میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی
تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
 

سیما علی

لائبریرین
میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا

یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو
میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا

ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں
ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا

وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے
پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا

اسی خیال میں گزری ہے شام درد اکثر
کہ درد حد سے بڑھے گا تو مسکرا دوں گا

تو آسمان کی صورت ہے گر پڑے گا کبھی
زمیں ہوں میں بھی مگر تجھ کو آسرا دوں گا

بڑھا رہی ہیں مرے دکھ نشانیاں تیری
میں تیرے خط تری تصویر تک جلا دوں گا

بہت دنوں سے مرا دل اداس ہے محسنؔ
اس آئنے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا
 

سیما علی

لائبریرین
اب کے یوں دِل کو سزا دی ہم نے
اس کی ہر بات بھلا دی ہم نے

ایک ایک پھول بہت یاد آیا
شاخِ گل جب جلا دی ہم نے

آج پِھر یاد بہت آئے وہ
آج پِھر اس کو دعا دی ہم نے

کوئی تو بات اس میں بھی ہے احسان
ہر خوشی جس پر لٹا دی ہم نے
 

سیما علی

لائبریرین
اک زائرِ نجف نے مرے کان میں کہا
اٹھو میاّں! پڑے ہو یہ کن لغویات میں
جو لوگ چاکِ حبّ علی پر ہیں کوزہ گر
سو آفتاب ڈھالتے ہیں ایک رات میں

(احمد جاوید)
 

سیما علی

لائبریرین
دردِ دل ہے، تمہاری یادیں ہیں
رات ہے ، شاعری ہے، چائے ہے
کس مصیبت میں مبتلا ہیں لوگ
ہر طرف ہائے، ہائے ،ہائے ہے
ناز دل کی زبان بولتے ہیں
ہر کسی کی سمجھ میں آئےہے
ناز مظفر آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
کیا مزہ ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک

گرد راہ یار ہے سامان ناز زخم دل
ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک

مجھ کو ارزانی رہے تجھ کو مبارک ہوجیو
نالۂ بلبل کا درد اور خندۂ گل کا نمک

شور جولاں تھا کنار بحر پر کس کا کہ آج
گرد ساحل ہے بہ زخم موجۂ دریا نمک

داد دیتا ہے مرے زخم جگر کی واہ واہ
یاد کرتا ہے مجھے دیکھے ہے وہ جس جا نمک

چھوڑ کر جانا تن مجروح عاشق حیف ہے
دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضا نمک

