نظم: حالات کوئی موسم نہیں

نظم: حالات کوئی موسم نہیں
شاعر:جمیل اختر
حالات کوئی موسم نہیں
کہ خود بخود بدل جائیں ۔
گرمی ہو اس قدر کہ
ہر آنکھ پیاسی ہو
ایسے میں اٹھے وہ گھنگھور گھٹا
اور ایسے جھوم کے برسے کہ
دشت کی صدیوں کی پیاس بجھ جائے
اور ہر آنکھ میں شادمانی ہو
امن کی ندیاں جو کب سے سوکھ گئیں
ان میں پھر سے رواں پانی ہو
پھر باغوں میں ہوں بہاریں
اور فاختائیں گائیں امن کے گیت
اور انسان ، انسان کی حمایت میں چیخ اٹھے
لیکن ایسا کیونکر ہو؟؟؟
حالات کوئی موسم نہیں کہ خود بخود بدل جائیں
کہ حالات کے بدلنے میں تو عمریں بیت جاتی ہیں
حالات کوبدلنے کی خاطر
کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے
راستہ خود نہ بنے تو
راستہ خود بنانا پڑتا ہے
کل کی آسانیوں کی خاطر
آج بارگراں اٹھانا پڑتا ہے
حالات کی تاریکی کو
ختم کرنے کی خاطر
کبھی کبھار چراغ بن کر
خود کو جلانا پڑتا ہے
ورنہ حالات کوئی موسم نہیں کہ خود بخود بدل جائیں
 
Top