نظم: ہجراں میں ہم مریں کہ جئیں، آپ جائیے!

نظم: "ہجراں میں ہم مریں کہ جئیں، آپ جائیے!"


کچھ انتظامِ ساغر و پیمانہ کیجیے
یوں مئے بغیر مت ہمیں مستانہ کیجیے

آئے ہماری بزم میں اور وہ بھی بے خبر
کیا آ پڑی کہ نظروں سے ملتی نہیں نظر

کیوں تک رہے ہیں سوئے در الجھائے سر کے بال
کیوں صورتِ جمیل پہ ہے پرتوئے ملال

کہیے، کہ اب ہمارا جگر منہ کو آتا ہے
افسردگی سے پھٹنے کو اپنا کلیجہ ہے

آنکھوں سے یہ جو آپ کی، آنسو امڈ پڑے
حاجت نہیں ہے کہنے کی کچھ، ہم سمجھ گئے

کیا آئے بحرِ رخصتِ آخر ہمارے پاس؟
انکار کیجیے کہ ہمارا ہو کم ہراس

بن آپ کے خدا کی قسم ہم نہ جی سکیں
گر آپ کوچ کیجیے، پھر ہم بھی کیوں جئیں؟

یوں سامنے ہمارے نہ آنسو بہائیے
جاتے ہوئے خدا را نہ ہم کو رلائیے

گر ٹھان لی ہے جانے کی تو جائیے بہ شوق
پہنا کے اس غریب کو بیگانگی کا طوق

تنہائیِ حجازؔ پہ مت رحم کھائیے
ہجراں میں ہم مریں کہ جئیں، آپ جائیے

مہدی نقوی حجازؔ​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top