ناول و افسانہ

السلام علیکم جی آپ کی بات درست ہے لیکن یہاں میں اپنی یا منتخب شدہ کہانیا ں لوڈ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
اپنی کہانیاں ’آپ کی تحریریں‘ میں پوسٹ کی جا سکتی ہیں۔ پسندیدہ افسانے پسندیدہ تحریروں نامی فورم میں۔ یہاں کسی کتاب کا ذکر کیا جاتا ہے جو آپ پڑھ رہے ہوں یا پڑھ چکے ہوں۔ یا پڑھنے کا ارادہ کرتے ہوں۔ یا پڑھنا نہ چاہتے ہوں۔ علی ہذا القیاس۔۔
 
جناب جی ایک کتاب جو کہ میری نظر سے گزری ہے " سراغ زندگی" مصنف ( گرور جنیش ) سے اقتباس ہے
" میں نے سنا ہے کہ ایک شخص ہوش و خرد سے بیگانہ ہوگیا۔ وہ گاؤں کے ایک ویران راستے پر تنہا جارہا تھا۔ وہ خوف سے بچنے کے لیے قدرے تیز چل رہا تھا- اگر کوئی دوسرا وہاں موجود ہو توو بھی اس کا خوفزدہ ہونا تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن جب کوئی اور وہاں موجود نہ ہو تو ڈر کی کیا بات ہوسکتی ہے ؟ لیکن ہم تنہائی میں خوف زدہ ہوجاتے ہیں- دراصل ہم خود اپنے آپ سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور جب ہم تنہا ہوں تو یہ خوف بڑھ جاتا ہے- دنیا میں کوئی ایسا نہیں جس سے ہم خود سے بڑھ کر خوفزدہ ہوں- ہم دوسروں کے درمیان رہ کر نسبتاَ کم خوفزدہ ہوتے ہیں اور جب تنہا رہ جاتے ہیں تو ہم پر خوف غلبہ حاصل کرلیتا ہے۔
وہ شخص تنہا تھا- وہ ڈر کی وجہ سے بھاگنے لگا- شام کا وقت تھا۔۔۔۔۔۔ ہر چیز ساکن اور خاموش تھی۔۔۔۔۔ دور دور تک اور کوئی موجود نہیں تھا- جب اس نے تیز دوڑنا شروع کیا تو اسے محسوس ہوا کہ کوئی اس کا پیچھا کررہا ہے۔۔۔۔۔ اس کا خوف مزید بڑھ گیا- خوف کے اس عالم میں اس نے کن انکھیوں سے پیچھے کی طرف جھانکا -اس نے ایک سایہ اپنی طرف بڑھتے دیکھا- وہ سایہ خود اس کا اپنا تھا- مگر یہ سوچ کر کہ ایک سایہ اس کے تعاقب میں ہے اس نے اپنی رفتار تیز کردی اس کے بعد وہ شخص کہیں رک نہ سکا- وہ اپنی رفتا جتنی تیز کرتا' اس کا سایہ اسی رفتار اس کے پیچھے آتا ہوا محسوس ہوتا یہاں تک کہ وہ پاگل ہوگیا مگر ایسے لوگ بھی ہیں جو پاگلوں کو احتراماً پوجتے ہیں-
جب گاؤں والوں نے اس کو اس طرح دوڑتے دیکھا تو باور کیا کہ وہ کسی سخت تپسیا میں مصروف ہے- حالانکہ کہ رات کی تاریکی میں اس کا سایہ غائب ہوجاتا مگر وہ رکتا نہیں' دن کا اجالا پھیلتے ہی پھر دوڑنا شروع کردیتا- اس کے حساب سے رات کے آرام کے دوران اس سائےنے وہ فاصلہ طے کرکے اس کو دوبارہ پکڑلیاہے؛ یہ خیال آنے کے بعد اس نے رات میں آرام کرنا بھی چھوڑدیا-

پھر وہ مکمل طور پر پاگل ہوگیاِ، کھانا پینا ترک کردیا- ہزاروںلوگ اس کو دیکھتے اور اس پر پھول نچھاور کرتے‘ کوئی اسے روٹی پیش کرتا کوئی پانی- لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے احترام اور عقیدت بڑھ گئی- وہ شخص دن بہ دن اپنی ذہنی اور جسمانی حالت میں خراب اور خستہ ہوتا گیا آخر کار ایک دن جان سے گزر گیا- جس جگہ وہ مرا تھا گاؤںکے لوگوں نے اسی جگہ ایک درخت کے سائے تلے اس کی قبر بنادی اور ایک درویش سے دریافت کیاکہ وہ اس کی قبر کے کتبے پرکیا لکھوائیں؟ اس درویش نے اس پر لکھنے کے لیے ایک جملہ تجویز کیا-
کسی جگہ ۔۔۔۔۔۔ کسی گاؤں میں وہ قبر اب بھی موجود ہے- ممکن ہے آپ کا گزر بھی اس پر سے ہوا ہو۔۔۔۔۔۔ اس کے کتبے کے لیے درویش کی تجویز کردہ تحریر آپ بھی پڑھیے:
" یہاں وہ شخص آرام کررہا ہے جو اپنے سائے سے جدا ہوگیا- اس نے اپنے تمام زندگی ایک سائے سے فرار حاصل کرنے میں صرف کردی- اس کو اتنا بھی علم نہیں تھا جتنا اس کے قبر کے پتھر کوہے- وہ چونکہ خود سائے میں ہے اور اس کا کوئی سایہ نہیں اس لیے وہ بھاگ بھی نہیں رہا"
 

الف عین

لائبریرین
بات شروع ہوئی تھی ناول سے، اب کہانی ہے، اور ایسی ہے کہ اپنی تخلیق کا خود ہی مطالعہ کرتے جا رہے ہیں شاہنواز۔
 
ناول بھی ہے ایک ایسی حساسیت بھرا ناول جس میں دو بچوں کا کردار بڑا اھم ہے کہ میاں بیوی میں طلاق ہوجاتی ہےیہ محبت بھرا رومانوی ناول نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرہ کا ایک جیتا جاگتا سلگتا ہوا مسئلہ ہےکہ طلاق کےبعد بچے اپنے جذبات کو کیسے کچل دیتے ہیں اور عمر سے پہلے کیسے بڑے ہوجاتے ہیں اس کا عنوان نہیں مل رہا ہے مہربانی رہنمائی فرمائے
 
Top