نئی سوچ

وقار..

محفلین
کتابوں میں رکھے ہوئے خواب
دیمک زدہ ہو گئے ہیں
زندگی کمپیوٹر کی چِپ میں کہیں کھو گئی ہے
اڑانوں کے نوچے ہوئے آسماں سے
چرائے ہوئے چاند تارے
مری خاک کی تجربہ گاہ میں
اب پڑے۔۔ ڈر رہے ہیں
زمیں اپنے جوتوں کی ایڑھی کے نیچے
انہیں نہ لگا دے کہیں
اجالوں کی رحمت بھری دھوپ چمگادڑوں کی
نظر میں ملا دی گئی ہے
عجائب گھروں میں پرانے زمانے کی مضبوط انگیا
اور ماضی سے وابستہ شہوت کی کھالیں
سجادی گئی ہیں
اک امرد پرستی کے بازار کے
بدنما پادری کے گلے کی صلیبیں
مسیحا کی چھاتی کی زینت بنا دی گئی ہیں
ازل سے گزرتے ہوئے وقت کے سنگ کی
ایک تحریر ۔۔ میرا بدن
میں صدیوں پرانا کوئی شخص ہوں
مجھے اپنی آنکھیں پرانی لحد میں چھپانی پڑی ہیں
مجھے اپنے کانوں میں سیسے کا سیال بھرنا پڑا ہے
مگر کچھ سوالوں بھری ۔۔زپ ہوئی ایک فائل۔۔آتے ہوئے وقت کے فولڈر میں
’’نئی سوچ ‘‘کے نام سے رکھ رہا ہوں ۔۔
اسے دیکھ لینا۔


-منصور آفاق
 
آخری تدوین:
Top