میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
ہم زاد
کچھ کیا جائے نہ سوچا جائے
مڑ کے دیکھوں تو نہ دیکھا جائے
میری تنہائی کی وحشت سے ہراساں ہو کر
میرا سایہ میرے قدموں میں سمٹ آیا ہے
کون ہے پھر جو مرے ساتھ چلا آتا ہے
میرا سایہ تو نہیں!!
کس کی آہٹ کا گماں
یوں مرے پاؤں کی زنجیر بنا جاتا ہے
دور تا حد نظر شہر کے آثار نہیں
اور دشمن کی طرح
شام تلوار لیے سر پہ چلی آتی ہے
بولتا ہوں تو اچانک کوئی
میری آواز میں آواز ملا دیتا ہے
مجھ کو خود میرے ہی لفظوں سے ڈرا دیتا ہے
کون ہے جس نے مرے قلب کی دھڑکن دھڑکن
اپنے احساس کی سولی پہ چڑھا رکھی ہے
میری رفتار کے پر خوف و خطر رستے میں
کس نے آواز کی دیوار بنا رکھی ہے
سنگ آواز کی دیوار گراؤں کیسے
کچھ کیا جائے نہ سوچا جائے
مڑ کے دیکھوں تو نہ دیکھا جائے
امجد اسلام امجد
 

سیما علی

لائبریرین
کھینچ کر رات کی دیوار پہ مارے ہوتے
میرے ہاتھوں میں اگر…. چاند ، سِتارے ہوتے

ہم نے اِک دُوجے کو خود ہار دیا ، دُکھ ہے یہی
کاش ! ہم دُنیا سے لڑتے ہُوئے ہارے ہوتے

یہ جو آنسو ہیں مری پلکوں پہ پانی جیسے
اُس کی آنکھوں سے اُبھرتے ، تو سِتارے ہوتے

یار کیا جنگ تھی جو ہار کے تم کہتے ہو
جیت جاتے تو خسارے ہی خسارے ہوتے

اتنی حیرت تمہیں مجھ پر نہیں ہونی تھی…. اگر
تم نے کچھ روز ، مری طرح گزارے ہوتے

یہ جو ہم ہیں ، احساس میں جٙلتے ہُوئے لوگ
ہم زمیں زاد نہ ہوتے ، تو سِتارے ہوتے

تم کو اِنکار کی خو مار گئی ہے “واحد”
ہر بھنور سے نہ اُلجھتے تو کنارے ہوتے
واحد اعجاز میر
 

شمشاد

لائبریرین
کب لوٹا ہے بہتا پانی، بچھڑا ساجن، روٹھا دوست
ہم نے اس کو اپنا جانا جب تک ہاتھ میں داماں تھا
(ابن انشاء)
 

سیما علی

لائبریرین
جونہی گلشن میں ذرا سہمی ہوا تیز ہوئی
ادھ کھلے پھول کی شاخوں پہ صدا تیز ہوئی

جل گئے آنکھ کے پردے پہ مناظر سارے
ایسے بجھتے ہوئے سورج کی ضیا تیز ہوئی

جب بھی دیکھا مرا جلتا ہوا گھر یاروں نے
اشک آنکھوں میں تھے دامن کی ہوا تیز ہوئی

اڑ گئے سارے پرندے جو بھری شاخوں سے
دل کے ہر داغ سے حسرت کی نوا تیز ہوئی

میری بے خواب نگاہوں میں کئی خواب جگے
سرمئی شام میں جب باد صبا تیز ہوئی

جب بھی الجھی مرے خرمن سے کبھی تیز ہوا
تیز دھڑکن کو لیے حرفِ دعا تیز ہوئی

تار جب چھیڑ دیے مہر و وفا کے دل نے
پیکر جور سے ہر لحظہ جفا تیز ہوئی

جتنی شدت سے بڑھیں دل کی امنگیں تابشِ
اتنی شدّت سے مری اور قضا تیز ہوئی
شہزاد تابش
 

سیما علی

لائبریرین
وہ نہ آئے تو ہَوا بھی نہیں آیا کرتی
اُس کی خوشبُو بھی اکیلی نہیں آیا کرتی
ہم تو آنسو ہیں ہَمَیں خاک میں مِل جانا ہے
میّتوں کے لیے ڈولی نہیں آیا کرتی
بِستَرِ ہِجر پہ سویا نہیں جاتا اکثر
نیند آتی تو ہے، گہری نہیں آیا کرتی
علی الاعلان کِیا کرتا ہُوں سچّی باتیں
چَور دروازے سے آندھی نہیں آیا کرتی
صِرف رنگوں سے، کبھی رَس نہی ٹپکا کرتا !
کاغَذی پُھول پہ تتلی نہیں آیا کرتی
عِشق کرتے ہو تو آلودۂ شِکوہ کیوں ہو؟
شہد کے لہجے میں تلخی نہیں آیا کرتی
موت نے یاد کِیا ہے کہ، مظفر اُس نے
اپنی مرضی سے تو ہِچکی نہیں آیا کرتی
مظفّرؔ وارثی
 

شمشاد

لائبریرین
زندگی خوگر صدمات کہاں تھی پہلے
اتنی مجبورئ حالات کہاں تھی پہلے

میری مشتاق نگاہی کا کرشمہ ہے یہ
آپ کے حسن میں یہ بات کہاں تھی پہلے

یہ تو نیرنگ طرازی مرے احساس کی ہے
فصل گل بادل و برسات کہاں تھی پہلے

صدقۂ اہل جنوں ہے یہ بہار گلشن
بوئے گل مظہر جذبات کہاں تھی پہلے

آپ کے عشق نے معروف کیا ہے مجھ کو
اتنی مشہور مری ذات کہاں تھی پہلے

مے کشی لائی ہے مجھ کو در مے خانہ تک
ورنہ ساقی سے ملاقات کہاں تھی پہلے

پھر دیا رنج بتوں نے تمہیں شاید نغمیؔ
لب پہ دن رات مناجات کہاں تھی پہلے
(ابرار نغمی)
 

سیما علی

لائبریرین
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں
ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر!
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم
تو اور ہمیں ناشاد نہ کر!
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ
یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر!
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

جس دن سے ملے ہیں دونوں کا
سب چین گیا، آرام گیا
چہروں سے بہار صبح گئی
آنکھوں سے فروغ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا
ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں
رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
آنکھوں میں تصور،دل میں خلش
سر دھنتے ہیں آہیں بھرتےہیں
اے عشق! یہ کیسا روگ لگا
جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں؟
یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں
رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہر وقت خلش بے
خواب ہوں میں،بیدار ہے وہ
جینے سے ادھر بیزار ہوں میں
مرنے پہ ادھر تیار ہے وہ
اور ضبط کہے فریاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا
گھبرائےہوئے سے رہتے ہیں
ہر وقت تصور کر کر کے
شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
کملائے ہوئے پھولوں کی طرح
کملائے ہوئے سے رہتے ہیں
پامال نہ کر، برباد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

بیددر! ذرا انصاف تو کر!
اس عمر میں اور مغموم ہے وہ!
پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی
تاروں کی طرح معصوم ہے وہ!
یہ حسن ، ستم! یہ رنج،غضب!
مجبور ہوں میں! مظلوم ہے وہ!
مظلوم پہ یوں بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!

اے عشق خدارا دیکھ کہیں
وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو !
وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو !
وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو !
ناموس کا اس کے پاس رہے
وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو!
اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر !!

کیا سمجھےتھےاور تو کیا نکلا
یہ سوچ کےہی حیران ہیں ہم!
ہے پہلے پہل کا تجربہ اور
کم عمر ہیں ہم، انجان ہیں ہم!
اے عشق ! خدارا رحم و کرم!
معصوم ہیں ہم ،نادان ہیں ہم!
نادان ہیں ہم، ناشاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
اختر شیرانی
 

سیما علی

لائبریرین
شبِ غم کی درازی زلفِ جاناں کون دیکھے گا
لگا کر تم سے دل خوابِ پریشاں کون دیکھےگا

ہمیں بھی جلوہ گاہِ ناز تک لے کے چلو موسیٰ
تمہیں غش آ گیا تو حُسنِ جاناں کون دیکھے گا

میں خود اِقرار کر لوں گا کہ میں نے جان خود دی تھی
سرِمحشر بھلا تجھ کو پریشاں کون دیکھے گا

پڑے ہیں تو پڑے رہنے دو میرے خون کے دھبے
تمہیں دیکھیں گے سب محشر میں داماں کون دیکھے گا

جگر اب مے کدے میں آ گئے ہو تو مناسب ہے
اگر چپکے سے پی لو گے مسلماں کون دیکھے گا

(جگر مراد آبادی)
 

سیما علی

لائبریرین
شبِ غم کی درازی زلفِ جاناں کون دیکھے گا
لگا کر تم سے دل خوابِ پریشاں کون دیکھےگا

ہمیں بھی جلوہ گاہِ ناز تک لے کے چلو موسیٰ
تمہیں غش آ گیا تو حُسنِ جاناں کون دیکھے گا

میں خود اِقرار کر لوں گا کہ میں نے جان خود دی تھی
سرِمحشر بھلا تجھ کو پریشاں کون دیکھے گا

پڑے ہیں تو پڑے رہنے دو میرے خون کے دھبے
تمہیں دیکھیں گے سب محشر میں داماں کون دیکھے گا

جگر اب مے کدے میں آ گئے ہو تو مناسب ہے
اگر چپکے سے پی لو گے مسلماں کون دیکھے گا

(جگر مراد آبادی)
 

سیما علی

لائبریرین
کہیں بے کنار سے رتجگے‘ کہیں زر نگار سے خواب دے!
ترا کیا اُصول ہے زندگی؟ مجھے کون اس کا جواب دے!

جو بچھا سکوں ترے واسطے‘ جو سجا سکیں ترے راستے
مری دسترس میں ستارے رکھ‘ مری مُٹھیوں کو گلاب دے

یہ جو خواہشوں کا پرند ہے‘ اسے موسموں سے غرض نہیں
یہ اُڑے گا اپنی ہی موج میں‘ اِسے آب دے کہ سراب دے!

تجھے ُچھو لیا تو بھڑک اُٹھے مرے جسم و جاں میں چراغ سے
اِسی آگ میں مجھے راکھ کر‘ اسی شعلگی کو شباب دے

کبھی یوں بھی ہو ترے رُوبرو‘ میں نظر مِلا کے یہ کہہ سکوں
”مری حسرتوں کو شمار کر‘ مری خواہشوں کا حساب دے!“

تری اِک نگاہ کے فیض سے مری کشتِ حرف چمک اُٹھے
مِرا لفظ لفظ ہو کہکشاں مجھے ایک ایسی کتاب دے

امجد اسلام امجد
 

سیما علی

لائبریرین
اے دل کی لگی چل یوں ہی سہی ، چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مُجھے چونکا دینا ، جب رنگ پہ محفل آ جائے

اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم ، ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبہ دل مُشکل پس مُشکل آ جائے

بہزاد لکھنوی
 

سیما علی

لائبریرین
احمد فراز

نامہ بروں کو کب تک ہم کوئے یار بھیجیں
وہ نامراد آئیں، ہم بار بار بھیجیں

ہم کب سے منتظر ہیں اس موسمِ جنوں کے
جب زخم تہنیت کے یاروں کو یار بھیجیں

کیوں چشمِ شہریاراں ہے سوئے جاں فگاراں
کیا جامۂ دریدہ، اُن کو اُتار بھیجیں

آؤ اور آ کے گِن لو زخم اپنے دل زدوں کے
ہم کیا حساب رکھیں، ہم کیا شمار بھیجیں

یارانِ مہرباں کو گر فکر ہے ہماری
یا پندگر نہ بھیجیں یا غمگسار بھیجیں

جب یار کا سندیسہ آئے تو بات بھی ہو
یوں تو ہزار نامے خوباں ہزار بھیجیں

سن اے غزالِ رعنا! اب دل یہ چاہتا ہے
ہر روز اک غزل ہم در مدحِ یار بھیجیں

دل یہ بھی چاہتا ہے ہجراں کے موسموں میں
کُچھ قربتوں کی یادیں ہم دور پار بھیجیں

دل یہ بھی چاہتا ہے ان پھول سے لبوں کو
دستِ صبا پہ رکھ کر شبنم کے ہار بھیجیں

دل یہ بھی چاہتا ہے اس جانِ شاعری کو
کُچھ شعر اپنے چن کر شاہکار بھیجیں

دل یہ بھی چاہتا ہے سب بھید چاہتوں کے
ہر مصلحت بھلا کر بے اختیار بھیجیں

دل یہ بھی چاہتا ہے پردے میں ہم سخن کے
دیوانگی کی باتیں دیوانہ وار بھیجیں

دل یہ بھی چاہتا ہے جب بے اثر ہو سب کچھ
تُجھ کو بنا کے قاصد اے یادِ یار بھیجیں

دل یہ بھی چاہتا ہے یا چپ کا زہر پی لیں
یا دامن و گریباں ہم تار تار بھیجیں

دل جو بھی چاہتا ہو لیکن فرازؔ سوچو
ہم طوقِ آشنائی کیسے اتار بھیجیں
 

سیما علی

لائبریرین
کہیں بے کنار سے رتجگے‘ کہیں زر نگار سے خواب دے!
ترا کیا اُصول ہے زندگی؟ مجھے کون اس کا جواب دے!

جو بچھا سکوں ترے واسطے‘ جو سجا سکیں ترے راستے
مری دسترس میں ستارے رکھ‘ مری مُٹھیوں کو گلاب دے

یہ جو خواہشوں کا پرند ہے‘ اسے موسموں سے غرض نہیں
یہ اُڑے گا اپنی ہی موج میں‘ اِسے آب دے کہ سراب دے!

تجھے ُچھو لیا تو بھڑک اُٹھے مرے جسم و جاں میں چراغ سے
اِسی آگ میں مجھے راکھ کر‘ اسی شعلگی کو شباب دے

کبھی یوں بھی ہو ترے رُوبرو‘ میں نظر مِلا کے یہ کہہ سکوں
”مری حسرتوں کو شمار کر‘ مری خواہشوں کا حساب دے!“

تری اِک نگاہ کے فیض سے مری کشتِ حرف چمک اُٹھے
مِرا لفظ لفظ ہو کہکشاں مجھے ایک ایسی کتاب دے

امجد اسلام امجد
 
Top