نظم : شہر کی بلبلیں روتے ہوئے کہتی ہیں ندیم (کراچی کے حالات پر)

ندیم مراد

محفلین
شہر کو گھیر لے تاریکی سرِشام اب کے
شہر کا نام تو بس رہ گیا ہے نام اب کے
اپنے ہی گھر میں سکوں ملنا ہے دشوار بہت
جنگلوں میں ہی چلو کرنے کو آرام اب کے
میں نے جنگل جو کہا شہر کو ، جگنو بولا
تھا فقط میرا ہی گھر ، کرنے کو بدنام اب کے
ایک کیاری پہ بھٹکتی ہوئی تتلی دیکھی
کہتی تھی شہر کے گل تو ہیں ، خوں آشام اب کے
کھیلتے کودتے جن گلیوں میں ہوتے ہیں جواں
ان جوانوں کے ہیں خوں رنگ درو بام اب کے
انّا لِلّلہ جو ہوئے لقمہ ء دہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے
فاختاؤں سے جو پوچھا تو وہ یوں گویا ہوئیں
امن کی آشا لگےآرزوئے خام اب کے
باندھ کر سر سے کفن گھر سے نکلیئے ہر روز
یا تو پھر چل ہی پڑیں اوڑھ کے احرام اب کے
شہر کی بُلبلیں روتے ہوئے کہتی ہیں ندیؔم
گیت کیا گائیں بسیروں پہ ہے کہرام اب کے
 

الف عین

لائبریرین
خوب ماشاء اللہ۔ لیکن محض انا للہ سے بات مکمل نہیں ہوتی۔میرا مشورہ مانیں تو اس شعر کو القظ کر ہی دیں
 

ندیم مراد

محفلین
بہت شکریہ
آپ نے تبصرہ کیا عنایت
تنقید کرنے کا بھی شکریہ لیکن سچ پوچھیں اپنی کم علمی کی وجھ سے تنقید سمجھ نہیں آئی ورنہ آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر میرے لئے آپ جیسے جید عالم اور ادیب کا مشورہ حکم کا درجہ رکھتا ہے،
آپ نے فرمایا
۔( لیکن محض انا للہ سے بات مکمل نہیں ہوتی)۔
کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ابلاغ نہیں ہو رہا
میں نے یہ شعر کئی دوستوں کو سنایا فوراَ داد ملی اور واہ واہ ہوئی ،
اگر ابلاغ نہیں ہو رہا تو داد کیسے ملی،
واللہ عالم اگر کچھ اور وضاحت کریں گے تو عنایت ہوگی،
آپ نے اپنا قیمتی وقت اس ناچیز کو دیا مہربانی
جواب دیر سے دینے کی معزرت ایک کام کے سلسلے میں جوہانس برگ جانا پڑگیا جو ہم سے ہزار کلو میٹر دور ہے بس یوں سمجھئے پچھلے تین دن صرف سفر ہی کیا ہے ۔آتے ہی اپنا صفحہ کھولا ایکسائیٹڈ تھا اور آپ کا تبصرہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی امید ہے آئیندہ بھی اسی طرح کرم فرمائی کرتے رہیں گے
وسلام
 

ندیم مراد

محفلین
خوب ماشاء اللہ۔ لیکن محض انا للہ سے بات مکمل نہیں ہوتی۔میرا مشورہ مانیں تو اس شعر کو القظ کر ہی دیں
بہت شکریہ
آپ نے تبصرہ کیا عنایت
تنقید کرنے کا بھی شکریہ لیکن سچ پوچھیں اپنی کم علمی کی وجھ سے تنقید سمجھ نہیں آئی ورنہ آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر میرے لئے آپ جیسے جید عالم اور ادیب کا مشورہ حکم کا درجہ رکھتا ہے،
آپ نے فرمایا
۔( لیکن محض انا للہ سے بات مکمل نہیں ہوتی)۔
کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ابلاغ نہیں ہو رہا
میں نے یہ شعر کئی دوستوں کو سنایا فوراَ داد ملی اور واہ واہ ہوئی ،
اگر ابلاغ نہیں ہو رہا تو داد کیسے ملی،
واللہ عالم اگر کچھ اور وضاحت کریں گے تو عنایت ہوگی،
آپ نے اپنا قیمتی وقت اس ناچیز کو دیا مہربانی
جواب دیر سے دینے کی معزرت ایک کام کے سلسلے میں جوہانس برگ جانا پڑگیا جو ہم سے ہزار کلو میٹر دور ہے بس یوں سمجھئے پچھلے تین دن صرف سفر ہی کیا ہے ۔آتے ہی اپنا صفحہ کھولا ایکسائیٹڈ تھا اور آپ کا تبصرہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی امید ہے آئیندہ بھی اسی طرح کرم فرمائی کرتے رہیں گے
وسلام
 
