نئی تہذیب پرانے رویے

عندلیب

محفلین
ثنا مسلسل چیخ چیخ کر رو رہی تھی لیکن اس کی صدا پر ہمدردانہ ردعمل ظاہر کرنے والا کوئی نہ تھا۔ بچے بڑے سب خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے ، نہ تو ماں نے آگے بڑھ کر دلاسہ دیا اور نہ کسی بہن نے تسلی کے دو بول ادا کیے۔ وہ یونہی رو رو کر اپنی جان ہلکان کرتی رہی۔

واقعہ صرف اتنا تھا کہ آج ثنا خوشی و مسرت کے عالم میں فیس بک پر اپنی ان سہیلیوں کے ساتھ اپنی برتھ ڈے سیلبریٹ کر رہی تھی جن سے وداع ہو کر وہ اپنے وطن آئی تھی۔ سمندر پار ہونے کے باوجود اس آن لائن تقریب کے ذریعے وہ خود کو اپنی سہیلیوں کے بہت قریب محسوس کر رہی تھی۔ سوشل نیٹورکنگ سائٹ پر سب نے اسے تحائف پیش کیے تھے جنہیں وہ خوشی و فخر کے احساس کے ساتھ اپنی بڑی بہن کو بتا رہی تھی ۔۔۔۔

اچانک چھوٹے بھائی نے خبر دی کہ بھیا آ گئے ہیں۔ ثناء اپنی سہیلیوں سے گفتگو میں اس قدر محو تھی کہ اس نے چھوٹے بھائی کی بات پر دھیان نہیں دیا بڑی بہن نے اشارہ بھی کیا لیکن معصوم ثنا اپنی خوشیوں میں ہی مگن رہی۔
اسی لمحہ بھائی اندر داخل ہوا۔ جیسے ہی ثنا نے بھائی کو دیکھا، موبائل بند کر کے اسے چھپانے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے بھائی نے اسکے ہاتھ میں موبائل دیکھ لیا تھا اور دوسرے ہی لمحے اس نے ثنا کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا۔ ثنا کے احتجاج کے باجود اسے اپنا موبائل واپس نہیں ملا۔

پھر بھائی نے فون آن کر کے ثنا سے سوال کیا : موبائل کی پن کیا ہے؟
ثنا نے بھائی سے التجا کی کہ پہلے میرا موبائل واپس کر دیجیے پھر میں پن بتا دوں گی۔ لیکن بھائی نے اس کا سوال نظرانداز کر دیا۔ ثنا نے ضد میں آ کر جیسے ہی پن بتانے سے انکار کیا ، بھائی نے غصہ میں موبائل کا کور کھینچ کر ڈسٹ بن کی طرف پھینک دیا۔ ثنا کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لڑھک آئے۔ موبائل کا وہ کور تو اس کی سمندر پار سہیلیوں نے بڑے پیار سے اسے تحفتاً پیش کیا تھا۔ ثنا نے آواز کے ساتھ رونا شروع کر دیا۔
بھائی نے دوبارہ سوال کیا کہ موبائل کی پن کیا ہے؟
روتے ہوئے بھی ثنا نے نفی میں سر ہلا دیا۔ بھائی کا پارہ جو اچانک عروج پر پہنچا تو اس نے بےدردی سے موبائل کو پوری قوت سے دیوار پر دے مارا اور پھر اس کے اندر سے میموری کارڈ نکال کر اپنے قبضہ میں کیا۔ اس کے بعد طیش کے عالم میں ثنا کو گھورتے ہوئے وہ گھر سے باہر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے معاشرے کے روزمرہ کے بیشمار واقعات میں سے یہ بھی ایک واقعہ ہے۔
غیرت اور مشرقی روایات کے نام پر اپنی بہنوں کے ساتھ بھائیوں کا ایسا رویہ بہت عام ہے۔ صنف مخالف سے گفتگو پر شک کرنا اور پھر اسی شک کی بنیاد پر اپنی بہنوں پر تشدد روا رکھنا بھائی اپنا حق سمجھتے ہیں۔
معاشرے سے برائی کو ختم کرنے کا اگر واحد ذریعہ تشدد ہوتا تو شاید کوئی گھر زندہ سلامت نہ رہتا۔ بھائی بہن کے رشتے میں خونی تعلق کے ساتھ فطری محبت کا تقاضا ہے کہ محبت و انسیت کے ساتھ صحیح اور غلط راہ کو واضح کیا جائے ، فوائد و نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔
کیا معاشرے سے اس قسم کی جہالت اور مطلق العنانی کو ختم کرنے کا اس سے بہتر اور کوئی طریقہ ہمارے بزرگ بتا سکتے ہیں؟
 

x boy

محفلین
جزاک اللہ
اچھی بات ہے لیکن شک کیا جاسکتا ہے
آج کل زیادہ تر لڑکے یا لڑکیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طرف مائل ہیں
اسکول میں بھی اکثر فخش ماحول نظر آتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تو اور اس ایجوکیشن کو بھی عام کیا جارہا ہے
ابھی تھوڑے دن قبل ایک انگلش گانے پر نظر پڑگئی جسی میں تھا " لو ہیس نو جینڈر"
تعجب ہے نو جینڈر بھی کہہ رہے ہیں اور دکھا بھی آدمی آدمی کا غلط سین اور عورت عورت کا غلط سین۔
 

تجمل حسین

محفلین
تعجب ہے نو جینڈر بھی کہہ رہے ہیں اور دکھا بھی آدمی آدمی کا غلط سین اور عورت عورت کا غلط سین۔

بالکل ٹھیک کہا۔ خود دوسروں کی بہنوں کے ساتھ محبت کے چکر چلاتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں لیکن اگر کوئی کہہ دے کہ ویلنٹائن ڈے کے لیے جانے سے پہلے اپنی بہن کا پروگرام بھی سیٹ کردو تو گریبان پکڑنے بلکہ جان سے مارنے تک آجاتے ہیں۔
عجیب دوغلی سوچ ہے ان لوگوں کی؟
 
Top