میر چاکر خان رند

کچھ عرصہ قبل لاہور میں گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ایک انڈر پاس کے نام پر نظر پڑی “میر چاکر خان انڈر پاس “۔ دل نے کہا کیا وہی چاکر اعظم جس کی بہادری کے قصے بلوچ لوک داستانوں میں رنگ بھرتے ہیں اور بلوچ انہیں اپنے کلچر کا نمائیندہ کہتے ہیں لوک داستانوں کا جیالا ہیرو ، جوش ، ہمت اور جوانمردی کا پیکر ۔ میں نے ان کی زندگی کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی تو جو معلومات حاصل ہوئیں وہ نامکمل تھیں۔ چند روز قبل لائبریری اور نیٹ کو کھوجنے کے بعد اس جنگجو سردار کی جو تصویر ابھر کر سامنے آئی وہ کچھ یوں ہے ۔

بلوچ تاریخ عربوں کے مکران میں آنے سے پہلے روایات کے دھندلکے میں گم ہے ۔ بلوچ روایات کے مطابق انہوں نے سرزمین حجاز سے نقل مکانی کی تھی ۔رند قبیلہ یزید بن معاویہ کے عہد حکومت میں وادی حلب شام میں آباد تھا جب واقعہ کربلا رونما ہوا تو انہوں نے حضرت امام حسین کا ساتھ کربلا کے میدان میں دیا ۔ اس کے نتیجے میں ان پر یزید کا عتاب نازل ہوا تو انہوں نے کرمان ایران کا رخ کیا ۔ وہاں سے یہ پندرھویں صدی میں میر جلال خان کی سربراہی میں مکران کی جانب آئے ۔ میر جلال خان کے ساتھ تقریبا چالیس پاڑے شامل تھے جن میں رند اور لاشاری قبیلے نمایاں تھے ۔جلال خان نے یہاں پہنچ کر بدرالدین حاکم مکران کو شکست دی اور مکران میں بلوچوں کی حکومت قائم کی ۔جب میر جلال خان کا انتقال ہوا تو ان کی چھوٹی اہلیہ عجوبہ بی بی نے اپنے کمسن بچے میر ہوت کو ملک کا وارث قرار دیا جبکہ میر جلال خان نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بڑے بیٹے میر رند کو مسند کا وارث مقرر کیا تھا ۔جب میر رند دوسرے لوگوں کے ہمراہ میر جلال خان کو دفنانے قبرستان گیا ہوا تھا تو عجوبہ بی بی نے شہر کے دروازے بند کرا دیے۔ میر رند کی واپسی ہوئی تو اس نے شہر کے دروازے بند پائے تو سوتیلی والدہ اور چھوٹے بھائی سے جنگ کرنا مناسب نہ سمجھا اور اور شہر سے باہر ہی چھپر ڈال کر فاتحہ کی رسم ادا کی اور پھر ان کے باقی بلوچ ساتھی پھیل کر ایران میں بمپور سے افغانستان میں قندھار تک پھیل گئے ۔میر جلال خان کی قبر کے مقام کا تعین آج تک نہیں ہو سکا ۔ ۔ دو پشتوں کے بعد ان کی اولاد میں میر شہک خان نے جو تمام بلوچوں کے سردار بھی تھے، نے بلیدہ سے چل کر 1486 ء میں قلات فتح کیا۔ میر چاکر 1468ء میں پیدا ہوئے اور قلات کی فتح کے وقت ان کی عمر سولہ سال تھی جس میں انہوں نے بہادری کے جوہر دکھائے۔ میر شہک نے سبی فتح کرنے کے ارادے سے بولان خان رند کو اس سمت روانہ کیا کہ حملے کے لیئے مناسب راستوں کا کھوج لگائیں انہیں کے نام پر درہ بولان کا نام ہے جس کے وسط میں آج کا مچھ شہر آباد ہے ۔ میر شہک نے 1488 ء سبی پہنچ کر حاکم سبی جام نندہ کو شکست دی جو سندھی حکمران تھا ۔ بعد میں وہیں انتقال کیا اور وہیں ضلع کچھی میں ان کا مقبرہ بھی ہے ۔ اس کے بعد میر چاکر رند قبیلے کے سربراہ ہوئے اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی ۔۔ سبی میں ان کے تعمیر کیئے ہوئے قلعے کے آثار آج بھی موجود ہیں ۔ موسم گرما میں بلوچستان کے دوردراز علاقوں سے کثیر تعداد میں قبائل کے لوگوں کی آمد کی وجہ سے قلعہ کے باہر کے میدان میں خیموں کا ایک شہر آباد ہوجاتا تھا۔ اس شہر کی مختلف ضروریات کی تکمیل کے لئے اس منڈی میں سوداگروں کی بڑی بڑی دکانیں ہوتی تھیں جن میں ہرات کا مخمل اور عطر، شیراز کی شراب، تبریز کے عجائبات، دمشق وقاہرہ کے اسلحے موجود ہوتے تھے۔ ان دکانداروں نے سبی کے قریہ قریہ میں سرداروں اور معتبرین کی بستیوں میں اپنے کارندے متعین کئے ہوئے تھے جو ان لوگوں کی مانگ پر فوری طور پر سبی آکر انہیں چیزیں فراہم کرتے تھے۔ اسی میدان کے ایک حصے میں اعلیٰ نسل کے مویشیوں، گھوڑوں اور بھیڑبکریوں کی وسیع منڈی لگ جاتی تھی۔ دوسرے حصے میں اہم ترین میلے کا انعقاد ہوتا تھا۔ سبی کا آج کا میلہ اسی میلے کا تسلسل ہے جسے انگریزوں نے بھی برقرار رکھا تھا ۔ اُس وقت تک بلوچ قبائل کے دو طاقتور قبیلے رند اور لاشاری تھے ۔رنداور لاشاریوں کے تیس سالہ جنگ کا موجب بھی یہی میلہ بنا جس میں چاکر کے بیٹے ریحان اور گہرام کے بیٹے رامین نے گھڑدوڑ میں حصہ لیا جس میں بازی لے جانے پر تنازعہ پیدا ہوا

