رئیس امروہوی میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا (رئیس امروہوی)

زبیر مرزا

محفلین
میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا
میرا سایہ مرے عقب میں چلا
صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی
میں اکیلا سوادِ شب میں چلا
جب گھنے جنگلوں کی صف آئی
ایک تارامرے عقب میں چلا
آگے آگے کوئی بگولا سا
عالمِ مستی وطرب میں چلا
میں کبھی عالم سکوں میں رُکا
اورکبھی شدتِ غضب میں چلا
نہیں کُھلتا کہ کون شخص ہوں میں
اور کس شخص کی طلب میں چلا
ایک انجان ذات کی جانب
الغرض میں بڑے تَعَب میں چلا
 
آخری تدوین:
Top