واہ حضور۔ بہت خوبصورت نظم ہے۔ آپ کی شعری صلاحیت سے ہم اب تک کیوں کر محروم رہے، اس پر یہ سمجھ نہیں آتا کہ خود کو کوسنے دیں یا آپ کو! (از راہ تفنن) بہر حال، بہت زبردست، ہر شعر اپنے مطلب کا خوب ترجمان ہے۔
استادِ محترم کا اشارہ شاید اس جانب ہے کہ "انا للہ و انا الیہ راجعون" کو اس مورد میں محض "انا للہ" باندھنے سے سریع ابلاغ نہیں ہو رہا یا ضعفِ بیان کا باعث بن رہا ہے۔ خیر یہ ہمارا قیاس ہے۔ اساتذہ کی اساتذہ جانیں!! :)
 

ندیم مراد

محفلین
واہ حضور۔ بہت خوبصورت نظم ہے۔ آپ کی شعری صلاحیت سے ہم اب تک کیوں کر محروم رہے، اس پر یہ سمجھ نہیں آتا کہ خود کو کوسنے دیں یا آپ کو! (از راہ تفنن) بہر حال، بہت زبردست، ہر شعر اپنے مطلب کا خوب ترجمان ہے۔
استادِ محترم کا اشارہ شاید اس جانب ہے کہ "انا للہ و انا الیہ راجعون" کو اس مورد میں محض "انا للہ" باندھنے سے سریع ابلاغ نہیں ہو رہا یا ضعفِ بیان کا باعث بن رہا ہے۔ خیر یہ ہمارا قیاس ہے۔ اساتذہ کی اساتذہ جانیں!! :)
بہت بہت شکریہ جی آپ کی داد کا انداز پسند آیا،
مہدی صاحب با ت دراصل یہ ہے کہ کام کے سلسلے میں مصروفیت اسقدر زیادہ ہوتی ہے کہ اگر کچھ شعر وں کی آمد ہو بھی گئی تو ڈائری میں محفوظ کرتے چلے جاتے ہیں، نیٹ کبھی استعمال نہیں کیا اور کیا تو صرف کام کی حد تک اردو ویب کا پتا بھی نہیں تھا ۔کوئی پچھلے سال سے ہماری ویب پڑھنا شروع کی اور کچھ شئر بھی کیامگر وہاں بے وزن شاعروں کا ڈیرا ہے اچھے لکھنے والے بھی ہیں ، گنتی کے، ایک مرتبہ یوں ہی گوگل پر حالی کی کتاب مقدمہء شعر و شاعری تلاش کر رہا تھا ، کتاب ملی مگر شائد مکمل نہیں ہے، لیکن محفل سے روشناسی ہو گئی، اگر چہ ابھی تک پتا نہیں ہے محفل کس طرح استعمال کرتے ہیں مگر سیکھ رہا ہوں، اس لئے آپ بلا تردد مجھے کوس سکتے ہیں، خطا میری ہی جدید ٹیکنالوجی سے لا علمی کی ہے۔
اور بہت بہت شکریہ آپ نے میری ادنیٰ سی کاوش کو پسند فرمایا، تبصرہ کیا ،عزت بخشی،محض کرم نوازی ہے۔
استاد محترم کی تنقید کو ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں ، ان کا اشارہ اسی طرف ہے ، جو آپ نے بیان کیا ، تو پھر یہ تو قابلِ اصلاح مصرع ہے اسے باآسانی ترمیم کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ
وائے وہ لوگ ہوئے لقمہءدہشت گردی
میں نے لفظ اناللہ لفظی مطلب کے اعتبار سے استعمال کیا ہی نہیں اسے تو روایت کے اعتبار سے استعمال کیا اکثر لوگ جب کسی کے مرنے کی خبر سنتے ہیں تو صرف اناللہ کہتے ہیں اور فوراَ دریافت کرتے ہیں بھائی کیا ہوا تھا، صاحب بیمار تھے ، وغیرہ وغیرہ،
لیکن استاد محترم کا القط کا مشورہ ،،،،،، ابھی غور کر رہا ہوں،
بحرحال مہدی نقوی حجاز صاحب آپ نےدعوت غور دی، ممنون اور مشکور ہوں
خوش رہیں ہنستے کیلتے رہیں ،
ندیم مراد
 

