میں قرآن میں کہاں ہوں؟

کعنان

محفلین
میں قرآن میں کہاں ہوں؟
02/01/2017
shutterstock_236477035.jpg

ایک جلیل القدر تابعی اور عرب سردار احنف بن قیس ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے یہ آیت پڑھی.

لَقَدْ أنزَلْنَا إلَيْكُمْ كِتَابًا فِيہِ ذِكْرُكُمْ أفَلَا تَعْقِلُونَ
ہم نے تمھاری طرف ایسی کتاب نازل کی جس میں تمھارا تذکرہ ہے، کیا تم نہیں سمجھتے ہو“۔
(سورۃ انبياء 10)

وہ چونک پڑے اور کہا کہ ذرا قرآن مجید تو لاؤ۔ اس میں، میں اپنا تذکرہ تلاش کروں، اور دیکھوں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں، اور کن سے مجھے مشابہت ہے؟

انھوں نے قرآن مجید کھولا، کچھ لوگوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا، جن کی تعریف یہ کی گئی تھی،

كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَھجَعُونَ o وَبِالْاسْحَارِ ھُمْ يَسْتَغْفِرُونَ o وَفِي أمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ِ
رات کے تھوڑے حصے میں سوتے تھے، اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے، اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا“۔
(الذاريٰت-17،18،19)

کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا،

تَتَجَافَى جُنُوبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ يُنفِقُونَ
ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُمید سے پکارتے ہیں۔ اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں“۔
(السجدہ۔ 16)

کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا،

وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا
اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کر کے اور (عجز و ادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں“۔
(الفرقان 64)

اور کچھ لوگ نظر آئے جن کا تذکرہ اِن الفاظ میں ہے،

الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاء وَالضَّرَّاء وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کي راہ میں) خرچ کرتے ہیں، اور غصہ کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں، اور خدا نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے“۔
(اٰل عمران۔ 134)

اور کچھ لوگ ملے جن کی حالت یہ تھی،

وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أنفُسِھِمْ وَلَوْ كَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِہ فَاوْلَئِكَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ
”(اور) دوسروں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں، خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو، اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مُراد پانے والے ہوتے ہیں“۔
(الحشر۔ 9 )

اور کچھ لوگوں کی زیارت ہوئی جن کے اخلاق یہ تھے،

وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْاثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإذَا مَا غَضِبُوا ھُمْ يَغْفِرُونَ
اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں، اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر ديتے ہیں“۔
(الشوريٰ۔ 37 )

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّھِمْ وَأقَامُوا الصَّلَاۃ وَأمْرُھُمْ شُورَى بَيْنَھُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ يُنفِقُونَ
اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں، اور اپنے کام آپس کے مشورہ سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں“۔
(الشوريٰ۔ 38 )

وہ یہاں پہنچ کر ٹھٹک کر رہ گئے، اور کہا : اے اللہ میں اپنے حال سے واقف ہوں، میں تو ان لوگوں میں کہیں نظر نہیں آتا!

پھر انہوں نے ایک دوسرا راستہ لیا، اب ان کو کچھ لوگ نظر آئے، جن کا حال یہ تھا،

إنَّھُمْ كَانُوا إذَا قِيلَ لَھُمْ لَا إلَہ إلَّا اللہ يَسْتَكْبِرُونَ o وَيَقُولُونَ أئِنَّا لَتَارِكُوا آلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ
ان کا یہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئي معبود نہیں تو غرور کرتے تھے، اور کہتے تھے، کہ بھلا ہم ایک دیوانہ شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں؟“
(سورہ صافات۔ 35،36)

پھر اُن لوگوں کا سامنا ہوا جن کی حالت یہ تھی،

وَإذَا ذُكِرَ اللہُ وَحْدَہُ اشْمَازَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ وَإذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِہ إذَا ھُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کے دل منقبض ہو جاتے ہیں، اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُن کے چہرے کھل اُٹھتے ہيں“۔
(الزمر۔45)

کچھ اور لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جن سے جب پوچھا گیا،

مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ o قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ o وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ o وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ o وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ o حَتَّى أتَانَا الْيَقِينُ
کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم جھوٹ سچ باتیں بنانے والوں کے ساتھ باتیں بنایا کرتے اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں اس یقیني چیز سے سابقہ پیش آ گیا“۔
(المدثر۔ 47-42)

یہاں بھی پہنچ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے دم بخود کھڑے رہے۔ پھر کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا: اے اللہ! ان لوگوں سے تیری پناہ! میں ان لوگوں سے بری ہوں۔

اب وہ قرآن مجید کے اوراق کو ا لٹ رہے تھے، اور اپنا تذکرہ تلاش کر رہے تھے، یہاں تک کہ اس آیت پر جا کر ٹھہرے:

وَآخَرُونَ اعْتَرَفُواْ بِذُنُوبِھِمْ خَلَطُواْ عَمَلاً صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللہُ أَن يَتُوبَ عَلَيْھِمْ إِنَّ اللہ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور کچھ اور لوگ ہیں جن کو اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار ہے، انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا، قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے، بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے“۔
(التوبہ۔ 102)

اس موقع پر اُن کی زبان سے بےساختہ نکلا، ہاں ہاں! یہ بےشک میرا حال ہے۔

( محدث ابو عبداللہ محمد بن نصر مروزی بغدادی کی کتاب قیام اللیل سے ایک عبرت انگیز قصہ)

ح
 
آخری تدوین:
بہت زبردست تحریر ۔۔۔ اللہ کے رحیم اور غفار ہونے میں کسی کو شک نہیں ہے ۔۔ اور اس میں بھی کو ئی شک نہیں ہے کہ گناہوں کی سزا بھی ملے گی ۔۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے علماء کرام نے ہمیں اللہ کے جس تصور سے ڈرا کے رکھا ہوا ہے وہ قہار کا ہے ورنہ اللہ کا تصور بہت رحمان و رحیم اور اپنے محبوب کی امت کو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے ۔۔ وہ بخشنے پہ آئے تو زمین کے برابر گناہوں کو بھی ایک آنسو کے عوض معاف فرما دے ۔۔
میرے خیال میں مسئلہ تب ہوتا ہے جب ہم گناہ کرکے اسے گناہ نہیں سمجھتے ۔۔ ورنہ ایمان کا آخری درجہ بھی یہ ہے کہ اگر گناہ ہو جائے تو اُسے گناہ ہی سمجھا جائے اور اس پہ ندامت کی جائے پھر اللہ سے مُعافی مانگ لی جائے ۔۔ سچے دل سےتوبہ کر لی جائے ۔۔۔
 
Top