نعتیہ کلام میں تو تجھ تم تیرا کا متبادل

الف نظامی

لائبریرین
اکثر نعتیہ کلام میں " تو" ، "تجھ" ، "تم" "تیرا" مستعمل ہیں۔ کیا ان کے لیے ایسے متبادل الفاظ موجود ہیں جو زیادہ مودب ہوں اور وہ ان ( تو" ، "تجھ" ، "تم" "تیرا" ) سے ہم وزن بھی ہوں تا کہ متعلقہ کلام بے وزن بھی نہ ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نظامی صاحب، "زیادہ مؤدب" ہونے کا سوال تو اس وقت ہو جب یہ الفاظ مؤدبانہ نہ ہوں، اور اگر ان الفاظ میں ادب یا زیادہ ادب نہ ہوتا بلکہ اس کا شائبہ تک ہوتا تو عظیم نعت گو شعراء جدید و قدیم، اردو و فارسی، اور وہ شعراء کرام جنہوں نے ساری زندگی عشقِ رسول (ص) میں بسر کی، کبھی ان الفاظ کو استعمال نہ کرتے، لیکن ہر کسی نے کیا ہے! کوئی تو وجہ ہوگی؟ اور یہ بھی کہ عروضی طور پر اگر کوئی ایسے الفاظ ہوتے تو ان کو وہ ضرور استعمال کرتے!

دراصل، نہ صرف یہ الفاظ بذاتِ خود "فصیح" ہیں بلکہ کلام اور شعر کی مجموعی فضا (جو کہ نعت میں صرف اور صرف ادب ہی ہوتی ہے)، اور دیگر الفاظ کی نشست و برخاست اور بندش کے ساتھ کے مل کر "بلیغ" بھی ہو جاتے ہیں لہذا ان کے استعمال میں کوئی مسئلہ نہیں ہے!

میرے نزدیک، اول تو ان کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی اگر انکے عروضی متبادل ڈھونڈنے ہوں تو میرے ذہن میں کچھ نہیں ہے بھائی، ہاں، صلائے عام ہے "یارانِ نکتہ داں" کے لیے :)
 

شاہ حسین

محفلین
نظامی صاحب، "زیادہ مؤدب" ہونے کا سوال تو اس وقت ہو جب یہ الفاظ مؤدبانہ نہ ہوں، اور اگر ان الفاظ میں ادب یا زیادہ ادب نہ ہوتا بلکہ اس کا شائبہ تک ہوتا تو عظیم نعت گو شعراء جدید و قدیم، اردو و فارسی، اور وہ شعراء کرام جنہوں نے ساری زندگی عشقِ رسول (ص) میں بسر کی، کبھی ان الفاظ کو استعمال نہ کرتے، لیکن ہر کسی نے کیا ہے! کوئی تو وجہ ہوگی؟ اور یہ بھی کہ عروضی طور پر اگر کوئی ایسے الفاظ ہوتے تو ان کو وہ ضرور استعمال کرتے!

دراصل، نہ صرف یہ الفاظ بذاتِ خود "فصیح" ہیں بلکہ کلام اور شعر کی مجموعی فضا (جو کہ نعت میں صرف اور صرف ادب ہی ہوتی ہے)، اور دیگر الفاظ کی نشست و برخاست اور بندش کے ساتھ کے مل کر "بلیغ" بھی ہو جاتے ہیں لہذا ان کے استعمال میں کوئی مسئلہ نہیں ہے!

میرے نزدیک، اول تو ان کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی اگر انکے عروضی متبادل ڈھونڈنے ہوں تو میرے ذہن میں کچھ نہیں ہے بھائی، ہاں، صلائے عام ہے "یارانِ نکتہ داں" کے لیے :)


جناب نے بہت مناسب و مکمّل وضاحت فرمائی ہے
 

الف عین

لائبریرین
بھئ اگر "تو" بھی ہوگا اور خطاب رسولْ سے ہوگا، تو دل میں عزت و اکرام کا ہی جذبہ جاگے گا نا۔۔ الفاظ سے کیا فرق پڑتا ہے۔
لکھنؤ میں تہذیب کا تقاضا ہے کہ کسی شخص کو گالیاں دی جائیں تب بھی آپ کہا جائے!!
 

arifkarim

معطل
بھئ اگر "تو" بھی ہوگا اور خطاب رسولْ سے ہوگا، تو دل میں عزت و اکرام کا ہی جذبہ جاگے گا نا۔۔ الفاظ سے کیا فرق پڑتا ہے۔
لکھنؤ میں تہذیب کا تقاضا ہے کہ کسی شخص کو گالیاں دی جائیں تب بھی آپ کہا جائے!!

بڑے مہذب قسم کے لوگ ہیں۔ ;)
 

مغزل

محفلین
پھر یہ کہ عربی زبان میں تخاطب کا صیغہ ہی تو ، تم ، اے (یا) ہے ۔ حضرت حسان بن ثابت کی نعت اگر آپ پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ وہاں بھی تخاطب کے لیے یہی الفاظ استعمال کیے گئے ۔ہمارے ہاں کسی کو اے کہنا معیوب و گستاخی ہے مگر اہلِ عرب کے ہاں نفاستِ اظہار ہے ۔ قرآن میں جا بجا اے کےصیغہ سے انسانوں اور رسول صل اللہ علیہ وسلم کے مخاطب کیا گیا ہے۔ میں بھی وارث صاحب اور بابا جانی کی کی بات سے اتفاق رکھتا ہوں ، ہاں اگر کوئی آپ اور دیگر کوئی لفظ اپنے تئیں احترام سے شامل کرنا چاہے تو میرے خیال میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
 

وجاہت حسین

محفلین
نظامی صاحب، "زیادہ مؤدب" ہونے کا سوال تو اس وقت ہو جب یہ الفاظ مؤدبانہ نہ ہوں، اور اگر ان الفاظ میں ادب یا زیادہ ادب نہ ہوتا بلکہ اس کا شائبہ تک ہوتا تو عظیم نعت گو شعراء جدید و قدیم، اردو و فارسی، اور وہ شعراء کرام جنہوں نے ساری زندگی عشقِ رسول (ص) میں بسر کی، کبھی ان الفاظ کو استعمال نہ کرتے، لیکن ہر کسی نے کیا ہے! کوئی تو وجہ ہوگی؟ اور یہ بھی کہ عروضی طور پر اگر کوئی ایسے الفاظ ہوتے تو ان کو وہ ضرور استعمال کرتے!

دراصل، نہ صرف یہ الفاظ بذاتِ خود "فصیح" ہیں بلکہ کلام اور شعر کی مجموعی فضا (جو کہ نعت میں صرف اور صرف ادب ہی ہوتی ہے)، اور دیگر الفاظ کی نشست و برخاست اور بندش کے ساتھ کے مل کر "بلیغ" بھی ہو جاتے ہیں لہذا ان کے استعمال میں کوئی مسئلہ نہیں ہے!

میرے نزدیک، اول تو ان کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی اگر انکے عروضی متبادل ڈھونڈنے ہوں تو میرے ذہن میں کچھ نہیں ہے بھائی، ہاں، صلائے عام ہے "یارانِ نکتہ داں" کے لیے :)

بہت شکریہ جناب۔ یہ سوال مجھے بھی تنگ کرتا تھا۔ لیکن الحمد للہ اب بات سمجھ آگئی۔
 
Top