ندیم مراد

محفلین
باندھ کر سر سے کفن گھر سے نکلیئے ہر روز
یا تو پھر چل ہی پڑیں اوڑھ کے احرام اب کے

بہت خوب غزل کہی جناب نے۔۔ بہت سی داد۔۔۔
بہت شکریہ جناب محمد اسامہ سرسری صاحب
آپ نے میری کاوش کو سراہا داد دی، عزت افزائی کی
ممنون اور مشکور ہوں
خوش رہیں داد دیتے رہیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
انّا لِلّلہ جو ہوئے لقمہ ء دہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے
ویسے تو اس شعر پر جو بات ہوچکی ہے ، وہ کافی ہے ، لیکن آپ کے سوالات کہ ابلاغ کیسے نہ ہوا جبکہ واہ واہ ہوئی اور داد سننے کو ملی۔
اس ضمن میں میرا یہ کہنا ہے کہ میں پوری غزل اٹھا کر فیس بک پر رکھ دیتا ہوں۔ نیچے یہ بھی لکھتا ہوں کہ کوئی تنقید ہو تو کھل کر کیجئے اور غلطی ہو تو سمجھائیے۔ اس کے باوجود کم ہی لوگ کسی غلطی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ ایک فاش بلکہ فحش غلطی کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا اور سب نے خوب تعریفیں کیں، مثلا ایک انتہائی واہیات شعر میں نے درج کردیا۔۔۔مفہوم میرے نزدیک تھا کہ ایک لڑکی ہے جس کی چادر سمندر میں جاگری اور اب وہ پریشان کھڑی ہے ۔ چادر کے لیے ردا درست لفظ ہے، نہ کہ قبا۔
قبا تو پورے لباس کو کہتے ہیں۔ اب میں نے اس کو قبا لکھا تو کسی نے اس پر نکتہ چینی نہ کی۔۔۔ حالانکہ اس ایک لفظ کی وجہ سے پوری غزل بے کار ہو گئی تھی۔
سبب اس کا یہ ہے کہ اردو سے شغف کم ہی لوگ رکھتے ہیں، اس سے کم وہ ہیں جنہیں شاعری اچھی لگتی ہے، اس سے پھر بہت کم وہ جو شاعری پڑھتے ہیں اور سب سے کم وہ جو شاعری کو سمجھیں۔۔ وہی لوگ اس پر تنقید بھی کرسکتے ہیں۔ ۔۔۔ انتہائی افسوس کی بات ہے، لیکن سچ یہی ہے۔

انا للہ واناالیہ راجعون تک عموماپڑھتے ہیں، اب شعر میں دیکھئے کہ
انّا لِلّلہ جو ہوئے لقمہ ء دہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے
اس سے محسوس کچھ یوں ہوتا ہے کہ جو لوگ لقمہ دہشت گردی ہو کر خود انّا لِلّلہ ہو گئے،شاعر ان کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہے۔ بے شک انّا لِلّلہ یعنی اللہ کے لیے تو سب ہیں، لیکن عموما اہل زبان اس طرح نہیں کہتے کہ فلاں آج انّا لِلّلہ ہو گئے، یہ قاعدے کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ بھی دونوں مصرعوں کو جوڑ کر دیکھا جائے تو شعر زیادہ قابل تعریف نہیں لگتا۔۔۔ موضوع بلا شبہ بہت بڑا ہے، لیکن ابلاغ واقعی نہیں ہوا۔ رہی باقی غزل تو بلا شبہ بہت اچھا تاثر پیش کررہی ہے، کہیں کوئی نقص مجھے نظر آبھی رہا ہے تو میں اسے اپنی ہی نظر کا قصور سمجھوں گا۔۔۔ کچھ اشعار مجھے بہت اچھے لگے:

