میں اب پی ٹی آئی کا دفاع کیوں نہیں کرتا؟ عثمان ملک

جنید اختر

محفلین
میں اب پی ٹی آئی کا دفاع کیوں نہیں کرتا
عثمان ملک

1997 میں جب میرے انکل نے میری شرٹ پر 'دیا' چپکایا تھا، تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ ان دنوں دیا عمران خان کی سیاسی جماعت کا انتخابی نشان تھا۔ مسلم لیگ ن سے ہمدردی رکھنے والے علاقے میں رہنے کے باوجود میں پورا دن فخریہ طور پر یہ پہن کر گھوما کرتا۔

جب ایک دکاندار مجھے کہتے کہ شیر جلد ہی دیے کو بجھا دے گا، تو بھی مجھ پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ میں چاہتا تھا کہ عمران خان ملک کی قیادت کریں، کیونکہ وہ ہیرو تھے، اور ایک نئے چیلنجر۔

میں اس وقت 8 سال کا تھا اور ظاہر ہے کہ مجھے سیاست کی سمجھ نہیں تھی۔ لیکن ہر اس شخص کی طرح جو کرکٹ کھیلتے ہوئے اور 1992 کے ورلڈ کپ کی کہانیاں سنتے ہوئے بڑا ہوا ہے، میں بھی عمران خان بننا چاہتا تھا۔

2011 میں پی ٹی آئی کے تاریخی جلسے نے ایک بار پھر عمران خان کو مرکزی محاذ پر دیکھنے کی میری خواہش کو زندہ کر دیا۔ ہر کسی نے دیکھا کہ وہ اس وقت کتنے پرجوش تھے، عوام کی جانب سے کتنی بھرپور پذیرائی ملی، اور کس طرح ایک نئے مستقبل کے وعدے کیے گئے۔

اور اس دن کے بعد سے ایک نئی اور منظم پاکستان تحریکِ انصاف نے جنم لیا، یہاں تک کہ جاوید ہاشمی جیسی قد آور شخصیت بھی اس نئی تحریک میں شمولیت اختیار کیے بغیر نہ رہ سکی۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک نیا باب شروع ہوچکا تھا، پریشان حال لوگوں کے لیے بہتری کی یقین دہانیوں کا باب، اور ملکی مستقبل سدھارنے میں تعلیم یافتہ، باخبر، اور سچے لوگوں کے کردار کا باب۔


ہاں ہم میں سے زیادہ تر لوگ جانتے تھے کہ پی ٹی آئی فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کرے گی، لیکن پھر بھی ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ ہمیں آخر کار آواز مل گئی ہے۔ پی ٹی آئی نے قومی محاذ پر شکست کھائی، لیکن خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
ٹوٹ چکے وعدے

ہمیں پہلے ہی معلوم تھا کہ پارٹی میں کافی خامیاں موجود ہیں۔ ہم خود کو تسلی دیتے تھے کہ پی ٹی آئی ایک کم عمر جماعت ہے۔ لیکن ہم لوگ پھر بھی پارٹی کی خامیوں کو نظر انداز کر کے اس کی اچھائیاں ڈھونڈتے رہتے تھے۔

لیکن جب پارٹی کی جانب سے ایک نئی، ترقی پسند، اور انصاف پر مبنی گورننس کا ماڈل لانے کا منصوبہ تباہ ہوتا ہوا دیکھا، تو ہم میں سے پی ٹی آئی کے وفادار ترین حامی بھی اب کوئی بہانہ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔

غلطیاں کہاں پر ہوئیں؟ یہ جاننے کا سب سے بہترین طریقہ گذشتہ دو سالوں میں پی ٹی آئی کی کارکردگی کا ثبوت دیکھنا ہے۔

پولیس اصلاحات اور تعلیمی اصلاحات وہ دو پراجیکٹس تھے جو پی ٹی آئی نے خیبر پختونخواہ میں شروع کیے۔

اول الذکر کو انقلابی اور اپنے آپ میں اکلوتی قسم کی اصلاحات قرار دیا گیا۔ بار بار یہ دعویٰ کیا گیا کہ خیبر پختونخواہ پولیس مکمل طور پر غیر سیاسی کردی گئی ہے، جبکہ یہ محکمہ پاکستان کے تمام محکموں میں سب سے زیادہ پروفیشنل کر دیا گیا ہے۔

