میڈیا کا آئی ٹیسٹ

548af58224d56.png

— فوٹو business2community.com
میڈیا کا آئی ٹیسٹ
پرانے زمانے میں لوگ حکایتیں بیان کرتے تھے جسے لوگوں کی بھلائی کے لیے آگے بڑھانے کی اجازت تھی۔ ایسی ہی آج کی ایک حکایت ہم بھی بیان کرتے ہیں جو ایک حد تک حقیقت کے قریب ہے۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ پاکستانی میڈیا کی آنکھیں ٹیسٹ کرنے کے لیے اسے ماہرین کے ایک پینل کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہاں ڈاکٹروں کے علاوہ عام افراد بھی تھے جو چاہتے تھے کہ میڈیا دیگر اہم مسائل کو بھی کوریج دے۔
سب سے پہلے نظر ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک بورڈ دکھایا گیا۔ آئی ٹیسٹ کے روایتی بورڈز میں انگریزی یا اردو کے حروف یا نمبر ہوتے ہیں جو بڑے، پھر چھوٹے اور پھر اس سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس بورڈ پر بھی انگریزی اور اردو میں چند اہم نام لکھے تھے لیکن وہ سارے نام ایک ہی سائز اور انداز میں لکھے تھے یعنی کوئی لفظ چھوٹا بڑا نہ تھا اورسب برابر تھے۔ میڈیا نے پہلی لائن کے تین حروف فوراً پڑھ لیے اور تیز آواز میں کہا، سیاست ، سیاست اور سیاست۔ حالانکہ بورڈ پر لکھا تھا سیاست، معیشت اورتعلیم۔
میڈیا کو یہ پڑھتا دیکھ کر ڈاکٹر اوردیگر لوگ حیران رہ گئے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ آخر یہ اہم الفاظ میڈیا کو کیوں نظر نہیں آرہے۔ ایک عام آدمی نے کہا کہ تم معیشت کیوں نہیں پڑھ پارہے؟
ایک ڈاکٹر نے بیزاری سے کہا ’تعلیم کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے اور وہ آپ کو نظر ہی نہیں آتی۔'
میڈیا پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اپنے ہاتھ میں مائک لہرارہا تھا۔
آخر کار ڈاکٹر نے اس کی آنکھوں کے سامنے حب الوطنی کا لینس لگایا اور کہا کہ اب پڑھیے۔ میڈیا نے پھر پکارا ’سیاست، سیاست اور سیاست۔' اب ڈاکٹروں نے مایوس ہوکر دوسری لائن پڑھنے کو کہا۔
دوسری لائن میں چار الفاظ تھے، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آئی ڈی پیز۔ اس بار میڈیا نے کہا کہ وہ چاروں الفاظ نہیں پڑھ سکتا۔ لیکن ڈاکٹروں کے اصرار پر اس نے کہا کہ شاید بورڈ پر اسلام آباد اور پی ٹی آئی لکھا ہے۔
ایک آدمی کھڑا ہوگیا اور غصے سے کہنے لگا، ’ تمہیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان اور اس کے مظلوم عوام کی کوئی خبر ہے؟‘ اس پر میڈیا خاموش رہا۔
اتنے میں ایک ڈاکٹر نے فوراً لالچ کے دو دو ڈراپس میڈیا کی دونوں آنکھوں میں ٹپکائے تو اسے کچھ یاد آیا اور اس نے کہا کہ ہاں بلوچستان میں سونا، چاندی اور تانبا ہے!
سول سوسائٹی کے عام فرد نے میز پر مکا مار کر کہا، ’لیکن تمہیں بلوچستان کے عام آدمی کا کوئی خیال کیوں نہیں ہے؟۔'
میڈیا کے چہرے پر ذرا سی بھی پشیمانی نہ تھی اور اس نے عام فرد سے کہا کہ وہ اپنا کام کرے ورنہ وہ اس کے کارخانے پر چھاپہ مار کر کوئی بریکنگ اسٹوری بنادے گا۔
تیسری لائن میں بچے، صحت، دیہی عوام، اقلیتیں، سائنس وٹیکنالوجی، ادب اور زراعت وغیرہ جیسے الفاظ تحریر تھے۔
میڈیا نے کہا، ’ناں! میں کچھ بھی نہیں پڑھ سکتا! شاید عورت اور انٹرٹینمنٹ لکھا ہے، یا شاید بولی وڈ کا کوئی گانا۔'
سارے ڈاکٹر مایوس ہوچکے تھے۔ ایک نے کہا کہ اس ملک میں کروڑوں بچے ہیں، کیا میڈیا کے پاس ان معصوم بچوں کے لیے کوئی پروگرام ہے؟ یا پھر صحت کے گھمبیر مسائل کا کوئی حل ہے؟
میڈیا نے معصومیت سے کہا، ’ایک بچہ گٹر میں گر گیا تھا اور ہم نے اس کی بریکنگ نیوز کا لال ڈبا 200 مرتبہ چلایا تھا، آخر اور آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟‘
ضمیر کلینک میں میڈیا کے علاوہ تمام افراد سر پکڑ کر بیٹھے تھے۔ آپس میں مشورے ہورہے تھے کہ آخر یہ کون سی بیماری ہے جس کی تشخیص نہیں ہورہی۔
ڈاکٹروں نے اس کے لیے حکیم ’اخلاقیات‘ اور بیگم ’ذمے داری‘ سے بھی رابطہ کیا۔ اخباروں میں نظریاتی صحافت کی تعریف بار بار پڑھی لیکن مرض کی تشخیص نہیں ہورہی تھی۔
میڈیا نے مصروفیت کا کہہ کر رخصت چاہی اور تیز قدموں سے کلینک سے باہر نکل گیا۔
معاشرے کے ایک معالج نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا، ’آخر میڈیا کی اس نابینائی کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟'
کئی گھنٹوں کی بحث اور غور کے بعد سب نے اپنے اپنے خیالات ایک کاغذ پر لکھے اور اس خوفناک بیماری کی وجہ لکھی۔
ایک ڈاکٹر نے لکھا، ’میڈیا کو سنسنی کا دورہ پڑا تھا جس کا اثر آنکھوں پر ہوا تھا۔‘
دوسرے نے کہا کہ شاید اس کی وجہ ریٹنگ کا سانپ ہے جس نے میڈیا کو ڈس لیا ہے، اس کے نیوروٹاکسن بہت خوفناک ہوتے ہیں۔
لیکن دو افراد نے بہت ہی اچھی تشخیص کی اورانہوں نے ایک کاغذ پر بڑے بڑے حرفوں میں لکھا:
’میڈیا کی دونوں آنکھوں کی ایک ایک رگ خراب ہے، دائیں آنکھ کی رگ میڈیا سیٹھوں کے پاؤں تلے دبی ہوئی ہے اور دوسری رگ کو ’بے حسی‘ کا عارضہ ہے۔ اور اس کا علاج کسی کے پاس نہیں ۔۔۔۔ میڈیا اپنی دوا خود ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب !

اچھی تحریر اور اچھا تجزیہ۔۔۔!

میڈیا کا سب سے بڑا مسئلہ کمرشلائزیشن ہے۔ سیاست دانوں کی طرح یہ بھی جائز اور ناجائز طریقوں سے پیسہ بنانا چاہتے ہیں۔

بکاؤ مال ہے جو خرید لے اُسی کے گُن گاتے ہیں۔
 
یہ حب الوطنی، ذمہ داری، معیشت، بلوچستان، بچے، ادب، تعلیم، دہشت گردی وغیرہ وغیرہ جیسے موضوعات صرف جذباتی قسم کی تقریروں میں شامل کرنےکے لیے ہوتے ہیں۔ میڈیا ایک کاروبار ہے، اور جس طرح جائز ناجائز کی پرواہ کیے بغیر باقی کاروباری طبقے کی اکثریت دھن جوڑنے میں لگی ہے، ان کو بھی حق ہے۔
 
یہ حب الوطنی، ذمہ داری، معیشت، بلوچستان، بچے، ادب، تعلیم، دہشت گردی وغیرہ وغیرہ جیسے موضوعات صرف جذباتی قسم کی تقریروں میں شامل کرنےکے لیے ہوتے ہیں۔ میڈیا ایک کاروبار ہے، اور جس طرح جائز ناجائز کی پرواہ کیے بغیر باقی کاروباری طبقے کی اکثریت دھن جوڑنے میں لگی ہے، ان کو بھی حق ہے۔
ہر چیز ایک کاروبار ہے ۔ جھوٹ ا ور شعبدے بازیاں ۔ بس !
 
یہ حب الوطنی، ذمہ داری، معیشت، بلوچستان، بچے، ادب، تعلیم، دہشت گردی وغیرہ وغیرہ جیسے موضوعات صرف جذباتی قسم کی تقریروں میں شامل کرنےکے لیے ہوتے ہیں۔ میڈیا ایک کاروبار ہے، اور جس طرح جائز ناجائز کی پرواہ کیے بغیر باقی کاروباری طبقے کی اکثریت دھن جوڑنے میں لگی ہے، ان کو بھی حق ہے۔
یہ وہی حق ہے جسے کے بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اورگزشتہ حکومت کے وزیر مملکت سردار عبدالقیوم جتوئی نے ملک کے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے اپنا سینہ ٹھونک کر اور ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہا تھا کہ " کرپشن ملک کا کلچر بن گیا ہے اور ہمیں بھی کرپشن کا حق ہے "
 
میڈیا ایک کاروبار تو ہے لیکن اس کاروبار کو حرام طریقے سے چلانا کسی کا حق نہیں۔ کیا آپ ایک تاجر کو عوام کو تباہ کرنے کے لئے ہیرؤین اور دیگر نشہ آور اشیاء کا کاروبار کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟ کیا کاروبار کرنے کے نام پر اس چیز کا حق تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔
ایسے ہی میڈیا کو وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹڑانک میڈیا کسی کی عزت اچھالنے، افواہیں پھیلانے، جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے، خبروں کے نام پر بے حیائی پھیلانے اور ایسے ہی دوسرے غلط کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نا ہی یہ میڈیا کا حق ہے۔ اور اس بات کی فیصلہ میڈیا پر نہیں چھوڑا جاسکتا کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا! کاروباری گروپ تو اپنے حق میں ہی فیصلہ کرے گا۔
اچھائی اور برائی کا فیصلہ پارلیمنٹ کا کام ہے اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کو نافذ کرنا حکومت کا فرض۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
میڈیا ایک کاروبار تو ہے لیکن اس کاروبار کو حرام طریقے سے چلانا کسی کا حق نہیں۔ کیا آپ ایک تاجر کو عوام کو تباہ کرنے کے لئے ہیرؤین اور دیگر نشہ آور اشیاء کا کاروبار کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟ کیا کاروبار کرنے کے نام پر اس چیز کا حق تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔

جس طرح باقی غلط (حرام) کام ہو رہے ہیں میڈیا کی گاڑی بھی چل رہی ہے۔ اگر ادارے ٹھیک ہوں اور غیر جانبدار ہوں تو میڈیا کو بھی پابند کیا جا سکتا ہے۔

ایسے ہی میڈیا کو چاہیے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹڑانک میڈیا کسی کی عزت اچھالنے، افواہیں پھیلانے، جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے، خبروں کے نام پر بے حیائی پھیلانے اور ایسے ہی دوسرے غلط کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نا ہی یہ میڈیا کا حق ہے۔

میڈیا کو چاہیے کہ ۔۔۔۔

لیکن میڈیا میں حاجی ثناءاللہ تو کوئی نہیں جو خود ہی اپنے اوپر اخلاقیات کی قدغن لگا لیں۔ ان کی بھی حکومت کی جانب سے بازپُرس ضروری ہے۔

اچھائی اور برائی کا فیصلہ پارلیمنٹ کا کام ہے اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کو نافذ کرنا حکومت کا فرض۔

اور آج تک پارلیمینٹ یہ فیصلہ نہیں کر سکی۔ :)

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حکومت بھی اپنے حصے کا کام نہیں کرسکی۔
 
حکومتیں بیچاری میڈیا کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہیں۔ کچھ سخت کر دیں تو پورے کا پورا میڈیا پیچھے پڑ جائےگا۔ نہایت بہترین مثال لال مسجد ہے۔ وہی اینکرز اور میڈیا گروپ جو لال مسجد کے پے درپے ہوتے واقعات پر بار بار 'کہاں ہے حکومتی رٹ' کا راگ لگاتار الاپتے تھے، وہی ایکشن لیے جانے کے بعد حکومت کے پیچھے پڑ گئے اور ریاست و حکومت بیک فٹ پر چلی گئی، اور اس وقت کے حکمران آج تک صفائیاں دیتے پھر رہے ہیں۔
 
جس طرح باقی غلط (حرام) کام ہو رہے ہیں میڈیا کی گاڑی بھی چل رہی ہے۔ اگر ادارے ٹھیک ہوں اور غیر جانبدار ہوں تو میڈیا کو بھی پابند کیا جا سکتا ہے۔
جب تک دوسرے ادارے ٹھیک نا ہوجائیں کیا تب تک میڈیا کی باز پرس نا کی جائے؟
ایک برائی دوسری برائی کا سبب تو بن سکتی ہے لیکن جواز نہیں۔ باقی اداروں کی بھی ٹھیک کیا جائے اور میڈیا کو بھی لگامیں ڈالنے کی ضرورت ہے۔ :)
لیکن میڈیا میں حاجی ثناءاللہ تو کوئی نہیں جو خود ہی اپنے اوپر اخلاقیات کی قدغن لگا لیں۔ ان کی بھی حکومت کی جانب سے بازپُرس ضروری ہے۔
اور آج تک پارلیمینٹ یہ فیصلہ نہیں کر سکی۔ :)

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حکومت بھی اپنے حصے کا کام نہیں کرسکی۔
یہاں آپ سے متفق :)
 
Top