اپنے ہی گھر میں سکوں ملنا ہے دشوار بہت
جنگلوں میں ہی چلو کرنے کو آرام اب کے

میں نے جنگل جو کہا شہر کو ، جگنو بولا
تھا فقط میرا ہی گھر ، کرنے کو بدنام اب کے

کھیلتے کودتے جن گلیوں میں ہوتے ہیں جواں
ان جوانوں کے ہیں خوں رنگ درو بام اب کے


باندھ کر سر سے کفن گھر سے نکلیئے ہر روز
یا تو پھر چل ہی پڑیں اوڑھ کے احرام اب کے

بہت خوب ۔۔۔
 
بہت خوب، خوب ندیم مراد بھیا!
عمدہ خیال، بہترین انداز میں، بہت ساری داد قبول فرمائیئے

میں نے جنگل جو کہا شہر کو ، جگنو بولا
تھا فقط میرا ہی گھر ، کرنے کو بدنام اب کے

ایک کیاری پہ بھٹکتی ہوئی تتلی دیکھی
کہتی تھی شہر کے گل تو ہیں ، خوں آشام اب کے

فاختاؤں سے جو پوچھا تو وہ یوں گویا ہوئیں
امن کی آشا لگےآرزوئے خام اب کے

شہر کی بُلبلیں روتے ہوئے کہتی ہیں ندیؔم
گیت کیا گائیں بسیروں پہ ہے کہرام اب کے​


اور موجودہ دور کا احوال کیا خوب انداز میں فرمایا

کھیلتے کودتے جن گلیوں میں ہوتے ہیں جواں
ان جوانوں کے ہیں خوں رنگ درو بام اب کے

وائے وہ لوگ ہوئے لقمہءدہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے

باندھ کر سر سے کفن گھر سے نکلیئے ہر روز
یا تو پھر چل ہی پڑیں اوڑھ کے احرام اب کے​
 

ندیم مراد

محفلین
انّا لِلّلہ جو ہوئے لقمہ ء دہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے
ویسے تو اس شعر پر جو بات ہوچکی ہے ، وہ کافی ہے ، لیکن آپ کے سوالات کہ ابلاغ کیسے نہ ہوا جبکہ واہ واہ ہوئی اور داد سننے کو ملی۔
اس ضمن میں میرا یہ کہنا ہے کہ میں پوری غزل اٹھا کر فیس بک پر رکھ دیتا ہوں۔ نیچے یہ بھی لکھتا ہوں کہ کوئی تنقید ہو تو کھل کر کیجئے اور غلطی ہو تو سمجھائیے۔ اس کے باوجود کم ہی لوگ کسی غلطی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ ایک فاش بلکہ فحش غلطی کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا اور سب نے خوب تعریفیں کیں، مثلا ایک انتہائی واہیات شعر میں نے درج کردیا۔۔۔ مفہوم میرے نزدیک تھا کہ ایک لڑکی ہے جس کی چادر سمندر میں جاگری اور اب وہ پریشان کھڑی ہے ۔ چادر کے لیے ردا درست لفظ ہے، نہ کہ قبا۔
قبا تو پورے لباس کو کہتے ہیں۔ اب میں نے اس کو قبا لکھا تو کسی نے اس پر نکتہ چینی نہ کی۔۔۔ حالانکہ اس ایک لفظ کی وجہ سے پوری غزل بے کار ہو گئی تھی۔
سبب اس کا یہ ہے کہ اردو سے شغف کم ہی لوگ رکھتے ہیں، اس سے کم وہ ہیں جنہیں شاعری اچھی لگتی ہے، اس سے پھر بہت کم وہ جو شاعری پڑھتے ہیں اور سب سے کم وہ جو شاعری کو سمجھیں۔۔ وہی لوگ اس پر تنقید بھی کرسکتے ہیں۔ ۔۔۔ انتہائی افسوس کی بات ہے، لیکن سچ یہی ہے۔