لیکن جب وقت آیا، تو سارے دعوؤں کی قلعی کھل گئی۔

آنسو گیس، لاٹھی چارج، گرفتاریاں، ربر کی گولیاں، آپ نام لیں اور خیبر پختونخواہ پولیس وہ کر چکی ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات نے اچھی طرح واضح کر دیا ہے کہ پولیس کس قدر غیر سیاسی ہے، اور یہ واضح ہے کہ خیبرپختونخواہ پولیس نے جو بھی غلط کیا، وہ کس کی ایماء پر کیا۔


تعلیمی اصلاحات کے نام پر خیبر پختونخواہ آگے جانے کے بجائے پیچھے جا رہا ہے۔ تعلیم کا قلمدان پی ٹی آئی کے پاس ہے، لیکن پھر بھی مکمل طور پر پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتِ اسلامی کے زیرِ اثر ہے۔ کیا نظام تعلیم میں تبدیلی سے مراد یہی تبدیلی تھی؟

ایک اور امید افزاء تعلیمی پراجیکٹ 'تعلیم کا انصاف' تھا۔ لیکن صوبائی حکومت نے اسے اتنی بری طرح ہینڈل کیا کہ جلد ہی اس کے فنڈز مکمل طور پر ختم ہوگئے، اور پراجیکٹ روکنا پڑا۔

پی ٹی آئی اپنے راستے سے کس قدر ہٹ چکی ہے، اس کی زبردست مثال دھرنے کے دوران دیکھنے میں آئی جب ہمارے پرعزم رہنماؤں نے اپنی صوبائی ذمہ داریاں مکمل طور پر چھوڑ کر ساری توجہ اسلام آباد پر مرکوز کردی ۔ ہم نے انہیں انہی خود غرض سیاستدانوں میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا جنہیں تبدیل کرنے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔

دھرنے کے دوران انہوں نے سڑکوں کی سیاست کا ہر حربہ اس حد تک استعمال کیا کہ نہ صرف مقامی بلکہ عالمی میڈیا نے بھی پارٹی کی جانب سے پھیلائے گئے عدم استحکام کی کہانیاں شائع کیں۔ فنانشل ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے تو جمہوریت کو لاحق خطرے اور مارشل لاء کا امکان بھی ظاہر کریا۔

قانون کی خلاف ورزی سے لے کر توڑ پھوڑ تک، اور نفرت انگیز تقاریر سے لے کر صحافیوں کو ہراساں کرنے تک، تشدد پر اکسانے سے لے کر تباہی تک پی ٹی آئی تقریباً سب ہی کچھ کر چکی ہے۔

پی ٹی آئی کی ان تمام حرکات نے مجھے اور مجھ جیسے کئی لوگوں کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ ان تمام حرکات کی کیا توجیہ پیش کی جا سکتی ہے؟

آج کی پی ٹی آئی ایسی جماعت ہے، جسے میں اور مجھ جیسے کئی لوگ نہیں پہچان سکتے۔ پرانی پی ٹی آئی کی ایک بدصورت موجودہ شکل یہ جماعت اب مکمل طور پر پرانی اور ترقی سے خائف سیاست میں ڈھل چکی ہے۔
حقیقت تسلیم کریں

ایک سچی بات جو بار بار کہی جاتی ہے، وہ یہ کہ تحریک سیاستدان یا جماعت پر منحصر نہیں ہوتی، بلکہ لوگ تحریک کے حقیقی روحِ رواں ہوتے ہیں


مزید بہتری کے لیے لوگوں کی خواہش ہی تحریک کو قائم و دائم رکھتی ہے اور سیاستدان کو بھی۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ عوام اپنا اندھا اعتماد اور اپنی تمام امیدیں غیر مشروط طور پر سیاستدان سے وابستہ کر دیتے ہیں جس سے حقیقی مقصد پیچھے رہ جاتا ہے۔

تبدیلی کے لیے اس طرح کی کوشش پھر صرف ایک خودغرض ایجنڈا بن جاتا ہے، اور تحریک بہتری کی طرف جانے کے بجائے بدتر کی طرف جاتی ہے۔

