ساحر نظم - تیری آواز - ساحر لدھیانوی

نظم - تیری آواز - ساحر لدھیانوی

رات سنسان تھی بوجھل تھیں فضا کی سانسیں
روح پر چھائے تھے تھے بے نام غموں کے سائے
دل کو یہ ضد تھی کہ تو آئے تسلی دینے
میری کوشش تھی کہ کمبخت کو نیند آجائے

دیر تک آنکھوں میں چبھتی رہی تاروں کی چمک
دیر تک ذہن سلگتا رہا تنہائی میں
اپنے ٹھکرائے ہوئے دوست کی پرسش کیلیے
تو نہ آئی مگر اس رات کی پہنائی میں

یوں اچانک تری آواز کہیں سے آئی!
جیسے پربت کا جگر چیر کے جھرنا پھوٹے
یا زمینوں کی محبت میں تڑپ کر ناگاہ
آسمانوں سے کوئی شوخ ستارہ ٹوٹے

شہد سا گھل گیا تلخابہء تنہائی میں
رنگ سا پھیل گیا دل کے سیہ خانے
دیر تک یوں تری مستانہ صدائیں گونجیں
جس طرح پھول چٹکنے لگیں ویرانے میں

تو بہت دور کسی انجمنِ ناز میں تھی
پھر بھی محسوس کیا میں نے کہ تو آئی ہے
اور نغموں میں چھپا کر مرے کھوئے ہوئے خواب
میری روٹھی ہوئی نیندوں کو منا لائی ہے

رات کی سطح پر ابھرے ترے چہرے کے نقوش
وہی چپ چاپ سی آنکھیں وہی سادہ سی نظر
وہی ڈھلکا ہوا آنچل وہی رفتار کا خم
وہی رہ رہ کے لچکتا ہوا نازک پیکر

تو میرے پاس نہ تھی پھر بھی سحر ہونے تک
تیرا ہر سانس مرے جسم کو چھو کر گزرا
قطرہ قطرہ ترے دیدار کی شبنم ٹپکی
لمحہ لمحہ تری خوشبو سے معطر گزرا

اب یہی ہے تجھے منظور تو اے جانِ قرار
میں تری راہ نہ دیکھوں گا سیہ راتوں میں
ڈھونڈ لیں گی مری ترسی ہوئی نظریں تجھ کو
نغمہ شعر کی امڈی ہوئی برساتوں میں

اب تیرا پیار ستائے گا تو میری ہستی!
تری مستی بھری آواز میں ڈھل جائے گی
اور یہ روح جو تیرے لیے بے چین سی ہے
گیت بن کر ترے ہونٹوں پہ مچل جائے گی

ترے نغمات تیرے حسن کی ٹھنڈک لے کر
میرے تپتے ہوئے ماحول میں آ جائیں گے
چند گھڑیوں کے لیے ہوں کہ ہمیشہ کیلیے
مری جاگی ہوئی راتوں کو سلا جائیں گے

ساحر لدھیانوی​
 
Top