کاشفی

محفلین
انتظار
(سرور عالم راز سرور)

ترے خیال کی سوگند، آرزو کی قسم
دریدہ دامن دل، چشم بے بسی پرنم
وہی جہان تمنا تھا اور وہی تھے ہم
دل و دماغ پہ تھا اضطراب کا عالم
شب امید ستاروں کے ساتھ جاگے ہم

رباب قلب تھا یوں آشنائے زیر وبم
کہ گھل کے رہ گئی کانوں میں کرب کی سر گم
ادھر تھے پائے جنوں اور اُدھر تھے خار الم
زبان درد ہوئی دست بیکسی سے قلم
نہ آگے آیا کوئی چارہ گر پئے مرہم
حیات ہو گئی ہو جیسے زحمت پیہم

نیاز و ناز کی وہ ساعتیں، وہ لطف و کرم
کہاں گیا وہ ترے التفات کا موسم
کچھ اس طرح سے لٹا کاروان کیف و کم
جرس، دلیل نہ کوئی کہیں صدائے قدم

"غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا"
 
Top