نظم بس تجھے ہی مانگا ہے

کسی کے انتظار میں خاک ہو گیا ہوں میں،
راکھ ہو گیا ہوں میں، دکھوں کی ریل پیل ہے،
رنج بھی ہزار ہے، درد بے شمار ہے،
کیف پر ملال ہے، جان پر عذاب ہے
اذیتوں کا سال ہے، بس تیرا خیال ہے

زندگی ہے مختصر، در بدر ہوا مگر، ہر جگہ پکار آیا
تو نہیں آیا مگر، تو ہوا ہے قیس پر، بس تو لیلی لیلی کر،
رات دن پکار کر، زندگی تمام کر، وہ ملے نہ تجھ سے پر
وہ رہے تجھی میں پر، سانس میں شامل ہے وہ،

سانس جب آہیں بنیں ہر آہ میں شامل ہے وہ،
رگوں میں دوڑتے ہوئے خون میں شامل ہے وہ
خون کی شدت میں وہ، خون کی حدت میں وہ

ہر جگہ تجھے دیکھا، ہر جگہ تجھے پایا
خیال بن کے تو آیا، یاد بن کے تو آیا،
یاد کی شدت میں تو، نالہ بلبل میں تو،
تیرے شہر میں آیا، تیری خاک میں لایا
خاک کی خوشبو میں تو، جس جگہ بھی جاتا ہوں ہر جگہ تجھے پایا، ہر جگہ تیرا جلوہ، ہر طرف بس تو ہی تو

تیرے ہجر میں گل کر جل گیا دم آخر
کونج کے جو دل میں ہے اس مودت میں بھی تو

ہر آستاں پہ بھٹکا ہوں، بس تجھے ہی مانگا ہے
ہر دعا میں شامل تو،

اپنے خون سے میں نے ہر مزار روندا ہے،
بس تجھے ہی مانگا ہے، ہر دعا میں شامل تو

بس تجھے ہی مانگا ہے
بس تجھے ہی مانگا ہے
بس تجھے ہی مانگا ہے
کلام قیس زمان شمسی
 
Top