ابن انشا نجات کا طالب،،غالب،،،،ابن انشاء

علی فاروقی

محفلین
لو مرزا تفتہ ایک بات لطیفے کی سنو۔کل ہر کارہ آیا تو تمہارے خط کے ساتھ ایک خط کرانچی بندر سے منشی فیض احمد فیض کا بھی لایا جس میں لکھا ہے کہ تمہاری صد سالہ برسی مناتے ہیں۔ جلسہ ہوگا جس میں لوگ تمہا ری شاعری پر مضمون پڑھیں گے۔بحث کریں گے،تمہاری زندگی پر کتابیں چھپیں گی۔ایک مشاعرہ بھی کرنے کا ارادہ ہے۔تم بھی آو اور خرچہ آمد و رفت پاو۔ دن کی روٹی اور رات کی شراب بھی ملے گی۔بہت خیال دوڑایا سمجھ میں نہ آیا کہ یہ صاحب کون ہیں۔ان سے کب اور کہاں ملاقات ہوئ تھی۔اگر شاعر ہیں تو کس کے شاگرد ہیں۔بارے منشی ہیرا سنگھ آئے اور دریافت ہو ا کہ ادھر لاہور اور ملتان کی عملداری میں ان کا نام مشہور ہے۔متوطن سیالکوٹ کے ہیں کہ لاہور سے آگے ایک بستی ہے جہاں کھیلوں کا سامان اور شاعر اچھے بنتے ہیں۔ایسے کہ نہ صرف ملک کے اندران کی مانگ ہے بلکہ دساور کو بھی بھیجے جاتے ہیں۔ان میاں فیض کے متعلق بھی منشی ہیرا سنگھ نے بتایاکہ اکثر یہاں سے دساور بھیجے جاتے ہیں۔وہاں سے واپس کیے جاتے ہیں لیکن یہ پھر بھیجے جاتے ہیں۔ادھر جو ماورائے قفقازروس کی سلطنت ہے وہاں کاوالی ان کی بہت قدر کرتاہے۔اپنے ہاں انعامِ صد ہزاری بھی بخشا ہے کہ لینن انعام کہلاتا ہے اور کسی کسی کو ملتاہے۔یہ قصیدہ اچھا ہی کہتے ہوں گے۔لیکن اپنی اپنی قسمت کی بات ہے۔دلّی کا قلعہ آباد تھا تو بادشاہ کا قصیدہ اور جوان بخت کا سہرا ہم نے بھی لکھاتھا۔غفران مآب نواب رامپور کی مدح میں بھی اشعار لکھے اور ملکہِ وکٹوریہ کا قصیدہ کہ کر بھی لیفٹیننٹ گورنر کے توسط سے گزارا لیکن کبھی اتنی یافت نہ ہوئ کہ ساہوکار کا قرضہ چکتا کرتے۔اتنی سرکاریں دیکھیں آمدنی اب بھی وہی ایک سو باسٹھ روپے آٹھ آنے۔ فتوح کا اعتبار نہیں آئے آئے نہ آئے نہ آئے۔منشی ہیرا سنگھ نے یہ بھی بتایا کہ یہ فیض احمد فیض انگریزی دان ہیں،پھر بھی آدمی نیک او ر شستہ ذات کے ہیں،کسی مدرسے میں لڑکے پڑھاتے ہیں۔لڑکے پڑھانے والوں کے متعلق میری رائے اچھی نہیں۔وہ مردِ مجہول منشی امیرالدین قاطع والا بھی تو پٹیالے میں راجا کے مدرسے میں مدرس تھا۔لیکن یہ خیر آدمی اچھے ہی ہوں گے۔خط تو بڑی محبت اور ارادت کا لکھا ہے۔شروع خط میں چھاپے کے حروف میں ادارہ یادگارِ غالب بھی مرسوم ہے۔
اچھا ایک بات کل کے خط میں لکھنا بھول گیا۔منشی شیو نرائن سے کہو کہ دیوان کا چھاپا روک دیں کہ ایک سوداگر کتابوں کا بلادِ پنجاب سے آیاہوا ہے، شیو نرائن سے ہماری شرط تھی کہ وہ چھاپے تو پچاس نسخے احباب میں تقسیم کرنےاور صا حبانِ عالی شان کی نظر گزرانے کے لیئے بایں تہی دستی دبے زرّیں اس سے قیمتا لیں گے لیکن یہ شخص اس شرط پہ چھاپنے کو آمادہ ہے کہ ہمیں کچھ نہیں دینا پڑے گا۔بلکہ وہ پانچ نسخے حقِ تصنیف میں ہم کو دے گا۔جبکہ شیو نرائن اور دوسرے مطبع والے ایک نسخہ دیتے ہیں۔بہت اخلاق کا آدمی معلوم ہوتا ہے۔آتے ہوے دو شیشے شرابِ انگریزی کے بھی لایا تھا۔میں نے وعدہ کر لیا ہے۔
ہاں تو صدی والی بات رہی جاتی ہے۔اسی سے دیکھ لو لہ عناصر میں اعتدال کی کیا حالت ہے۔سوچتاہوں کہ جاوں کہ نہ جاوں؟ ہنڈی بھیج دیتے تو کوئ بات بھی تھی۔بعد میں یہ لوگ کرایہ آمد ورفت بھی دیں نہ دیں۔نہیں بابا نہیں جاتا ،میں نہیں جاتا،
نجات کا طالب
غالب

ابن انشا کی کتاب"خمار گندم سے اقتباس
 

محسن حجازی

محفلین
والسلام غالب!
امید ہے تم خیریت سے تو ہو گے۔ قصد پنجاب کی اطلاع ہم کو ملی بھائی میاں بہتر ہے وہیں ٹکے رہو کہ زمانہ بہت بدل گيا ہے۔ تم کو تو انگریز سرکار نے بھی کبھی ناحق ستایا نہ ہوگا ادھر تو وہ ہاہاکار ہے کہ خدا کی پناہ۔ ابھی تمہارے نامے کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہی تھے کہ ہرکارہ دوڑا آیا کہنے لگا کہ منشی فیض کو دھر لیا گیا ہے۔ سو مانا شاعر ہو اچھا ہے پر لازم نہیں کہ باہر ہی بھیجے جاؤ اندر بھی رکھے جا سکتے ہو۔ اب کب تک اندر رہے یہ تو نوائے سروش بھی کچھ کہنے سے قاصر ہے۔ تھوڑے کو بہت جانوالقاب و الوداع کے تکلفات میں بھی پڑنے کا وقت نہیں کہ اک اور ہرکارہ گرد اڑاتا دکھائی دیتا ہے جانے کیا خبر لاتا ہو۔
 
Top