نظم۔ خضر کا کام کروں۔ حامد اللہ افسر

فرحت کیانی

لائبریرین
خضر کا کام کروں

درد جس دل میں ہو اس کی دوا بن جاؤں
کوئی بیمار اگر ہو تو شفا بن جاؤں
دُکھ میں ہلتے ہوئے لب کی دعا بن جاؤں

اُف وہ آنکھیں کہ ہیں بینائی سے محروم کہیں
روشنی جن میں نہیں نُور جن آںکھوں میں نہیں
میں ان آنکھوں کے لئے نور و ضیاء بن جاؤں

ہائے وہ دل جو تڑپتا ہوا گھر سے نکلے
اُف وہ آنسو جو کسی دیدہء تر سے نکلے
میں اس آنسو کو سکھانے کی ہوا بن جاؤں

دُور منزل سے اگر راہ میں تھک جائے کوئی
جب مسافر کہیں رستے سے بھٹک جائے کوئی
خضر کا کام کروں راہ نما بن جاؤں

عمر کے بوجھ سے جو لوگ دبے جاتے ہیں
ناتوانی سے جو ہر روز جُھکے جاتے ہیں
ان ضعیفوں کے سہارے کو عصا بن جاؤں


از حامد اللہ افسر
 
Top