انا للہ واناالیہ راجعون تک عموماپڑھتے ہیں، اب شعر میں دیکھئے کہ
انّا لِلّلہ جو ہوئے لقمہ ء دہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے
اس سے محسوس کچھ یوں ہوتا ہے کہ جو لوگ لقمہ دہشت گردی ہو کر خود انّا لِلّلہ ہو گئے،شاعر ان کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہے۔ بے شک انّا لِلّلہ یعنی اللہ کے لیے تو سب ہیں، لیکن عموما اہل زبان اس طرح نہیں کہتے کہ فلاں آج انّا لِلّلہ ہو گئے، یہ قاعدے کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ بھی دونوں مصرعوں کو جوڑ کر دیکھا جائے تو شعر زیادہ قابل تعریف نہیں لگتا۔۔۔ موضوع بلا شبہ بہت بڑا ہے، لیکن ابلاغ واقعی نہیں ہوا۔ رہی باقی غزل تو بلا شبہ بہت اچھا تاثر پیش کررہی ہے، کہیں کوئی نقص مجھے نظر آبھی رہا ہے تو میں اسے اپنی ہی نظر کا قصور سمجھوں گا۔۔۔ کچھ اشعار مجھے بہت اچھے لگے:

اپنے ہی گھر میں سکوں ملنا ہے دشوار بہت
جنگلوں میں ہی چلو کرنے کو آرام اب کے

میں نے جنگل جو کہا شہر کو ، جگنو بولا
تھا فقط میرا ہی گھر ، کرنے کو بدنام اب کے

کھیلتے کودتے جن گلیوں میں ہوتے ہیں جواں
ان جوانوں کے ہیں خوں رنگ درو بام اب کے


باندھ کر سر سے کفن گھر سے نکلیئے ہر روز
یا تو پھر چل ہی پڑیں اوڑھ کے احرام اب کے

بہت خوب ۔۔۔
سب سے پہلے تو بہت بہت شکریہ
میری ادنیٰ سے کاوش پڑھنے کا
پسند کرنے کا
تبصرہ کرنے کا
سمجھانے کا استاد محترم کے اعتراض کے خلاصہ کرنے کا
اگر رہ گئی تو ایک بات کہ استاد محترم کے مشورے کا خلاصہ نہیں ہوا
کیا یہ شعر ناقابلِ اصلاح ہے ، جو اسے القط کر دیا جائے،
اور اگر اس کے علاوہ جو کچھ آپ کی بارک بین نگاہ نے دیکھا ہے اگر بیان کر دیں تو خوشی ہوگی اس سے مجھے اپنی اصلاح کرنے اور آئندہ بھی ان جزویات کا خیال رکھنے کا احساس پیدا ہوگااور اگر نہ بھی ہو تو اور دوسرے حضرات اور نئے نئے شعراء اس علمی بحث سے سیکھیں گے۔
آپ نے اپنا قیمتی وقت مجھ پر صرف کیا ، جسکا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے، باقی اہل زبان کا اپنی زبان سے بے توجہی کا رجہان تلخ سہی مگر ایک حقیقت ہے، جسکا کا واقعی افسوس ہے۔ اسکے باوجود ایسے سرپھرے لوگ موجود ہیں زبان اردو کی زلف سنوارنے میں مصروف ہیں ، جیسا کہ ہماری محفل ،
عنایت
 

ندیم مراد

محفلین
بہت خوب، خوب ندیم مراد بھیا!
عمدہ خیال، بہترین انداز میں، بہت ساری داد قبول فرمائیئے

میں نے جنگل جو کہا شہر کو ، جگنو بولا
تھا فقط میرا ہی گھر ، کرنے کو بدنام اب کے

ایک کیاری پہ بھٹکتی ہوئی تتلی دیکھی
کہتی تھی شہر کے گل تو ہیں ، خوں آشام اب کے

فاختاؤں سے جو پوچھا تو وہ یوں گویا ہوئیں
امن کی آشا لگےآرزوئے خام اب کے

شہر کی بُلبلیں روتے ہوئے کہتی ہیں ندیؔم
گیت کیا گائیں بسیروں پہ ہے کہرام اب کے​


اور موجودہ دور کا احوال کیا خوب انداز میں فرمایا

کھیلتے کودتے جن گلیوں میں ہوتے ہیں جواں
ان جوانوں کے ہیں خوں رنگ درو بام اب کے

وائے وہ لوگ ہوئے لقمہءدہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے

باندھ کر سر سے کفن گھر سے نکلیئے ہر روز
یا تو پھر چل ہی پڑیں اوڑھ کے احرام اب کے​

