نظم: میں مسلم ہوں مجھے حالات سے کچھ ڈر نہیں لگتا

شوکت پرویز

محفلین
میں مسلم ہوں مجھے حالات سے کچھ ڈر نہیں لگتا
کوئی منظر ہو مجھ کو یاس کا منظر نہیں لگتا
اگر تم چھین لو میرا مکاں میری زمیں پھر بھی
اگر دھوکہ سے مجھ کو قتل کر ڈالو یہیں پھر بھی
غلط تہمت لگا کر قید کر ڈالو کہیں پھر بھی
نہیں دکھلائے گی کوئی شکن میری جبیں پھر بھی

مِرے پیارے نبی کا مژدہء دل جمع بھی سن لو
اندھیروں میں اجالوں کا وہ درسِ شمع بھی سن لو
عجب ہے قصہء مومن ہر اک حالت میں پائے خیر
یہ بس مومن کو حاصل ہے کہ ہر صورت میں پائے خیر
کرے وہ شکر گر نعمت میں تو نعمت میں پائے خیر
کرے صبر و تحمّل، صدمہ و آفت میں پائے خیر

بہت تھوڑی سی مدّت کے لئے دنیا میں رہنا ہے
اگر تکلیف بھی آئے تو اس کو ہنس کے سہنا ہے
یہ دنیا تو فقط اک امتحاں، اک آزمائش ہے
کبھی ہے مصر کا زنداں، کبھی نمرودی آتش ہے
کبھی سورج کو سجدہ ہے کبھی بُت کی پرستش ہے
کبھی دربارِ فرعونی میں جادو کی نمائش ہے

اگر تم قید کر ڈالو مجھے جھوٹے جرائم میں
نہیں تم پاؤ گے لغزش مِرے اس قلبِ عازم میں
یہ بس اِک امتحاں ہے دیکھ ابھی انجام ہے باقی
ابھی مجھ کو فرشتوں کا کوئی پیغام ہے باقی
بہت کم کم ہی میری گردِشِ ایّام ہے باقی
مِرا دل مطمئن ہے گر مِرا اسلام ہے باقی

مِرا چہرہ جو اس تکلیف میں بھی مسکراتا ہے
مقولہ ابنِ تیمیّہ کا مجھ کو یاد آتا ہے
"اسیری تو مجھے مہلت لگے ذکر و عبادت کی
وطن سے دوری بس اک شکل ہے سیر و سیاحت کی
ہوا گر قتل تو پوری ہوئی حسرت شہادت کی"
عجب ہے بات اے مومن! تِری اس شان و شوکت کی
 
Top