احمد ندیم قاسمی نظم- فن براے فن

علی فاروقی

محفلین
ابھی ڈوب رہی ہے لہو میں راہِ حیات
ابھی حکایتِ عشق و جمال کون سنے
عظیم ادب کے ادیبو
بڑے ادب کے مریضو
مجھے بھی یاد ہیں وہ خواب ناک افسانے
جو اس جہاں سے بہت دور ، اک جزیرے پر
پنپ رہے ہیں گھنی چھتریوں کے سائے میں
مگر یہ ٹھوکریں کھاتا ہوا غریب انساں
تہی شکم ہے تہی دست ہے تہی دل ہے
بڑے ادب کے بجائے بڑا سوال یہ ہے
کہ اس ہاتھ سے نوچے ہوئے نوالوں کو
کوئی نگل نہ سکے
نگل سکے تو یہ بن جائیں ایسے انگارے
جنہیں اُگل نہ سکے
تمہیں "دوام " سے مطلب مجھے عوام سے کام
فقط عوام کے دم سے ہے زندگی کو دوام
مگر یہ دور یہ اس دور کے غریب عوام
اناج اگائیں مگر احتیاج کے ہاتھوں
زباں سلگتی سلاخوں پہ دھر کے مر جائیں
عظیم ادب کے نقیبو ، مجھے اجازت دو
کہ میں تمہاری اولوالعزمیوں سے کترا کر
حقیقتوں سے نبرد آزما رہوں جب تک
عوام کو بھی ہمارا دوام راس آئے
ابھی حکایتِ عشق و جمال کون سنے
ابھی تو ڈوب رہی ہے لہو میں راہِ حیات
 
Top