آداب
امجد بھائی
بہت شکریہ آپ کو میری ادنیٰ کاوش پسند آئی ذرہ نوازی ہے
ایک بات کی خوشی ہوئی آپ نے اناللہ والے شعر کی ترمیم شدہ شکل کو پسند کیا ، حالانکہ ابھی تو صرف ایک آپشن تھا مگر آپ کی پسندیدگی کے بعد شاید اسی شکل کو فائنل سمجھا جائے، القط کا مشورہ ابھی زیرِ غور ہے،
آپ کے تبصرے سے کافی تقویت پہنچی، جزاک اللہ
وسلام
 

ندیم مراد

محفلین
بہت خوب، خوب ندیم مراد بھیا!
عمدہ خیال، بہترین انداز میں، بہت ساری داد قبول فرمائیئے

میں نے جنگل جو کہا شہر کو ، جگنو بولا
تھا فقط میرا ہی گھر ، کرنے کو بدنام اب کے

ایک کیاری پہ بھٹکتی ہوئی تتلی دیکھی
کہتی تھی شہر کے گل تو ہیں ، خوں آشام اب کے

فاختاؤں سے جو پوچھا تو وہ یوں گویا ہوئیں
امن کی آشا لگےآرزوئے خام اب کے

شہر کی بُلبلیں روتے ہوئے کہتی ہیں ندیؔم
گیت کیا گائیں بسیروں پہ ہے کہرام اب کے​


اور موجودہ دور کا احوال کیا خوب انداز میں فرمایا

کھیلتے کودتے جن گلیوں میں ہوتے ہیں جواں
ان جوانوں کے ہیں خوں رنگ درو بام اب کے

وائے وہ لوگ ہوئے لقمہءدہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے

باندھ کر سر سے کفن گھر سے نکلیئے ہر روز
یا تو پھر چل ہی پڑیں اوڑھ کے احرام اب کے​

آداب
امجد بھائی
بہت شکریہ آپ کو میری ادنیٰ کاوش پسند آئی ذرہ نوازی ہے
ایک بات کی خوشی ہوئی آپ نے اناللہ والے شعر کی ترمیم شدہ شکل کو پسند کیا ، حالانکہ ابھی تو صرف ایک آپشن تھا مگر آپ کی پسندیدگی کے بعد شاید اسی شکل کو فائنل سمجھا جائے، القط کا مشورہ ابھی زیرِ غور ہے،
آپ کے تبصرے سے کافی تقویت پہنچی، جزاک اللہ
وسلام
 
آداب
امجد بھائی
بہت شکریہ آپ کو میری ادنیٰ کاوش پسند آئی ذرہ نوازی ہے
ایک بات کی خوشی ہوئی آپ نے اناللہ والے شعر کی ترمیم شدہ شکل کو پسند کیا ، حالانکہ ابھی تو صرف ایک آپشن تھا مگر آپ کی پسندیدگی کے بعد شاید اسی شکل کو فائنل سمجھا جائے، القط کا مشورہ ابھی زیرِ غور ہے،
آپ کے تبصرے سے کافی تقویت پہنچی، جزاک اللہ
وسلام
آپ نے غزل ہی اتنی عمدہ کہی ہے کہ پڑھنے والا ہر شعر پر جھوم اٹھتا ہے۔
اللہ مزید ترقی عطا فرمائے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
سب سے پہلے تو بہت بہت شکریہ
میری ادنیٰ سے کاوش پڑھنے کا
پسند کرنے کا
تبصرہ کرنے کا
سمجھانے کا استاد محترم کے اعتراض کے خلاصہ کرنے کا
اگر رہ گئی تو ایک بات کہ استاد محترم کے مشورے کا خلاصہ نہیں ہوا
کیا یہ شعر ناقابلِ اصلاح ہے ، جو اسے القط کر دیا جائے،
اور اگر اس کے علاوہ جو کچھ آپ کی بارک بین نگاہ نے دیکھا ہے اگر بیان کر دیں تو خوشی ہوگی اس سے مجھے اپنی اصلاح کرنے اور آئندہ بھی ان جزویات کا خیال رکھنے کا احساس پیدا ہوگااور اگر نہ بھی ہو تو اور دوسرے حضرات اور نئے نئے شعراء اس علمی بحث سے سیکھیں گے۔
آپ نے اپنا قیمتی وقت مجھ پر صرف کیا ، جسکا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے، باقی اہل زبان کا اپنی زبان سے بے توجہی کا رجہان تلخ سہی مگر ایک حقیقت ہے، جسکا کا واقعی افسوس ہے۔ اسکے باوجود ایسے سرپھرے لوگ موجود ہیں زبان اردو کی زلف سنوارنے میں مصروف ہیں ، جیسا کہ ہماری محفل ،
عنایت