لاشاریوں نے رند قبائل کو نیچا دکھانے کی خاطر ایک جت خاتوں جو کہ میر چاکر کی امان میں تھی اس کے اونٹوں کو نقصان پہنچایا ۔ وہ روتی ہوئی میر چاکر کے پاس پہنچی ۔ اس کے بعد دونوں قبائل میں جنگ کا آغاز ہوا جو تیس سال تک جاری رہی ۔ اس تیس سالہ جنگ میں لاشاریوں کو شکست ہوئی تو انہوں نے ملتان کے لنگاہوں سے مدد طلب کی ۔ میر چاکر نے قندھار کے ارغونوں سے معاہدہ کیا کہ اگر وہ ان کے ساتھ مل کر لڑیں گے اور فتح نصیب ہوئی تو وہ ارغونوں کو مناسب معاوضہ دیں گے ۔جب معرکہ ہوا تو لاشاریوں کو ایک دفعہ پھر شکست ہوئی اور وہ سندھ پنجاب اور بمبئی کے طرف نکل گئے ۔فتح کے بعد ارغونوں کی نیت میں خلل پیدا ہوا تو اور انہوں نے علاقہ چھوڑنے سے انکار کر دیا تو میر چاکر نے میوند کے علاقے کی راہ لی ۔ سبی اور میوند کے درمیان ایک اونچی تنگی پر میر چاکر نے مورچہ جمایا ،نیچے میدان میں ترک ارغونوں نے صف بندی اختیار کر کے میر چاکر کا محاصرہ کر لیا ۔ اب ان کے بچنے کی کوئی راہ نہ تھی چنانچہ میر چاکر کی بیوی بی بی ہانی نے اپنے شوہر کو مشورہ دیا کہ اونٹوں کے چھوٹے بچے اکٹھے کر کے ان کی پیٹھ پر لکڑیوں کے گٹھے باندھ آگ لگا رات پڑتے ہی ترکوں کے لشکر کی جانب ہانک دیا جائے ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا یہ سماں دیکھ کر ترکوں کے ہاتھی گھبرا گئے اور انہوں نے اپنے ہی لشکر کو روندنا شروع کر دیا ۔ باآلاخر ترکوں نے واپسی کی ٹھانی ۔

بی بی ہانی سے ان کے رومان اور شادی کی داستان بھی عجب ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ میر چاکر خان کے ایک بہت ہی عزیز دوست شہہ مرید تھے ۔ گرمیوں کے موسم میں دونوں ایک دن شکار کو نکلے ، شکار کھیلتے ہوئے ایک جگہ پہنچے تو سخت پیاس لگی ہوئی تھی ۔ وہاں آباد گھروں میں سے دو لڑکیاں پانی لے کر آئیں ۔ پہلی نے پانی پیالے میں ڈال کر شہ مرید کو پیش کیا ۔ دوسری نے برتن کے پانی میں کچھ تنکے ڈال کر پانی میر چاکر کی طرف بڑھایا ۔ یہ بی بی ہانی تھیں ۔ خاتون کی فراست سے میر چاکر بہت متاثر ہوئے اور دل دے بیٹھے کیونکہ شہ مرید کی طبیعت سخت پیاس کے عالم میں پانی یک دم پینے سے خراب ہو گئی لیکن میر چاکر ٹھیک رہے ۔ بعد میں انہیں پتہ چلا کہ خاتون کی نسبت پہلے سے شہ مرید سے طے ہے ۔ دل نے جب بہت مجبور کیا تو ایک جشن کی محفل منعقد کی اور وہاں محفل کے عین عالم شباب میں قبائلی دستور کے مطابق میر چاکر نے قول دیا کہ ” میرا وعدہ ہے اور مجھے اپنی ذات پر پورا بھروسہ ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں گا دروغ گوئی نہیں کروں گا ۔ دستور کے مطابق اس کے بعد ہیبتاں نے قول دیا ، اس کے بعد میر جاڑو نے اور آخر میں شہ مرید نے قول دیا کہ ” میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کی طرح قول دیتا ہوں کہ اگر مانگنے والا مجھ سے کچھ بھی مانگے گا تو حضرت کی طرح میرا ہاتھ نہیں رکے گا ”