اور پی ٹی آئی کے ساتھ یہی ہوا ہے۔

سادہ الفاظ میں کہیں تو اس مایوسی کا مکمل الزام عمران خان یا ان کی جماعت پر ڈالنا درست نہیں ہے، بلکہ ان پر ہمارے اندھے اعتماد، حقائق کو نظر انداز کرنے (اور ان لوگوں کی جانب انگلیاں اٹھانا جو حقائق کی جانب ہماری توجہ دلاتے ہیں) اور پی ٹی آئی کی اتنی حمایت کرنا کہ یہ خود کو غلطیوں سے پاک ایسی جماعت سمجھ لے جو کبھی ذاتی مفادات کی بھینٹ نہیں چڑھ سکتی، کو بھی موردِ الزام ٹھہرانا چاہیے۔

ہمیں خود سے سچ بولنا چاہیے، کہ حکمران طبقوں کے دوران جاری بارگیننگ میں ہم عوام نقصان میں رہے ہیں۔ ہاں ہم پریشان ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اب تبدیلی کے نام پر کسی بھی انقلابی کا بیچا گیا چورن خرید لیں۔
آگے بڑھیں

زیادہ تر دنیاوی معلومات میں واضح سیاہ و سفید نہیں ہوتا، اور خاص طور پر سیاست میں تو بالکل بھی نہیں۔ ہمیں اس سوچ سے باہر نکلنا ہوگا جس میں صرف ایک پارٹی، ایک شخص، اور ایک مسیحا ہی اچھا کر سکتا ہے، اور غلطیوں سے پاک ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی سے انتہائی جذباتی تعلق کو عملیت پسندی اور حقیقت پسندی میں ڈھالنا ہوگا، اور اس کے حامیوں کو پی ٹی آئی کی غلطیوں پر حجتیں پیش کرتے رہنا چھوڑنا ہوگا۔


میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمیں تبدیلی کی تمام امیدیں چھوڑ دینی چاہیئں، یا پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ دینا چاہیے۔ بلکہ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی کے حامیوں نے اسے جتنا مقدس بنا دیا ہے، اور اس پر جتنا اندھا اعتماد قائم کر لیا ہے، اس پر دوبارہ غور کیا جائے، پارٹی پالیسیوں کی اچھی اور بری باتوں پر توجہ دی جائے، اور اچھے اور برے لوگوں کے ایجنڈوں کو بھی سمجھا جائے۔

ہمیں اب انقلاب اور تبدیلی کے کوئی جادوئی جذباتی نعرے نہیں چاہیئں، کیونکہ اس وقت ہماری ضرورت اصلاحات کی ہے، پھر چاہیے وہ کوئی بھی جماعت لے آئے۔

اگلی دفعہ ووٹ ڈالتے وقت اس پارٹی کو ووٹ دیں، جس نے دوسری جماعتوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو، پھر چاہے تھوڑی بہتر ہی کیوں نہ سہی۔

ماخذ
http://www.dawnnews.tv/news/1023210...ped-being-an-apologist-for-pti-usman-malik-bm
 
میں عثمان ملک کی زیادہ تر باتوں سے متفق ہوں۔ ایک بات ہمیں زہن میں رکھنی چاہئے کہ ہمارا معاشرہ ایک شخصیت پرست معاشرہ ہے ۔ نعرے چاہے لوگ نظریے کے لگاتے ہوں مگر عملی صورتحال شخصیت پرستی ہی کی ہے اور موروثی سیاست کی وجہ بھی یہی ہے۔
تحریک انصاف اور دوسری سیاسی جماعتوں میں بنیادی فرق بھی شخصیت کا ہی ہے۔ عمران کی بالکل جدا شخصیت کی وجہ سے لوگوں نے عمران سے توقعات تو وابستہ کی تھیں لیکن عمران نے آہستہ آہستہ اپنے آپ کو ایک روائتی سیاستدان ثابت کر دیا یا یوں کہیے کہ عمران کے چہرے سے ایک الگ سیاستدان کا خول اترتا گیا۔
جب 2011 میں عمران نے لاہور میں تقریباً دو لاکھ افراد کا تاریخی جلسہ کیا تو وہ وقت عمران کی مقبولیت کا عروج تھا۔ اگر اس وقت عمران روائتی موقع پرست سیاستدانوں کو دھڑا دھڑ ساتھ ملا کر بڑے عہدے دینے کی بجائے اپنے ساتھ چلنے والے پرانے مخلص کارکنوں کو ہی آگے رکھتا تو اپنے آپ کو واقعی ایک الگ لیڈر ثابت کرتا اور آج شاید ملک کا وزیر اعظم ہوتا!!
مگر الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملانے کے لالچ نے عمران کو آج بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔
 
Top