احمد ندیم قاسمی میں دوستوں سے تھکا، دشمنوں میں جا بیٹھا - احمد ندیم قاسمی

زینب

محفلین
میں دوستوں سے تھکا، دشمنوں میں جا بیٹھا
دُکھی تھے وہ بھی، سو میں اپنے دکھ بھلا بیٹھا

سنی جو شہرتِ آسودہ خاطری میری
وہ اپنے درد لئے، میرے دِل میں آبیٹھا

بس ایک بار غرورِ اَنا کو ٹھیس لگی
میں تیرے ہجر میں دستِ دُعا اٹھا بیٹھا

خُدا گواہ کہ لُٹ جاؤں گا، اگر میں کبھی
تجھے گنوا کے ترا درد بھی گنوا بیٹھا

ترا خیال جب آیا تو یوں ہوا محسوس
قفس سے اُڑ کے پرندہ شجر پہ جا بیٹھا

سزا ملی ہے مجھے گردِ راہ بننے کی
گناہ یہ ہے کہ میں کیوں راستہ دِکھا بیٹھا

کٹے گی کیسی اس انجامِ ناشناس کی رات
ہوا کے شوق میں جو شمع ہی بُجھا بیٹھا

مجھے خُدا کی خُدائی میں یہ ہوا محسوس
کہ جیسے عرش پہ ہو کوئی دوسرا بیٹھا
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بس ایک بار غرورِ اَنا کو ٹھیس لگی
میں تیرے ہجر میں دستِ دُعا اٹھا بیٹھا

سزا ملی ہے مجھے گردِ راہ بننے کی
گناہ یہ ہے کہ میں کیوں راستہ دِکھا بیٹھا

کٹے گی کیسی اس انجامِ ناشناس کی رات
ہوا کے شوق میں جو شمع ہی بُجھا بیٹھا


واہ۔ بہترین انتخاب!
بہت شکریہ زینب :)
 
Top