کاشفی

محفلین
موت
(معین احسن جذبی)

اپنی سوئی ہوئی دُنیا کو جگالوں تو چلوں
اپنے غم خانے میں‌ اک دھوم مچالوں تو چلوں
اور اِک جامِ مئے تلخ چڑھالوں تو چلوں
ابھی چلتا ہوں ذرا خود کو سنبھالوں تو چلوں

جانے کب پی تھی، ابھی تک ہے مئے غم کا خمار
دھندلا دھندلا نظر آتا ہے جہانِ بیدار
آندھیاں چلتی ہیں، دنیا ہوئی جاتی ہے غبار
آنکھ تو مل لوں، ذرا ہوش میں آلوں تو چلوں

وہ مرا سحر، وہ اعجاز کہاں ہے؟ لانا!
میری کھوئی ہوئی آواز کہاں ہے؟ لانا!
میرا ٹوٹا ہوا وہ ساز کہاں ہے؟ لانا!
اک ذرا گیت بھی اِس ساز پہ گالوں تو چلوں

میں تھکا ہارا تھا، اتنے میں جو آئے بادل
کسی متوالے نے چپکے سے بڑھا دی بوتل
اُف وہ رنگین پُر اسرار خیالوں کے محل
ایسے دو چار محل اور بنا لوں تو چلوں

مجھ سے کچھ کہنے کو آئی ہے مرے دل کی جلن
کیا کیا میں نے زمانے میں نہیں جس کا چلن
آنسوؤ! تم نے تو بیکار بھگویا دامن
اپنے بھیگے ہوئے دامن کو سکھا لوں تو چلوں

میری آنکھوں میں ابھی تک ہے محبت کا غرور
میرے ہونٹوں کو ابھی تک ہے صداقت کا غرور
میرے ماتھے پہ ابھی تک ہے شرافت کا غرور
ایسے وہموں سے بھی اب خود کو نکالوں تو چلوں
 

الف عین

لائبریرین
یہی نظم تھی جس کو چھوڑ کر مجاز کا لطیفہ آگے بڑھ گیا۔۔۔ ابھی چلتا ہوں ذرا رائتہ پی لوں تو چلوں!!
 

کاشفی

محفلین
محمد وارث صاحب، الف عین صاحب، فرحت کیانی صاحبہ، زرقا مفتی صاحبہ، فرخ منظور صاحب، الف نظامی صاحب، شاہ حسین صاحب اور نایاب صاحب آپ تمام احباب کا بیحد شکریہ۔۔خوش و خرم رہیں۔
 
Top