کیجئے اس میں ضیاء دیجئے
جلوہ قریب آگیا تم پہ کروڑوں درود

کام وہ لے لیجئے تم کو جو راضی کرے
ٹھیک ہو نام رضا تم پہ کروڑوں درود
 
کعبہ کے بدر الدجٰی تم پہ کروڑوں درود
طیبہ کے شمس الضحٰی تم پہ کروڑوں درود

شافع روز جزا تم پہ کروڑوں درود
دافع جملہ بلا تم پہ کروڑوں درود

جان و دل اصفیا تم پہ کروڑوں درود
آب و گل انبیا تم پہ کروڑوں درود

لائیں تو یہ دوسرا، دوسرا جس کو ملا
کوشک عرش و دنٰی تم پہ کروڑوں درود

اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا، تم پہ کروڑوں درود

طور پر جو شمع تھا چاند تھا ساعیر کا
نیر فاراں ہوا تم پہ کروڑوں درود

دل کرو ٹھنڈا مرا وہ کف پا چاند سا
سینے پہ رکھ دو ذرا تم پہ کروڑوں درود

ذات ہوئی انتخاب وصف ہوئے لاجواب
نام ہوا مصطفیٰ (صلی للہ علیہ وسلم) تم پہ کروڑوں درود

غیت و علت سببب بہر جہاں تم ہو سب
تم سے بنا تم بنا تم پہ کروڑوں درود

تم سے جہاں کی حیات تم سے جہاں کا ثبات
اصل سے ہے ظل بندھا تم پہ کروڑوں درود

مغز ہو تم اور پوست، اور ہیں باہر کے دوست
تم ہو درون سرا تم پہ کروڑوں درود

کیا ہیں جو بیحد ہیں لوث، تم تو ہو غیث اور غوث
چھینٹے میں ہوگا بھلا تم پہ کروڑوں درود

تم ہو حفیظ و مغیث، کیا ہے وہ دشمن خبیث
تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود

وہ شب معراج راج، وہ صف محشر کا تاج
کوئی بھی ایسا ہوا تم پہ کروڑوں درود
سبحان اللہ
 
CrleY
 

رئیس کوثر

محفلین
وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی ٴ دل و جاں نہیں
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہ ہاں نہیں

میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں

بخدا خدا کا یہی در ہے نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہی آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

کرے مصطفی کی اہانتیں کھلے بندوں اس پہ یہ جراتیں
کہ میں کیا نہیں ہوں محمدی ارے ہاں نہیں ارے ہاں نہیں

ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں
کوئی کہہ دو یاس و امید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں

یہ نہیں کہ خلد نہ ہو وہ نکو وہ نکوئی کی بھی ہے آبرو
مگر اے مدینہ کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں

ہے انہیں کے نور سے سب عیاں ہے انہیں کے جلوہ میں سب نہاں
بنے صبح تابش مہر سے رہے پیش مہر یہ جاں نہیں

وہی نور حق وہی ظل رب ہے انہیں سے سب ہے انہیں کا سب
نہیں ان کی ملک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں

وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سر عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں

سر عرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

ترا قد تو نادر دہر ہے کوئی مثل ہوتو مثال دے
نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سرو چماں نہیں

نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کو گل کہے کیا کوئی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں

کروں مدح اہل دول رضا پڑے اس بلا میں میری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارہٴ ناں نہیں

حضرت احمد رضا خان ۔رح
بہت ہی عمدہ
 

سیما علی

لائبریرین
یہی دُعا ھے یہی نعت بس، زیادہ نہ کم
ھو میری عُمر تریسٹھ برَس، زیادہ نہ کم


عطا ھُوا تھا مُجھے جتنا اِذن رَوضے سے
ھُوا مَیں جالی سے اُتنا ھی مَس، زیادہ نہ کم


بس اُتنی جتنی مرا بادشہ اجازت دے
بس اُتنی دیر چلے گا نفَس، زیادہ نہ کم


ھماری نعت کو جتنا حضُور نے چاھا
عطا ھُوا ھے بس اُتنا ھی رس، زیادہ نہ کم


وھی مِلیں گے جو تقدیر میں لکھے ھُوئے ھیں
بس اُتنے پُھول، وھی خار و خس، زیادہ نہ کم


رحمان فارس
 

سیما علی

لائبریرین
بڑی ہی عالی شان ہے میرے اللہ میرے حبیب محمد :pbuh:کی
سلطنت ہے دونوں جہاں کی میرے حبیب محمد :pbuh:کی


میں وہ گناہ گار بندی، کہاں تھی اس قابل جو
کرم ہے نوازش ہے مُجھ پر میرے حبیب محمد کی


اے اللہ ! مجھ کو بخش دے اپنے حبیب کے صدقے
مجھ پر رکھ دے سرپرستی میرے حبیب محمد :pbuh:کی


جب بھی پڑھا درود شریف میرے نصیب جاگے
میرے دل میں ہو پیدا محبت حبیب محمد:pbuh: کی


نسرین منہاس
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
چار حرفوں کی یہ ابجد حمد بھی ھے نعت بھی
صاحبو ! لفظِ مُحمّد حمد بھی ھے نعت بھی !


ربِ کعبہ کی قسم، یہ مسئلہ ھے عشق کا
بات یہ ھے ذکرِ احمد:pbuh: حمد بھی ھے نعت بھی


تُو ثنائے مُصطفٰے :pbuh:کی کیفیت پر غور کر
کوئی بھی اس کی نہیں حد، حمد بھی ھے نعت بھی


رحمان فارس
 
Top