کاشفی
محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
میں نے چاہا جو تمہیں، اس کا گناہ گار تو ہوں
مگر اتنا تو سمجھ لو کہ وفادار تو ہوں
عمر بھر آپ نے مجھ کو کبھی اچھا نہ کہا
خیر اچھا نہ سہی آپ کا بیمار تو ہوں
یا خدا پرسش ِ اعمال کا دیتا ہوں جواب
بات کا ہوش کسے ہے ابھی ہوشیار تو ہوں
مے و معشوق سے انکار نہیں اے زاہد
عاشق زار تو ہوں رندِ قدح خوار تو ہوں
گو مرے پاس نہیںغیر متاع کا سد
میں تماشائی اندازِ خریدار تو ہوں
داغ مرنے نہیں دیتا مجھے رشکِ اغیار
ورنہ مرجاؤں ابھی جان سے بیزار تو ہوں
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
میں نے چاہا جو تمہیں، اس کا گناہ گار تو ہوں
مگر اتنا تو سمجھ لو کہ وفادار تو ہوں
عمر بھر آپ نے مجھ کو کبھی اچھا نہ کہا
خیر اچھا نہ سہی آپ کا بیمار تو ہوں
یا خدا پرسش ِ اعمال کا دیتا ہوں جواب
بات کا ہوش کسے ہے ابھی ہوشیار تو ہوں
مے و معشوق سے انکار نہیں اے زاہد
عاشق زار تو ہوں رندِ قدح خوار تو ہوں
گو مرے پاس نہیںغیر متاع کا سد
میں تماشائی اندازِ خریدار تو ہوں
داغ مرنے نہیں دیتا مجھے رشکِ اغیار
ورنہ مرجاؤں ابھی جان سے بیزار تو ہوں