میری پہلی غزل

فاطمہ بتول

محفلین
عین ممکن تھا سبھی خواب عیاں ہو جاتے
اشک گر ساتھ نہ دیتے تو بیاں ہو جاتے

ہے الگ سوچ مگر مات مقدر کیوں ہے
جیت ممکن ہے اگر ظرف زیاں ہو جاتے

رستئہ زیست کٹا جرمِ خطا میں یکسر
کاش بے دید سفر ہم پہ عیاں ہو جاتے

جبر کے زور پہ گر کام بنا کرتے تو
اس نگر صبر کے سب گھر ہی مکاں ہو جاتے

خواب ٹوٹے تو لگا جان چلی جائے گی
ذوقِ احساس نہ کھوتے تو فنا ہو جاتے

چشمِ بیدار سے تُو اُنکو اگر پڑھتا تو
وہ مِرے خواب کسی صوفی کا بیاں ہو جاتے

ذاتِ واحد نہ اگر ساتھ عطا کرتی تو
شہرِ گلزار , بیابانِ جہاں ہو جاتے
 

حسن ترمذی

محفلین
واہ واہ بہت خوب فاطمہ بتول بی بی
اوزان یا بحر کا مجھے ککھ نہیں پتا لیکن کوشش بہت اچھی ہے.. خاص طور سے اس شعر نے لطف دیا..
"چشمِ بیدار سے تُو اُنکو اگر پڑھتا تو
وہ مِرے خواب کسی صوفی کا بیاں ہو جاتے"
 
پهر بهی داد قبول کیجیے میں نے اپنی پہلی غزل میں کم از کم چار بحریں ملا دی تهیں. مطلع میں ایطائے خفی ہے بیاں کو زباں کر دیں مطلب پر کوئی فرق نہیں پڑے گا.
 

فاطمہ بتول

محفلین
واہ واہ بہت خوب فاطمہ بتول بی بی
اوزان یا بحر کا مجھے ککھ نہیں پتا لیکن کوشش بہت اچھی ہے.. خاص طور سے اس شعر نے لطف دیا..
"چشمِ بیدار سے تُو اُنکو اگر پڑھتا تو
وہ مِرے خواب کسی صوفی کا بیاں ہو جاتے"
شکریہ.
 

اکمل زیدی

محفلین
ویسے احباب کی پسند کی داد دینی ہوگی خارج از بحر اور غلط قافیے والا شعر پسند کیا ہے.
قریشی صاحب آپ استاد ہیں.. احباب پسندیدگی کی وجہ صرف غزل کی روانی اور مطلب ہیں سخن کی باریکیوں سے قطع نظر جس کے پہلے سے اشارہ بھی دیا ہے ..

بہت خوب اچھی روانی اور سوچ ہے ...باقی تراکیب کے لئے ابن رضا عاطف صاحب اور @یعقوب آسی صاحب بہتر بتائینگے ...
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بی بی۔ محض اوزان سے درست بیانیہ کو ہی شاعری نہیں کہتے۔یہ چیزے دیگر است۔ جن اغلاط کی نشان دہی کی جا چکی ہے، ان کے علاوہ۔
مجھے روانی کی کمی محسوس ہوئی حالانکہ احباب نے اسی کی تعریف کر رکھی ہے!!

ین ممکن تھا سبھی خواب عیاں ہو جاتے
اشک گر ساتھ نہ دیتے تو بیاں ہو جاتے
÷÷خواب عیاں ہونا محاور سے بعید ہے۔

ہے الگ سوچ مگر مات مقدر کیوں ہے
جیت ممکن ہے اگر ظرف زیاں ہو جاتے
۔۔مات (ہار کیوں نہیں؟) اور جیت کے ساتھ ظرف زیاں کا استعمال ۔ویسے یہ ترکیب بھی سمجھ میں نہیں آئی۔

رستئہ زیست کٹا جرمِ خطا میں یکسر
کاش بے دید سفر ہم پہ عیاں ہو جاتے
۔۔بے دید سفر؟

جبر کے زور پہ گر کام بنا کرتے تو
اس نگر صبر کے سب گھر ہی مکاں ہو جاتے
مصرع کے آخر میں طویل کھنچنے والا ’تو‘ اچھا نہیں۔ آگے بھی یہی استعمال ہے۔
دوسرا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔

خواب ٹوٹے تو لگا جان چلی جائے گی
ذوقِ احساس نہ کھوتے تو فنا ہو جاتے
÷÷قافئے کے علاوہ مجھے دو لخت بھی لگ رہا ہے۔

چشمِ بیدار سے تُو اُنکو اگر پڑھتا تو
وہ مِرے خواب کسی صوفی کا بیاں ہو جاتے
۔۔پہلا مصرع۔۔ ’تو‘
دوسرا مصرع، اوزان۔ خواب میرے کسی صوفی کا بیاں۔۔۔‘ درست ہو سکتا ہے۔ لیکن صوفی کا ہی بیان کیوں؟ یا ممکن ہے میں ایسے صوفیوں سے واقف نہیں ہوں!

ذاتِ واحد نہ اگر ساتھ عطا کرتی تو
شہرِ گلزار , بیابانِ جہاں ہو جاتے
شہرَ گلزار؟
 
Top