مصطفیٰ زیدی میرے محبوب وطن کی گلیو! ۔ مصطفیٰ زیدی

رند

محفلین
میرے محبوب وطن کی گلیو!
تم کو اور اپنے دوستوں کو سلام
اپنے زخمی شباب کو تسلیم
اپنے بچپن کے قہقہوں کو سلام

عمر بھر کے لیے تمھارے پاس
رہ گئی ہے شگفتگی میری
آخری رات کے اداس دیو!
یاد ہے تم کو بے بسی میری؟

یاد ہے تم کو جب بھلائے تھے
عمر بھر کے کیے ہوئے وعدے
رسم و مذہب کی اک بچارن نے
ایک چاندی کے دیوتا کے لیے

جانے اس کارگاہ ہستی میں
اس کو وہ دیوتا ملا کہ نہیں
میری کلیوں کا خون پی کے بھی
اس کا اپنا کنول کھلا کہ نہیں

سنا آج کل اس کے دامن میں
پیار کے رنگ ہیں کہ پیسے ہیں
تم کو معلوم ہو تو بتلانا
اس کے آنچل کے رنگ کیسے ہیں

مجھ کو آواز دو کہ صبح کی اوس
کیا مجھے ابھی یاد کرتی ہے ؟
میرے گھر کی ادس چوکھٹ پر
کیا کبھی چاندنی اتری ہے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مصطفی زیدی
 

فرخ منظور

لائبریرین
خوبصورت نظم شریکِ محفل کرنے کا شکریہ رند صاحب۔ ایک گذارش ہے کہ جب بھی کوئی نئی نظم پوسٹ کریں تو اسے نئے موضوع میں شروع کریں۔ ماشااللہ آپ تو بہت پرانے رکن ہیں آپ تو ان باتوں کو جانتے ہوں گے۔ بہرحال میں نے آپ کی پوسٹ کردہ نظم کو نئے موضوع میں منتقل کر دیا ہے۔ ہو سکے تو اس نظم کا عنوان بھی بتا دیجیے تاکہ عنوان کو درست کیا جا سکتے۔ بہت شکریہ!
 
Top