نظم برائے اصلاح

لکھنا چاہا جو آج تیرے لیے
لفظ دل کی گلی میں آئے یوں
جس طرح پھول پر گرے شبنم
جس طرح بدلیوں میں چاند چھپے
جس طرح جگنؤں کی جگ مگ ہو
جس طرح رات کے حسیں لمحے
جس طرح نکلے دن کی اجلی دھوپ
سوچتا ہوں کہ اب لکھوں کیا تمہیں
تم تو خود سب سے خوبصورت ہو
تم ہی تو زیست کی ضرورت ہو ا
س لیے استعارے چھوڑ دیے
بند سارے ہی آدھے چھوڑ دیے
اور دل کی زمیں پر میں بس
تم کو صرف زندگی ہی لکھ پایا.....
 
Top