ایک ملک۔ کئی عدالتی نظام
1973ء کا متفقہ آئین منظور کرنے والوں نے تو پورے ملک میں ایک آئین کے نفاذ کی تمنا کی تھی ایک عدالتی نظام کو لوگوں کے لئے انصاف کا سرچشمہ بنایا تھا ۔اب سوال پیداہوتاہے کہ اس نظام عدل کے تحت ہونے والے فیصلوں کو کسی دوسری عدالت میں چیلنج کیا جا سکے گا یا نہیں؟ اگر یہ نظام کامیابی سے ہمکنار ہوا تو کیا اسی نوع کا نظام ملک کے دوسرے حصوں میں بھی رائج کیا جائے گا اگر یہ نظام عوام بشمول خواتین کو ان کے حقوق نہ دے سکا تو کیااسے شریعت کی ناکامی کا نام دینا ممکن ہوگا؟
اب صوفی محمد صاحب امیر المومینن بنے کی کوشش کر رہا ہے