ندی کا منظر (بانگِ درا سے)

عرفان سعید

محفلین
ندی کا منظر
(بانگِ درا سے)
عرفان سعید​
آتی ہے ندی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کی شرماتی ہوئی
آئنہ سا شاہدِ قدرت کو دکھلاتی ہوئی
سنگِ رہ سے گاہ بچتی ، گاہ ٹکراتی ہوئی
چھیڑ تی جا اس عراق دل نشیں کے ساز کو
اے مسافر! دل سمجھتا ہے تری آواز کو​

ہمالہ کے فلک بوس کہساروں کی چوٹیوں سے پھوٹنے والی ندی کا یہ منظر حُسن و رعنائی سے لبریز ہے، جو رُوح کے لیے نشاط انگیز، قلب و ذہن کے لیے سکون بخش اور تخیل و وجدان کے لیے تریاق ہے۔ اس منظر میں رفعت و بلندی، سرعت و تیزی، حکمت و دانش، لطیف و رقیق جذبات و احساسات اور ان کا زبانِ حال سے اظہار، اور نغمگی اور موسیقیت ہے، جو ہماری جمالیاتی حِس کی تسکین کرتی، نرمی و شفقت کو ہمارے دلوں میں انڈیلتی اور سکون و اطمینان کی بادِ بہاراں چلاتی ہے۔

"آتی ہے ندی"- منظر کا نقطۂ آغاز ہی اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اس میں حرکت و جُنبش ہے۔ سکون و ثبات کا ادنیٰ سا شائبہ بھی نہیں۔

"فرازِکوہ" – رفعت و بلندی کا اظہار، اور پھر ہمالہ کے فلک بوس پہاڑوں کا نقطۂ عروج اس بلندی کے اظہار کو مزید متاثر کُن کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بین السطور سے سُرعت و تیزی کا مفہوم بھی عیاں ہوتا ہے جو کہ الفاظ میں نمایاں نہیں بلکہ معانی میں پنہاں ہے۔

"گاتی ہوئی" – ندی کا گانا پوری فضا کو موسیقی، نغمگی اور غِنا سے معمور کر رہا ہے، جو پورے منظر کو لطیف و رقیق بنا رہا ہے۔

اب تھوڑی دیر کے لیے اس عالمِ ارض کی حدود و قیود سے رہائی پا کر تخیل جنت کی چہل قدمی میں مصروف ہے۔

کوثر و تسنیم اور ان کی موجوں کا شرمانا: یُوں محسوس ہوتا ہے کہ عالمِ ارض اور عالمِ سماء کے درمیان تمام حجابات ہٹا دیے گئے ہوں، تمام راز منکشف ہو گئے ہوں اور تمام اسرار پردۂ اخفا سے نمودار ہو چُکے ہوں اور زمین و آسمان چند قلیل لمحات کو عالمِ واحد میں بدل گئے ہوں۔ ایک طرف فرازِ کوہ سے راگ الاپتی ہوئی ندی اور دوسری طرف کوثر و تسنیم کی موجیں، اور ان موجوں کا جوئے ہمالہ کے بے مثال اور دلفریب حُسن کے آگے شرمانا – یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک طرف حُورانِ جنت اور دوسری طرف ملکۂ حُسنِ ارض، اور حُورانِ جنت ملکۂ حُسنِ ارض کی لازوال خوبصورتی کے سامنے شرماتے ہوئے!

فرازِ کوہ سے پھوٹنے والی ندی اور اس کا مقابل کوثر و تسنیم کی موجوں کا شرمانا – اسے کیسے کوئی مصور تصویر کے قالب میں ڈھال پائے گا۔ یہ تو لوحِ خیال پر مُر تسم ہونے والی لطیف اور نازک شبیہیں ہیں۔ اگر کوئی فنکار اس منظر کو رنگوں سے کینوس پر منتقل کر پائے تو ایسی تصویر کو پھر بہشت میں ہی آویزاں ہونا چاہیے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ کی حوصلہ افزائی پر بہت ممنون ہوں۔ دُعا کرتا ہوں کیمیا گری کی ملکہ کبھی کبھی تنہا چھوڑے تو کنیزِ ادب کی طرف متوجہ ہوں۔
بہت سمپل سی بات ہے آپ اچھا لکھتے ہیں ۔۔کیمیا گری کا ادب سے گہرا تعلق ہے ۔۔ انسان خود کیمیاگری کی مثال ہے ۔ پھر رشتوں سے یا مناظر سے ہر انسان کی اپنی کیمسٹری ہوتی ہے ۔۔۔ سو آپ کی یہ کیمسٹری مجھے تو پسند آئی ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
کوثر و تسنیم اور ان کی موجوں کا شرمانا: یُوں محسوس ہوتا ہے کہ عالمِ ارض اور عالمِ سماء کے درمیان تمام حجابات ہٹا دیے گئے ہوں، تمام راز منکشف ہو گئے ہوں اور تمام اسرار پردۂ اخفا سے نمودار ہو چُکے ہوں اور زمین و آسمان چند قلیل لمحات کو عالمِ واحد میں بدل گئے ہوں۔ ایک طرف فرازِ کوہ سے راگ الاپتی ہوئی ندی اور دوسری طرف کوثر و تسنیم کی موجیں، اور ان موجوں کا جوئے ہمالہ کے بے مثال اور دلفریب حُسن کے آگے شرمانا – یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک طرف حُورانِ جنت اور دوسری طرف ملکۂ حُسنِ ارض، اور حُورانِ جنت ملکۂ حُسنِ ارض کی لازوال خوبصورتی کے سامنے شرماتے ہوئے!

یہ بہت اچھا لکھا ہے آپ نے ۔۔ماشاء اللہ ۔۔۔ مزہ آگیا گویا کہ وہاں موجود ہوں۔
 
Top