ناموسِ رسالت ؐ

آئیے سب سے پہلے اس امر کا صدقِ دل اعادہ کرتے ہیں اور زبان سے تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہيں اور محمد ؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہی ہیں جو دنیا میں جو کچھ ہے اور جو کچھ آخرت میں ہے اس کا بھی رب ہے۔ کروڑوں شکر زاتِ باری تعالیٰ کا کہ ہمیں خسارے سے بچایا ، ہمارے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا۔ ہمیں قرآن کی تعلیم دی۔ ہمیں ”امت وسط“بنایا۔ حضور اکرمؐ کا امتی بنایا۔
کروڑوں درود و سلام رحمتِ دوعالم ؐ پر جنھوں نے آدمی کو انسان بنایا۔ پتھر دلوں کو موم بنایا۔ ہم خوار تھے ہمیں صراطِ مستقیم کی پہچان دی۔ ہم بدو تھے علم سکھایا اور عمل کر کے دکھایا۔ ہم بکھرے ہوئے تھے اٌمہ بنایا۔ خود پتھر کھائے پھر بھی دعا دی۔ مہاجر ہوئے پھر بھی ثابت قدم رہے۔انصاف قائم کیا۔ علم عمل سے سکھایا۔
” یقیناًآپؐ کی زاتِ اقدس میں ان لوگوں کے لیے راہنمائی اور نمونہ ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں“(القرآن)
ناموس ِ رسالت ؐ پر پہرا دیناہماری ایمانِی غیرت کی وہ گہرائی ہے کہ ساری دنیا داٶ پہ لگتی ہے تو لگ جائے مگر ناموسِ رسالت پر آنچ نہ آئے۔ اللہ اکبر۔ محبت اور فکر تو دیکھیں خضور ؐ کی کہ وقتِ رخلت کے دوران بھی”امہ“ کا خیال۔ میں فخر کیوں نہ کروں اس امر پر کہ اس امت میں ، میں بھی شامل ہوں۔ ناموسِ محمدؐ پر ہم سب تو کیا پوری کائنات قربان جائے۔
ان گستاخوں پہ لعنت ہی لعنت برسے۔ وہ تو مکار ہیں، احسان فراموش ہیں جنھیں یہ یاد نہیں انصاف کی فیصلے ہمارے نبیؐ سے کرواتے تھے۔ بھکاری تھے، انصاف بھی ہمارے نبیؐ سے ، امانتیں بھی ہمارے نبیؐ کے پاس، ان کی زندگیاں طائف کے پہاڑوں میں کچلی جاتیں اگر محمدِ مصطفیٰ ؐ ایک بدعا دیتے۔

اس سے پہلے بھی جتنے گستاخ آئے دنیا میں ہی عذاب اور عبرتناک عذاب کے مستحق ہوئے ۔ کیونکہ اللہ شدید عذاب دینے والا ہے اور ارشادِ ربانی ہے۔

’’’ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ ۝
یقیناً تیرا دشمن ہی لا وارث اور بے نام و نشان ہے ۔
 
Top