مصطفیٰ زیدی ناشناس

فرخ منظور

لائبریرین
ناشناس
(۱)

کِتنے لہجوں کی کٹاریں مری گردن پہ چلیں
کِتنے الفاظ کا سِیسہ مِرے کانوں میں گُھلا

جس میں اِک سَمت دُھندلکا تھا اَور اِک سَمت غُبار
اُس ترازو پہ مِرے درد کا سامان تُلا

کم نِگاہی نے بصیرت پہ اُٹھائے نیزے
جُوئے تقلِید میں پیراہن ِ افکار دُھلا

قحط اَیسا تھا کہ برپا نہ ہوئی مجلس ِعِشق
حَبس ایسا تھا کہ تحقِیق کا پرچم نہ کُھلا

کون سے دیس میں رہتے ہیں وُہ مونِس جن کی
روز اِک بات سُناتے تھے سُنانے والے

ٹھوکروں میں ہے مَتاع ِ دل ِویراں کب سے
کیا ہُوئے غم کو سرآنکھوں پہ بِٹھانے والے

رات سُنسان ہے ، بےنُور سِتارے مدّھم
کیا ہُوئے راہ میں پلکوں کو بچھانے والے

اَب تو وُہ دن بھی نہیں ہیں کہ مرے نام کے ساتھ
آپ کا نام بھی لیتے تھے زمانے والے


مصطفیٰ زیدی​
 
Top