نزول سخن

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں اس قسم کا بھی ایک تانا بانا یہاں ہونا چاہئے جس میں کسی شعر کے نزول کی کہانی سنائی جا سکے۔

پہلا واقعہ میں ہی شروع کرتا ہوں۔ بحوالہ ’بزمِ سہارا‘ اگست 2009ء
ء کی بات ہے، شکیلہ بانو بھوپالی کسی پروگرام کے سلسلے میں حیدر آباد آئ ہوئ تھیں۔ وہ مخدومؔ اور ان کے دوست شاہد صدیقی سے کافی بے تکلف تھیں۔ تینوں دوستوں میں یہ بات طے ہوئی کہ اب جو بات ہو گی وہ منظوم ہو گی۔ رات کو شکیلہ بانو کو خوب ہار پہنائے گئے جو ان کے سامنے رکھے ہوئے تھے۔ وہ بے خیالی میں پتی پتٓی توڑ کر ان کو بکھیر رہی تھیں، جس کی وجہ سے ان کے سامنے پتیاں ہی پتیاں بچھ گئی تھیں۔ شاید نے آہستہ سے کہا "کیا بچھا دی بساط پھولوں کی"۔ شکیلہ نے بر جستہ جواب دیا ’بے مروت ہے ذات پھولوں کی‘ ۔ مخدوم نے دونوں کو خاموش کرانے کی غرض سے کہا "لوگ سنتے ہیں بات پھولوں کی‘ ۔ اگلے دن ’پھولوں کی‘ والی زمین پر مخدوم کی مشہور زمانہ غزل تیار تھی جو بعد میں فلم ‘بازار‘ میں ساگر سرحدی نے بھی استعمال کی۔
 

جیہ

لائبریرین
بہت خوب بابا جانی۔ شاید آپ نزول لکھنا چاہ رہے تھے، غلطی سے بزول لکھ دیا ہے:)

اس طرح کا بہت ہی مشہور عام واقعہ مجھے جرات و انشاء کا یاد ہے۔

ایک دفعہ انشا جرات سے ملنے گئے ، وہ خیال سخن میں مگن تھے۔ انشاء نے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ جرات نے کہا کہ ایک مصرع ہو گیا ہے، دوسرے کی فکر میں ہوں۔ انشاّ نے کہا کہ مجھے مصرع سنا۔ جرات نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ تو گرہ لگا کر شعر اچک لوگے۔ خیر انشا نے بہت اصرار کیا تو اسے مصرع سنایا

اس زلف کو پھبتی کہ شب دیجور کی سوجھی

انشاّ نے جھٹ سے گرہ لگایا ۔۔

اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی

مزے کی بات یہ ہے کہ جرات اندھا تھے
 

الف عین

لائبریرین
اوہو جوجو، ’ب‘ اور ’ن‘ میں اکثر ادل بدل ہو جاتا ہے، لیکن تم نے تو ’و‘ کو بھی ’د‘ سے بدل دیا۔ ویسے یہ بہت عام غلطی ہے کمپوزنگ کی۔ جیسی مجھے سینکڑوں جگہ نظر آئی ہے، ’واماندگی‘ کو ’داماندگی‘ "وقیع‘ کو ’دقیع‘ اعور ’دقیق‘ کو ’وقیق‘۔
لیکن اس پر اب اتنی ہنسی نہیں آتی، ہنسی تو اس پر آتی ہے جب ’ ا ک ث ر‘ کو ’اکژ‘ یعنی ا ک ژ اور ڈ ا ک ٹ ر کو ڈاکڑ یعنی ڈ ا ک ڑ!!!


اور ہاں، یہاں یہ تدوین کر دوں کہ اوپر بھی تدوین کر دی ہے، نشان دہی کرنے کاشکریہ ادا نہیں کرتا، یہ تو تمہارا فرض تھا!
 
میرے خیال میں اس قسم کا بھی ایک تانا بانا یہاں ہونا چاہئے جس میں کسی شعر کے نزول کی کہانی سنائی جا سکے۔

پہلا واقعہ میں ہی شروع کرتا ہوں۔ بحوالہ ’بزمِ سہارا‘ اگست 2009ء
ء کی بات ہے، شکیلہ بانو بھوپالی کسی پروگرام کے سلسلے میں حیدر آباد آئ ہوئ تھیں۔ وہ مخدومؔ اور ان کے دوست شاہد صدیقی سے کافی بے تکلف تھیں۔ تینوں دوستوں میں یہ بات طے ہوئی کہ اب جو بات ہو گی وہ منظوم ہو گی۔ رات کو شکیلہ بانو کو خوب ہار پہنائے گئے جو ان کے سامنے رکھے ہوئے تھے۔ وہ بے خیالی میں پتی پتٓی توڑ کر ان کو بکھیر رہی تھیں، جس کی وجہ سے ان کے سامنے پتیاں ہی پتیاں بچھ گئی تھیں۔ شاید نے آہستہ سے کہا "کیا بچھا دی بساط پھولوں کی"۔ شکیلہ نے بر جستہ جواب دیا ’بے مروت ہے ذات پھولوں کی‘ ۔ مخدوم نے دونوں کو خاموش کرانے کی غرض سے کہا "لوگ سنتے ہیں بات پھولوں کی‘ ۔ اگلے دن ’پھولوں کی‘ والی زمین پر مخدوم کی مشہور زمانہ غزل تیار تھی جو بعد میں فلم ‘بازار‘ میں ساگر سرحدی نے بھی استعمال کی۔

کیا خوبصورت لمحہ ہے یہ

پھر چھڑی رات بات پھولوں کی
رات ہے یا بارات پھولوں کی

بہت خوبصورت سلسلہ ہے جناب ، شکریہ ہدیہ خدمت ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب بابا جانی۔ شاید آپ نزول لکھنا چاہ رہے تھے، غلطی سے بزول لکھ دیا ہے:)

اس طرح کا بہت ہی مشہور عام واقعہ مجھے جرات و انشاء کا یاد ہے۔

ایک دفعہ انشا جرات سے ملنے گئے ، وہ خیال سخن میں مگن تھے۔ انشاء نے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ جرات نے کہا کہ ایک مصرع ہو گیا ہے، دوسرے کی فکر میں ہوں۔ انشاّ نے کہا کہ مجھے مصرع سنا۔ جرات نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ تو گرہ لگا کر شعر اچک لوگے۔ خیر انشا نے بہت اصرار کیا تو اسے مصرع سنایا

اس زلف کو پھبتی کہ شب دیجور کی سوجھی

انشاّ نے جھٹ سے گرہ لگایا ۔۔

اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی

مزے کی بات یہ ہے کہ جرات اندھا تھے

جویریہ صحیح شعر یوں ہے۔
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
 

مغزل

محفلین
:grin:واہ ، یعنی غالب کے علاقے کوئی دم بھی نہیں مارسکتا اور آپ شعر کی ٹانگ توڑدیں اس بنیاد پر کہ ان کا کوئی والی وارث نہیں ، :battingeyelashes:
 
Top