ایک طالب علم کی با ت آپ نے بزرگ ہو کر بھی پڑھی اور اس کو اہمیت دی، اس بات کا بہت شکریہ۔

ہم شاعر لوگ کچھ باتیں بھول جایا کرتے ہیں۔۔ شاعری کرتے ہی کیوں ہیں؟ ظاہر ہے، اس لیے کہ اس سے ہمارے ذہن کو سکون ملتا ہے۔۔۔ کچھ کمی سی جو اپنی ذات میں محسوس ہوتی ہے، وہ پوری ہوتی ہے یا پھر یوں کہیے کہ بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے۔۔۔ وہ اشعار کے ذریعے بیان کردیتے ہیں۔

لیکن شاعری کا ایک بہت اہم اور بنیادی قسم کا مقصد ہے جو ہم اکثر نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ اپنی زبان کی ترویج اور فروغ ہے۔ ہم جب اچھے سے اچھا شعر کہنے کی کوشش کرتے ہیں تو بعض اوقات اردو کو کم کم جاننے والے بھی جب کسی شعر کے مطلب سے آشنا ہوتے ہیں تو جھوم اٹھتے ہیں۔ نو جوان نسل جو اردو سے دور ہورہی ہے، اس کا جی چاہتا ہے کہ وقت نکال کر اردوشاعری پڑھے۔۔۔ بعض لوگ ڈکشنریاں نکال کر دیکھتے ہیں اور زبان سیکھتے ہیں کہ جس زبان میں ایک بات اتنی خوبصورتی سے بیان ہوئی ہے، وہ بات اس زبان کے سمندر میں ایک قطرے کی حیثیت رکھتی ہے۔۔۔ جب قطرہ اتنا خوبصورت ہے تو سمندر کا حسن کیسا ہوگا؟ وہ کیسا دکھائی دیتا ہوگا؟