کچھ عرصے کے بعد میر چاکر نے کچھ ڈوموں کی خدمات حاصل کیں اور انہیں سکیم سمجھائی ۔ شہ مرید عصر کی نماز پڑھ فارغ ہو کر مسجد سے نکل رہا تھا تو ڈوموں نے گانا شروع کر دیا ۔ قبائلی رواج کے تحت جب ڈوم گاتے تھے تو اختتام پر انہیں انعام دیا جاتا تھا ۔ گانا ختم ہوا تو شہ مرید نے کہا کہ مانگو کیا مانگتے ہو میری سواری ، ہتھیار ڈھال جو پسند ہو لے لو ۔ گویے میر چاکر کی ہدایت یافتہ تھے انہوں نے یک زبان ہو گانا شروع کر دیا کہ ہم آپ سے خوشبووں میں بسی ہوئی ہانی مانگتے ہیں ۔ شہ مرید کے لیئے کوئی چارہ نہ تھا کہ قبائلی روایت کے تحت جان جائے مگر قول نہ جائے کے مطابق ہانی کو چھوڑ کر جنگل کے طرف نکل گئے اور عالم دیوانگی میں فقیری اختیار کر لی ۔

اسی اثنا میں ہمایوں بھی شاہ ایران کی مدد سے لشکر لے کر واپس دلی فتح کرنے کے ارادے سے جا رہا تھا ۔ بلوچستان سے گذرتے وقت ہمایوں نے میر چاکر کو اپنے ہمراہ چلنے کی دعوت دی تو وہ بھی چل پڑا ۔ دہلی کی فتح میں چالیس ہزار کے بلوچ لشکر نے اہم کردار ادا کیا اور میر چاکر کی بہن جو تاریخ میں مائی بانڑی کے نام سے مشہور ہیں انہوں نے لڑائی کے دوران بلوچ سالاروں کو للکارا کہ ” بلوچ بہادرو آج آزمائش کا دن ہے میں تمہیں خدا کے سپرد کرتی ہوں جیت اور ہار اسی کے اختیار میں ہے عزت اور لاج رکھنی ہے تو سب کچھ داو پر لگا دو ” ۔ پھر اپنے زیورات ایک ایک کر کے بلوچ سرداروں میں تقسیم کر دیے ۔ لڑائی میں میر چاکر خان کا بیٹا شاہ داد خان بھی حصہ لے رہا تھا ۔

فتح کے بعد ہمایوں نے میر چاکر کو اوکاڑہ کے قریب ست گھرہ نامی مقام پر زرعی زرخیز جاگیر عطا کی ، انہوں نے اپنے لشکر کے ساتھ وہیں سکونت اختیار کی ۔ 1565 ء میں ان کا انتقال ہوا اور ان کا مزار وہیں واقع ہے ۔ ست گھرہ سے مراد سات گاوں یا قلعے ہیں پانچ ان کے بیٹوں کے اور دو ان میاں بیوی کے ۔ ست گھرہ میں آج بھی ایک قلعے کے کھنڈرات موجود ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر میر چاکر خان نے کروائی تھی ۔ بعد میں اس پر سکھوں نے قبضہ کر لیا تھا ۔ وہاں سات قبریں بھی موجود ہیں جو ان کے خاندان کی ہیں میر چاکر اور بی بی ہانی کی قبر درمیان ہے اور دونوں جانب ان کے بیٹے مدفون ہیں ۔

میر چاکر خان رند سے منسوب چند اقوال یہ ہیں ۔

1۔بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ھے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں ۔

2۔ مرد کا قول اسکے سر کے ساتھ بندھا ھے ۔

3۔ سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ھے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ھے

ربط
http://www.riazshahid.com/2013/10/05/چاکر-اعظم/
 
Top