محمد تابش صدیقی
منتظم
دادا مرحوم کی دو نظمیں احبابِ محفل کی نذر:
ہم لوگ
روشن پہلو
خوش ادا خوش خصال ہیں ہم لوگ
آپ اپنی مثال ہیں ہم لوگ
روشن پہلو
خوش ادا خوش خصال ہیں ہم لوگ
آپ اپنی مثال ہیں ہم لوگ
خیرِ امت ملا ہمیں کو خطاب
وہ عدیم المثال ہیں ہم لوگ
وہ عدیم المثال ہیں ہم لوگ
بات کرتے ہیں پھول جھڑتے ہیں
اتنے شیریں مقال ہیں ہم لوگ
ہر نشیب و فراز میں محتاط
برسرِ اعتدال ہیں ہم لوگ
رِستے زخموں کو قلب گیتی کے
مرہمِ اندمال ہیں ہم لوگ
میرے دامن میں ہے جہاں کا سکوں
دافعِ ہر وبال ہیں ہم لوگ
یا الٰہی نظرؔ عنایت کی
تیری عظمت پہ دال ہیں ہم لوگ
-----
تاریک پہلو
سر بریدہ نہال ہیں ہم لوگ
کس قدر بد مآل ہیں ہم لوگ
پیکرِ صد ملال ہیں ہم لوگ
خستہ دل خستہ حال ہیں ہم لوگ
فکرِ عقبیٰ سے ہم کو بے فکری
صیدِ مال و منال ہیں ہم لوگ
سیئاتِ عمل خدا کی پناہ
اب تو ضرب المثال ہیں ہم لوگ
بے عمل ہی امیدِ حور و قصور
کس قدر خوش خیال ہیں ہم لوگ
اب قریبِ غروب آ پہنچا
آفتابِ زوال ہیں ہم لوگ
اک معمہ نظرؔ سمجھنے کو
اک نشانِ سوال ہیں ہم لوگ
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
اتنے شیریں مقال ہیں ہم لوگ
ہر نشیب و فراز میں محتاط
برسرِ اعتدال ہیں ہم لوگ
رِستے زخموں کو قلب گیتی کے
مرہمِ اندمال ہیں ہم لوگ
میرے دامن میں ہے جہاں کا سکوں
دافعِ ہر وبال ہیں ہم لوگ
یا الٰہی نظرؔ عنایت کی
تیری عظمت پہ دال ہیں ہم لوگ
-----
تاریک پہلو
سر بریدہ نہال ہیں ہم لوگ
کس قدر بد مآل ہیں ہم لوگ
پیکرِ صد ملال ہیں ہم لوگ
خستہ دل خستہ حال ہیں ہم لوگ
فکرِ عقبیٰ سے ہم کو بے فکری
صیدِ مال و منال ہیں ہم لوگ
سیئاتِ عمل خدا کی پناہ
اب تو ضرب المثال ہیں ہم لوگ
بے عمل ہی امیدِ حور و قصور
کس قدر خوش خیال ہیں ہم لوگ
اب قریبِ غروب آ پہنچا
آفتابِ زوال ہیں ہم لوگ
اک معمہ نظرؔ سمجھنے کو
اک نشانِ سوال ہیں ہم لوگ
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی