محمداحمد

لائبریرین
آج کی صبح بڑی خوشگوار تھی، مطلع ابر آلود تھا اور ہلکی ہلکی پھوار دھرتی کے دکھتے سینے پر پھائے رکھ رہی تھی۔ جب میں دفتر جانے کے لئے نکلا تو ایک بہت خوبصورت گیت لبوں پر تھا۔ ہوا میں رقص کرتی بارش کی چھوٹی چھوٹی سی بوندوں میں بلا کا ترنم تھا بالکل ایسے ہی جیسے گیتوں میں نغمگی ہوتی ہے۔ الفاظ اور احساسات جس قدر ہم آہنگ ہو جائیں گیتوں کی چاشنی اُتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی شرارتی بوندیں ہوا میں اور گیت کے مسکراتے مصرعے میرے ہونٹوں پر رقصاں تھے (جنہیں صرف میں ہی سُن سکتا تھا)۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ خوشی ایک احساس کا نام ہے چاہو تو اُسے محسوس کرو اور چاہو تو اس احساس سے اجنبی ہو جاؤ۔

بارش بڑی عجیب شے ہوتی ہے یہ ہر نشّے کو فزوں تر کر دیتی ہے۔ آپ خوش ہوں تو بارش آپ کی خوشی کو سرخوشی میں بدل سکتی ہے اور آپ غمگین ہوں تو یہی بارش کے قطرے آپ کے آنسو بن کر ساری دنیا بھگونے پر تُل جاتے ہیں۔ غمگساری کی اس سے بڑی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔ تاہم ایسے ہمدم اور ایسے غمگسار صرف احساس رکھنے والوں کے ہی نصیب میں آتے ہیں۔ یوں تو سبھی لوگ کسی نہ کسی حد تک حساس ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنی خوشیوں اور غم کو سیلیبریٹ کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ اگر آپ زندگی میں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے تو بھی کوئی بات نہیں۔ زندگی دو جمع دو چار کرکے بھی گزاری جا سکتی ہے۔

بہرکیف ، آج اس اچھے موسم کے طفیل خیال آیا کہ شعر و نغمہ سے ہماری وابستگی کی بابت کچھ باتیں ہی ہو جائیں۔ اسے اتفاق ہی کہیے کہ اوائل عمری میں ہی کافی گیت اور نغمے سُنے ۔ یہ نغمے زیادہ تر اِدھر اُدھر سنے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مونگ پھلی والا بھی ٹیپ ریکارڈ چلائے بغیر آگے نہیں بڑھتا تھا۔ پھر شوق ہو چلا تو خود سے بھی ریکارڈڈ گیت سننے کا اہتمام کیا۔ ہندوستانی (اردو یا ہندی جو بھی آپ کہنا پسند کریں) اور پاکستانی گیت سنے۔ فلمی اور غیر فلمی ہر طرح کے۔ غزلیات بھی بہت سنیں، انوپ جلوٹا سے جگجیت سنگھ تک، مہدی حسن سے غلام علی تک، اقبال بانو سے گلبہار بانو تک ، نیرہ نور سے ٹینا ثانی تک، یہاں تک کہ سلمان علوی اور سجاد علی کی غزلیات بھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احساس ہو ا کہ ہمیں موسیقی سے زیادہ شاعری سے اُنسیت ہے ۔ اکثر پورے پورے نغمے یاد ہو گئے، کئی کئی غزلیں ازبر ہو گئیں۔ جب کبھی ساز و آواز کا سامان ناپید ہوتا تب بھی ذہن میں موجود ریکارڈ سے محظوظ ہونے کا موقع ہمہ وقت موجود رہتا۔ پھر شاعری پڑھنے کا شوق بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اس قدر شاعری سننے اور پڑھنے سے ذہن کی غنائیت اورنغمگی سے شناسائی سی ہو گئی اور شاعری کے لئے درکار "میٹر" ذہن میں استوار ہو گیا۔ سو جب کبھی کسی نغمے کا آہنگ متاثر ہوتا نظر آتا تو اندازہ ہو جاتا۔ شاید یہی وجہ رہی کہ جب ہم نے شاعری کی کوشش کی تو بہت زیادہ دشواری پیش نہیں آئی اور آہنگ سے متعلق معاملات باآسانی نمٹ گئے ۔ اگر غلطیاں ہوئی بھی تو تکنیکی لاعلمی یا تلفظ کی غلطیوں کے باعث۔ اور ان دو چیزوں کا سیکھنا تو عمر بھر چلتا ہی رہتا ہے۔

اس سلسلے میں ہم اس لئے بھی خوش نصیب رہے کہ جب ہم نے گیت سماعت کرنے شروع کیے توعہدِ حاضر سے زیادہ عہدِ قدیم میں دلچسپی لی سو بہت اعلیٰ پائے کے شعراء کو اس میدان میں مصروفِ عمل پایا۔ ان گیت نگاروں کے گیت عمومی شاعری کے معیار کے نہیں تو اُن سے کم تر بھی نہیں تھے۔ ان اعلیٰ گیت نگاروں میں مجروح سلطان پوری، مجاز، ساحر لدھیانوی، اندیور، حسرت جے پوری، شکیل بدایونی، کیفی اعظمی، آنند بخشی، انجان، جاں نثار اختر، ندا فاضلی اور آگے چل کر گلزار اور جاوید اختر جیسے قادر الکلام لوگ شامل رہے۔ پاکستانی گیت کم اورغزلیں زیادہ سُنی جو زیادہ تر معروف شعراء کے کلام سے انتخاب کی گئیں تھیں۔ پاکستانی پرانے گیت بھی سنے جو اپنی مثال آپ تھے۔ پھر گانے والوں نے تو میر وغالب کے کلام کو بھی نہیں بخشا اور اکثر نے حق بھی ادا کیا۔

گو کہ یہ شوق یقیناً وقت کے زیاں کا باعث بھی رہا ہوگا تاہم کچھ نہ کچھ تو سیکھ ہی لیا۔لیکن اب کبھی شومیء قسمت سے نئے ہندی گیت سننے کا اتفاق ہو جائے تو خیال آتا ہے کہ یہ کس قسم کے گانے ہیں اور یہ کون سے گیت نگار ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ فلمی گیتوں کو غیر اخلاقی اور سوقیانہ خیال کیا جاتا تھا اور کسی حد تک یہ بات درست بھی تھی۔ تاہم آج کل کے گانوں کے لئے غیراخلاقی اورسوقیانہ قسم کے الفاظ بھی استعمال کیے جائیں تو بھی "حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا" والی بات ہوگی۔ نہ آوازیں اچھی ہیں نہ شاعری۔ بلکہ اُسے شاعری کہنا بھی شاعری کی سخت توہین ہے۔ یہی گلہ ایک بار ہم نے اپنے ایک دوست سے کیا تو کہنے لگے کہ یہ گانے سننے والے نہیں دیکھنے والے ہیں۔ اس بات کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ صد شکر کہ ہم نے یہ گانے نہیں سُنے ورنہ اگر ہم نے یہ گانے سُنے ہوتے تو یقیناً ہمارا ہی نہیں شاعری کا بھی "میٹر شارٹ" ہو جاتا۔

نوٹ: گیت نگاروں کو یاد کرنے کے لئے ویب سرچ سے مدد لی گئی ہے۔ نیز یہ کہ ناموں میں تقدیم و تاخیر و مرتبہ وغیرہ کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جا سکا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ویسے آپ کی گائیکی سے دلچسپی کا ایک نمونہ تو ہم ابھی ابھی دیکھ کر بھی آ رہے ہیں۔۔۔۔ :p

بہت ہی اعلیٰ لکھا۔۔۔۔ لطف آگیا۔ میوزک کے اندر سوقیانہ پن صرف یہاں پر ہی نہیں۔۔۔ پوری دنیا ہی مجموعی طور پر اس انحطاط کا شکار ہے۔۔۔ جہاں اہل ہند کے گانے اب محض واہیاتی کا اشتہار بن گئے ہیں۔ وہیں بقیہ ان سے دو قدم آگے ہی ہیں۔ پیچھے نہیں۔۔۔۔۔
بہت خوبصورت تحریر پر داد قبول کیجیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے آپ کی گائیکی سے دلچسپی کا ایک نمونہ تو ہم ابھی ابھی دیکھ کر بھی آ رہے ہیں۔۔۔ ۔ :p

یا حیرت ۔۔۔! سمجھ نہیں آیا کہ آپ کہاں سے آ رہے ہیں اور کون سا نمونہ دیکھ لیا ہے جناب نے۔ :)

بہت ہی اعلیٰ لکھا۔۔۔ ۔ لطف آگیا۔ میوزک کے اندر سوقیانہ پن صرف یہاں پر ہی نہیں۔۔۔ پوری دنیا ہی مجموعی طور پر اس انحطاط کا شکار ہے۔۔۔ جہاں اہل ہند کے گانے اب محض واہیاتی کا اشتہار بن گئے ہیں۔ وہیں بقیہ ان سے دو قدم آگے ہی ہیں۔ پیچھے نہیں۔۔۔ ۔۔
بہت خوبصورت تحریر پر داد قبول کیجیے۔

بہت شکریہ! حوصلہ افزائی کے لئے ممنون ہوں۔

انحطاط کی بات بھی ٹھیک کہی آپ نے۔ شاید دنیا کی ترجیحات بدلتی جا رہی ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یا حیرت ۔۔۔ ! سمجھ نہیں آیا کہ آپ کہاں سے آ رہے ہیں اور کون سا نمونہ دیکھ لیا ہے جناب نے۔ :)
گائیکی سے دلچسپی کا لکھنا تھا۔۔۔۔ :D ایک گانا آپ نے فورا ہی بوجھ لیا۔۔۔۔ :p

بہت شکریہ! حوصلہ افزائی کے لئے ممنون ہوں۔

انحطاط کی بات بھی ٹھیک کہی آپ نے۔ شاید دنیا کی ترجیحات بدلتی جا رہی ہیں۔
متفق ہوں سرکار۔۔۔۔۔ ایک دلچسپ چیز ہے میرے پاس اس ضمن میں۔۔۔۔ وقت ملتا ہے تو ٹائپ کر کے شئیر کرتا ہوں آپ کے ساتھ۔۔۔۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
گائیکی سے دلچسپی کا لکھنا تھا۔۔۔ ۔ :D ایک گانا آپ نے فورا ہی بوجھ لیا۔۔۔ ۔ :p


متفق ہوں سرکار۔۔۔ ۔۔ ایک دلچسپ چیز ہے میرے پاس اس ضمن میں۔۔۔ ۔ وقت ملتا ہے تو ٹائپ کر کے شئیر کرتا ہوں آپ کے ساتھ۔۔۔ ۔ :)

آپ کے پاس تو سب کی سب دلچسپ چیزیں ہی ہوتی ہیں۔ :)

انتظار رہے گا۔
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوبصورت پیرائے میں آج کے فلمی گیتوں پر لطیف طنز ،،،،،،
بہت دعائیں
نصف صدی پرانے گانے آج بھی سنو تو لطف آتا ہے ۔ راہ ملتی ہے " جیو اور جینے دو " کی
ہنس کے غم زندگی پینے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آج کے گانے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک سزا لگتی ہے ۔ جو دونوں کو مل رہی ہوتی ہے ۔
گانے والے کو بھی اور سننے والے کو بھی ۔۔۔۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوبصورت پیرائے میں آج کے فلمی گیتوں پر لطیف طنز ،،،،،،
بہت دعائیں
نصف صدی پرانے گانے آج بھی سنو تو لطف آتا ہے ۔ راہ ملتی ہے " جیو اور جینے دو " کی
ہنس کے غم زندگی پینے کی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
اور آج کے گانے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اک سزا لگتی ہے ۔ جو دونوں کو مل رہی ہوتی ہے ۔
گانے والے کو بھی اور سننے والے کو بھی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔

بہت شکریہ نایاب بھائی ۔۔۔!

اور یہ بات کیا خوب کہی آپ نے کہ :

اور آج کے گانے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اک سزا لگتی ہے ۔ جو دونوں کو مل رہی ہوتی ہے ۔
گانے والے کو بھی اور سننے والے کو بھی ۔۔۔ ۔۔۔

:)
 
Top