نظم - آگہی کے طلسم کی حس --- نوید صادق

نوید صادق

محفلین
نوید صادق

آگہی کے طلسم کی حِس​

طاقِ اُمید پر یہ بجھتا دیپ
رات کی آخری نشانی ہے
صبح کے اوّلیں ستارے نے
میری سوچوں کو منجمد پا کر
لوٹ لی روشنی نگاہوں کی
جیسے اس کو مری ضرورت ہو


اے مرا ہاتھ دیکھنے والے!
وقت برباد کر نہ باتوں میں
میرے چہرے کی جھرّیوں کو دیکھ
کتنی صدیاں پھلانگ کر میں نے
رات اپنا سُراغ پایا تھا


اور اپنے وجود کی پرتیں
کپکپاتی پلک سے کھولی تھیں
اور وہ منحوس صبح کا تارہ
میری آنکھوں کی روشنی لے کر
شہر سیراب کرتا جاتا ہے


آگہی کے طلسم سے بے حِس
لوگ دیوانہ وار آ آ کر،
اپنے حصّے کی تمکنت لے کر
بے تعیّن گلی محلوں میں
پھیلتے جا رہے ہیں سُرعت سے
اور میں صبح کے اُجالے سے
پوچھتا ہوں کہ اے فریب انداز!
میں کہاں ڈھونڈتا پھروں خود کو!؟

(نوید صادق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
واللہ کیا نظم ہے۔ میرے خیال میں نوید بھائی آپ غزلوں کو چھوڑ کر نظموں پر توجہ دیں۔ واہ واہ میں تو نظم کے سحر میں گُم ہو گیا ہوں۔ یوں لگتا ہے اصل نوید صادق کہیں انہی نظموں میں ہے۔ بہت داد قبول ہو نوید بھائی۔ :)
 

مغزل

محفلین
نوید بھائی ، سبحان اللہ سبحان اللہ ، جواب نہیں ، گزشتہ نظمیں بھی ’’ اصلاح ‘‘ کی لڑی سے نکال کر ’’ آپ کی شاعری ‘‘ میں‌لگائیں تو بندہ کچھ عرض بھی کرے ، ( تبھی داد نہ دی تھی ) سخنور بھائی کی بات دل کو لگتی ہے ، مگر میرا خیال مختلف ہے ، کیوں کہ آپ غزل کو غزل اور نظم کو نظم کے حیطہ میں ہی رکھتے ہیں لہذا یہ طے کرنا آسان نہیں کہ آپ نظم یا غزل کے شاعر ہیں یا پھر نقاد ہیں ،۔ اختلافِ رائے پر میں سخنور صاحب سے معافی کا خواستگارہوں ، مگر میرے نزدیک ایسا ہی ہے جیسا میں نے عرض کیا، ۔۔اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے مقدمے کی ذیل میں کچھ عرض کروں ؟؟؟
الداعی الخیر
 

مغزل

محفلین
معزز عدالت ::
اپنے اسلاف کی روشنی میں میرا مقدمہ ہے کہ ہرآنے والا خیال اور لفظ کسی نادیدہ طاقت ( ہمارے ایمان کے مطابق خالقِِ کائنات) کی جانب سے ہمیں ہبہ کیا جاتا ہے ، جس میں ہمیں خود سے کوئی دخل نہیں، لہذا اس پر کسی اختیاری کیفیت کا اطلاق ممکن ہی نہیں ، مزید یہ کہ ہر آنے والی تخلیق اپنا ہئیتی دائرہ یا آہنگ خود لے کر اترتی ہے ، اصنافِ سخن میں سب سے زیادہ بے اختیاری کا عمل غزل کے ساتھ ہے ،جبکہ نظم ایک مکمل کیفیت ، مطلوبہ علمی حثیت اور نشت کی متقاضی ہے جب کہ صنفِ غزل میں یہ اہتمام لازمی نہیں ، ۔ غزل کا ایک شعر ایک مکمل مضمون ہوتا ہے اور لف و نشر ہی عمدہ ترین مثال ہے جبکہ نظم اپنی ہیئت میں ایک سے زائید فکری دائروں کے باوجود ایک مکمل اشکالی دائرے کی پابند ہے ،۔۔ دونوں اصناف میں تخلیق کار کا مزاج اور کیفیت مختلف ہوتی ہے ، ایک قدرتِ کلام پر منتج ہے تو دوسری صنف بے اختیاری پر ۔ لہذا کسی بھی تخلیق کار کے لیے یہ طے کرنے والا کم از کم جو ان دونوں اصناف کے مزاج اور انزال سے کماحقہ وابستہ یا متعلق نہ ہو یہ رائے دینا میرے خیال میں تخلیق کار کے ساتھ زیادتی کی ہی ایک صورت ہے ، ۔۔۔ (تنقیدی رویوں کی بات پھر کسی وقت پر ) والسلام
 

نوید صادق

محفلین
اب رہی بات اصلاحِ سخن میں پیش کرنے کی تو بھائی ہم ان نظموں پر اصلاح چاہ رہے تھے۔ جو کسی نے بھی نہیں دی۔
خٰیر
 

نوید صادق

محفلین
آپ کو بھلا پوچھنے کی ضرورت ہے؟؟
شروع کریں۔۔ 1 2 3 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور بھائی! آپ نے بالکل بجا فرمایا۔ اوپر مقدمے میں۔
 

الف عین

لائبریرین
واہ، بہت اچھی نظم ہے نوید۔ مبارک ہو۔ ’سمت‘ ابھی رلیز کر دیا ہے تازہ شمارہ ورنہ اس میں شامل کر دیتا۔
 
Top