غیر کی منت نہ کھینچوں گا پے توفیر درد
زخم مثل خندۂ قاتل ہے سرتاپا نمک

یاد ہیں غالبؔ تجھے وہ دن کہ وجد ذوق میں
زخم سے گرتا تو میں پلکوں سے چنتا تھا نمک

اس عمل میں عیش کی لذت نہیں ملتی اسدؔ
زور نسبت مے سے رکھتا ہے اضارا کا نمک

مرزا اسد اللّہ خاں غالب
 

سیما علی

لائبریرین
مجھ کو نہ دل پسند نہ دل کی یہ خو پسند
پہلو سے میرے جائے دل آرزو پسند

تجھ کو عدو پسند ہے وضع عدو پسند
مجھ کو ادا پسند تری مجھ کو تو پسند

روز ازل تھے ڈھیر ہزاروں لگے ہوئے
چپکے سے چھانٹ لائے دل آرزو پسند

تم نے تو آستیں کے سوا ہاتھ بھی رنگے
آیا شہید ناز کا اتنا لہو پسند

اے دل تری جگہ شکن زلف میں نہیں
خو بو تری پسند نہ کافر کو تو پسند

پہنچا جو میں تو دھوم مچی بزم یار میں
آئے ہیں آج ایک بڑے آرزو پسند

مسجد میں ظرف آب نہ تھا کوئی لے چلے
آیا جو میکدے میں اچھوتا سبو پسند

جنت کی حور جیسے کوئی میری قبر پر
اے شمع اس طرح مجھے آئی ہے تو پسند

آتا پسند کاش کچھ ان کا کلام بھی
بزم سخن میں آئے کئی خوش گلو پسند

ہو عکس آئنے میں ترا یا ہو کوئی اور
آیا ہے اک حسین ترے روبرو پسند

دن میں شباب کے وہ بھرے ہیں شباب میں
مسکی ہوئی قبا میں نہیں ہے رفو پسند

میرا مذاق اور ہے مجھ کو تو اے کلیم
پردے کے ساتھ دور سے ہے گفتگو پسند

مے کا نہ میکدے کا نہیں کچھ رہے گا ہوش
آئے خدا کرے نہ کوئی خوب رو پسند

کس طرح اس نے روکے ملایا ہے خاک میں
آیا نہ آنکھ کو بھی ہمارا لہو پسند

کچھ شوق ہے تو اہل خرابات سے ملو
اے صوفیو نہیں یہ ہمیں ہاؤ ہو پسند

آئے گا مے کشو بط مے کا شکار یاد

جنت میں آ گئی جو کوئی آب جو پسند
سو بار سر سے شیخ کے ٹکرا چکے جسے

ہم کو تو میکدے میں وہی ہے سبو پسند
جب پی لگا کے منہ دم افطار رند نے

بوتل کے منہ کی آئی فرشتوں کو بو پسند

ہو جاؤں میں بھی گم کہیں تیری تلاش میں
تیری طرح مجھے ہے تری جستجو پسند

یہ کون ہیں ریاضؔ ہیں رسوائے کوئے یار
آئے ہیں آج بن کے بڑے آبرو‌ پسند
 

سیما علی

لائبریرین
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

آمین
 

سیما علی

لائبریرین
کچھ دن اگر یہی رہا دیوار و در کا رنگ
دیوار و در پہ دیکھنا خونِ جگر کا رنگ
بھولا نہیں ہوں مقتلِ امید کا سماں
تحلیل ہورہا تھا شفق میں سحر کا رنگ
دنیا غریقِ شعبدۂ جام جم ہوئی
دیکھے گا کون خونِ دلِ کو زہ گر کا رنگ
الجھتے ہوئے دھویں کی فضا میں ہے اک لکیر
کیا پوچھتے ہو شمع سرِ رہ گزر کا رنگ
دامانِ فصل گل پہ خزاں کی لگی ہے چھاپ
ذوقِ نظر پہ بار ہے برگ و ثمر کا رنگ
جمنے لگی شکیب جو پلکوں پہ گردِ شب
آنکھوں میں پھلینے لگا خوابِ سحر کا رن
 

سیما علی

لائبریرین
لازم نہیں کہ اس کو بھی میرا خیال ہو
جو میرا حال ہے وہی اس کا بھی حال ہو
کچھ اور دل گداز ہوں اس شہر سنگ میں
کچھ اور پر ملال، ہوائے ملال ہو
باتیں تو ہوں کچھ تو دلوں کی خبر ملے
آپس میں اپنے کچھ تو جواب و سوال ہو
رہتے ہے آج جس میں جسے دیکھتے ہیں ہم
ممکن ہے یہ گزشتہ کا خواب و خیال ہو
سب شور شہر خاک کا ہے قرب آب سے
پانی نہ ہو تو شہر کا جینا محال ہو
معدوم ہوتی جاتی ہوئی شے ہے یہ جہاں
ہر چیز اس کی جیسے فنا کی مثال ہو
کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیر
ان روز و شب میں ایسا بھی اک دن کمال ہو
 

سیما علی

لائبریرین
یہ کیسا نشہ ہے، میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں
مکاں ہے قبر، جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کس مزار میں ہوں
در فصیل کھلا، یا پہاڑ سر سا ہٹا
میں اب گری ہوئی گلیوں کے مرگزار میں ہوں
میں ہوں بھی اور نہیں بھی، عجیب بات ہے
یہ کیسا جبر ہے میں کس کے اختیار میں ہوں
منیر دیکھ شجر، چاند اور دیواریں
ہوا خزاں کی ہے سر پر، شب بہار میں ہوں
 

سیما علی

لائبریرین
چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کي لکير تھي
قاتل کے ہاتھ ميں تو حنا کي لکير تھي
خوش ہوں کہ وقت قتل مرا رنگ سرخ تھا
ميرے لبوں پہ حرف دعا کي لکير تھي
ميں کارواں کي راہ سمجھتا رہا جسے
صحرا کي ريت پر وہ ہوا کي لکير تھي
سورج کو جس نے شب کے اندھيروں ميں گم کيا
موج شفق نہ تھي وہ قضا کي لکير تھي
گزرا ہے سب کو دشت سے شايد وہ پردہ دار
ہر نقش پا کے ساتھ ردا کي لکير تھي
کل اس کا خط ملا کہ صحيفہ وفا کا تھا
محسن ہر ايک سطر حيا کي لکير تھي
 

سیما علی

لائبریرین
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دلگِیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے
لمحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجالیں گے رہِ شہرِ تمنا
مقدور نہیں صبح، چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گِلہ ہم سفروں سے
جِس رہ سے چلے تیرے درو بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کُوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ، ادا دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشۂِ انجام ہی آئے
 

شمشاد

لائبریرین
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
غلام محمد قاصر
 
Top