آپ کا سوال بے جانہیں بلکہ بہت اہم اور ضروری ہے ۔ کیاآپ کا شعر ناقابلِ اصلاح ہے ، جو اسے القط کر دیا جائے؟ تخلیق سے خالق ایک ماں کی طرح محبت کرتا ہے، ایک ایک شعر پر محنت کرنے کے بعد ہی کوئی شاعر اسے منظر عام پر لاتا ہے۔۔۔ بھلا کسی کے کہنے پر ہی کیوں اسے ختم کیاجائے؟ اس کی کوئی معقول وجہ بھی تو بتائی جانی چاہئے۔۔ تو تھوڑی سی وجہ میں نے بتائی تھی کہ اہل زبان ایسے نہیں کہتے، اور ابلاغ نہیں ہوا وغیرہ۔۔ اب آخر میں یہ سوال باقی بچتا ہے کہ کیا یہ ناقابل اصلاح ہے؟ِ ۔۔۔ میرا جواب اثبات میں ہے، کیونکہ فی الحال مجھے اس کی کوئی دیگر معقول صورت دکھائی نہیں دے رہی، جس میں یہ غلطیاں بھی دور ہوجائیں جن کی طرف میں نے اشارہ کیا اور مضمون ، قافیہ، ردیف اور بحر بھی وہی رہے۔ لیکن انسانی ذہن خدا کی وہ انمول تخلیق ہے جس کا مقابلہ دنیا کا کوئی کمپیوٹر نہیں کرسکتا۔ اس لیے کسی بھی اچھے شاعر بشمول آپ کو خود بھی اچانک کوئی ایسا مصرع سوجھ سکتا ہے جو ہر طرح کی غلطیوں سے پاک ، خوبصورت ، گزشتہ خیال سے زیاد واضح اور جاندار ہو ۔ سو میں نے جو اس شعر کو ناقابل اصلاح کہہ دیا ہے، میرا جواب خود بخود غلط ثابت ہوجائے گا۔
تصویر کا دوسرارخ بھی دیکھئے، شاید اس طرح بات کچھ اور کھل کر سامنے آسکے۔
یہاں اسی سوال کو الٹ کر پوچھا جائے کہ دیگر کہنے والے تو اس شعر کے خلاف ہیں اور آپ اس کے حق میں۔ ایسا کیوں ہے؟ (حالانکہ ایسا کوئی اصرار آپ نے کیا نہیں ہے، محض ایک سوال ہی پوچھا ہے )، تو اس کا جواب یہ ہے کہ شاعری ۔اور نثر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کسی ادیب یا کہانی نویس سے کہا جاتا کہ فلاں جملہ غلط ہوگیا ہے ، اسے بدلیے تووہ بڑی آسانی سے اسے بدل سکتا تھا۔ شاعری میں اول تو یہ کام مشکل ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ بڑی دھوکے باز چیز ہے۔ جیسی دکھائی دیتی ہے، ویسی ہوتی نہیں ہے۔ اس میں الفاظ کی ترتیب ایک خاص تاثر پیدا کرتی ہے۔ آپ اسے گنگنا سکتے ہیں۔ اس لیے زیادہ تر شعراء محض شعر کے کسی بحر میں موزوں ہوجانے کو ہی کافی سمجھتے ہیں ، جبکہ یہ معیار نہیں ہے۔ اسی مضمون میں آپ اس سے کئی گنا بہتر شعر کہہ سکتے ہیں، پھر یہی کیوں؟۔۔ اس سوال کے بہت سے جواب ہوسکتے ہیں، لیکن آپ کا کیا جواب ہے؟ یہ جاننا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ شعر حذف کرنے پر ہی کیوں زور دیاجارہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اس شعر میں جو نقص دیکھا، پوری غزل میں نہیں دیکھا۔ اب اس شعر کو یونہی چھوڑ دیاجائے گا تو غزل میں خامی دکھائی دے گی، حذف کریں گے تو شعر جائے گا، لیکن غزل بچ جائے گی ۔اب آپ شعر بچاتے ہیں یا غزل، یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔۔۔ ۔۔(کوئی وضاحت اور چاہئے تو پھر حاضر ہوجاؤں گا۔ حالانکہ اس بار جواب کافی طویل ہوگیا ہے۔ )
کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت ۔۔۔
 

x boy

محفلین
شہر کو گھیر لے تاریکی سرِشام اب کے
شہر کا نام تو بس رہ گیا ہے نام اب کے
اپنے ہی گھر میں سکوں ملنا ہے دشوار بہت
جنگلوں میں ہی چلو کرنے کو آرام اب کے
میں نے جنگل جو کہا شہر کو ، جگنو بولا
تھا فقط میرا ہی گھر ، کرنے کو بدنام اب کے
ایک کیاری پہ بھٹکتی ہوئی تتلی دیکھی
کہتی تھی شہر کے گل تو ہیں ، خوں آشام اب کے
کھیلتے کودتے جن گلیوں میں ہوتے ہیں جواں
ان جوانوں کے ہیں خوں رنگ درو بام اب کے
انّا لِلّلہ جو ہوئے لقمہ ء دہشت گردی
چلتے پھرتے بھی تو بے روح سے اجسام اب کے
فاختاؤں سے جو پوچھا تو وہ یوں گویا ہوئیں
امن کی آشا لگےآرزوئے خام اب کے
باندھ کر سر سے کفن گھر سے نکلیئے ہر روز
یا تو پھر چل ہی پڑیں اوڑھ کے احرام اب کے
شہر کی بُلبلیں روتے ہوئے کہتی ہیں ندیؔم
گیت کیا گائیں بسیروں پہ ہے کہرام اب کے

واہ واہ واہ
کراچی کے لئے تو واقعی ٹھیک ٹھاک ہے
 
Top