سعود عثمانی نشیبِ عُمر ہے' کیسے یہاں چلا جائے۔سعود عثمانی

نشیبِ عُمر ہے' کیسے یہاں چلا جائے
چلا نہ جائے مگر کارواں چلا جائے

ہے سبز جھیل کے اُس پار شہر زاد کا شہر
اُدھر چلیں کہ سر ِ داستاں چلا جائے ؟

جَھمَک رہی ہے کسی قریہ ء جمال کی لَو
تھکن بہت ہے مگر' ہم رَہاں !!! چلا جائے

میں خود سے مِل ہی نہ پایا تری مَحبّت میں
جہاں کوئی بھی نہ ہو' اب وہاں چلا جائے

پکارتا ہے مسلسل وراے جسم کوئی
تو کیا خیال ہے؟ اے میری جاں ! چلا جائے

(سعُودؔ عُثمانی )
 
Top