میرے پسندیدہ اشعار

شمشاد

لائبریرین
" میری پسند " جس میں بہت سارے اراکین نے بہت سارے شعراء کا بہت خوبصورت کلام پیش کیا، شاعری سے دلچسپی رکھنے والے یقیناً اس سے لطف اندوز ہوئے ہوں گے اور آئیندہ بے اس دھاگے سے ہوتے رہیں گے، 120 صفحے پورے کر کے مقفل ہوا۔

اب اس سلسلے کی اگلی کڑی " میری پسند کی شاعری" کے نام سے شروع کرتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ابتدا سرور عالم راز سرور کی ایک غزل سے :

ہمیں کیا کیا ملا اس آستاں سے
دیارِ درد سے کوئے فغاں سے

مرا سایہ بھی مجھ سے ہے گریزاں
شکایت کیا غبارِ کارواں سے

تلاش و آرزو میں عمر گذری
”تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے“

محبت ہی تھی انعامِ محبت
میں جب نکلا غمِ سود و زیاں سے

بہاروں نے فقط دیوانگی دی
کوئی امید ہے تو ہے خزاں سے

”تکلف برطرف میں صاف کہہ دوں“
تمہارا نام ہے اِس بے نشاں سے

حریمِ ناز میں ہے ذکر میرا
کہاں تک بات پہنچی ہے کہاں سے

مقدر ہی ترا ایسا ہے سرور
گلہ کیسا زمین و آسماں سے
 

سارہ خان

محفلین
تعبیروں کے درد اُٹھا کر کیا کرنا ہے
کیا کرنا ہے خواب سجا کر کیا کرنا ہے

اس کی صورت، اُس کی باتیں بھول گئے ہیں
پھر سوچا، خود دھوکا کھا کر کیا کرنا ہے
 

عمر سیف

محفلین
آنکھیں کھلی رہیں گی تو منظر بھی آئیں گے
زندہ ہے دل تو اور ستمگر بھی آئیں گے

پہچان لو تمام فقیروں کے خدوخال
کچھ لوگ شب کو بھیس بدل کر بھی آئیں گے

گہری خموش جھیل کے پانی کو یوں نہ چھیڑ
چھینٹے اّڑے تو تیری قبا پر بھی آئیں گے

خود کو چھپا نہ شیشہ گروں کی دکان میں
شیشے چمک رہے ہیں تو پتھر بھی آئیں گے

اّس نے کہا--گناہ کی بستی سے مت نکل
اِک دن یہاں حسین پیمبر بھی آئیں گے

اے شہریار دشت سے فرصت نہیں--مگر
نکلے سفر پہ ہم تو تیرے گھر بھی آئیں گے

محسن ابھی صبا کی سخاوت پہ خوش نہ ہو
جھونکے یہی بصورتَ صرصر بھی آئیں گے
 

شمشاد

لائبریرین
رخصت

فسردہ رخ، لبوں پر اک نیاز آمیز خاموشی
تبسم مضمحل تھا، مرمریں ہاتھوں میں لرزش تھی
وہ کیسی بے کسی تھی تیری پر تمکیں نگاہوں میں
وہ کیا دکھ تھا تری سہمی ہوئی خاموش آہوں میں
(فیض احمد فیض)
 

عمر سیف

محفلین
رات کے دوسرے کنارے پر
جانے کیا بات ہے کہ شام ڈھلے
خوف نادیدہ کہ اشارے پر
جھلملاتے ہوئے چراغ کی لَو
مجھ سے کہتی ہے " افتخار عارف! "
رات کے دوسرے کنارے پر
" ایک رات اور انتظار میں ہے "
کوئی چپکے سے دل میں کہتا ہے
رات پہ بس اس چلے نہ چلے
خواب تو اپنے اختیار میں ہے
 

شمشاد

لائبریرین
بیخودی! تو ہی آخر بتا، کیا کریں؟
ہو گئے ہم جو خود سے جدا، کیا کریں؟

ہم ازل سے ہیں اہلِ وفا کیا کریں!
زندگی ایک کافر ادا، کیا کریں؟

بات بے بات جب ہوں خفا کیا کریں؟
ہم بیاں آپ سے مدعا کیا کریں؟

عاشقی ہے کہ ہے اک بلا، کیا کریں؟
کوئی بتلائے بہرِ خدا، کیا کریں؟

دل کو ضد ہے کہ کوئے ملامت چلو
روک کر ہم قیامت بپا کیا کریں؟

درد بڑھتا گیا، دن گزرتے گئے
کب رُکا وقت کا قافلہ، کیا کریں؟

اولِ شام ہجراں ہی نیند آگئی
ابتدا بن گئی انتہا، کیا کریں؟

جان شعروں میں سرور جو تیرے نہیں
لوگ پھر مرحبا! مرحبا! کیا کریں؟

سرور عالم راز سرور​
 

عمر سیف

محفلین
تھکن سے چور ہیں پاؤں کہاں کہاں بھٹکیں
ہر ایک گام نیا حسن رہ گزار سہی
سکوں بدوش کنارا بھی اب ابھر آئے
سفینہ ہائے دل و جاں بھنور کے پار سہی
 

شمشاد

لائبریرین
حسن جب بے نقاب ہوتا ہے
آپ اپنا جواب ہوتا ہے

عشق پر جب شباب ہوتا ہے
آدمی پھر خراب ہوتا ہے

جب بھی ہم سے خطاب ہوتا ہے
بس وہی اک جواب ہوتا ہے

جس کو دنیا عتاب کہتی ہے
کرمِ بے حساب ہوتا ہے

رنگ لائے لہو غریبوں کا
یوں بھی عالی جناب ہوتا ہے

یہ لگی دل کی، دل لگی تو نہیں
اس میں خانہ خراب ہوتا ہے

آپ بھی کیسی بات کرتے ہیں
عشق بھی کامیاب ہوتا ہے؟

کب ہے سرور فراق میں تنہا
درد بھی ہم رکاب ہوتا ہے

(سرور عالم راز سرور)
 

عمر سیف

محفلین
کھڑکیاں مت بجا میں نہیں بولتی
جا او جھوٹی ہوا میں نہیں بولتی

چھوڑ دے میری دہلیز کو چھوڑ دے
تجھ سے کہ جو دیا، میں نہیں بولتی

مجھ سے اب میٹھے لہجے میں باتیں نہ کر
میرا دل بجھ چکا میں نہیں بولتی

مجھ کو معلوم ہے جتنی اچھی ہوں میں
اب نہ باتیں بنا میں نہیں بولتی

اب کسی چال میں مَیں نہیں آؤں گی
چاہے قسمیں اُٹھا میں نہیں بولتی

یہ جو اِک مور سا میرے آنگن میں ہے
جب نہیں بولتا میں نہیں بولتی

میرے پاؤں سے دھرتی کھسکنے لگی
جب بھی ماں نے کہا میں نہیں بولتی

پہلے اس کے لئے سب سے لڑتی پھری
پھر اسے کہ دیا میں نہیں بولتی

اب صفائی کا موقع نہ دوں گی اسے
جو ہوا سو ہوا میں نہیں بولتی
 

شمشاد

لائبریرین
وہ وقت مری جان بہت دور نہیں ہے
جب درد سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی
تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھن جائیں گے مجھ سے مرے آنسو مری آہیں

فیض احمد فیض
 

عمر سیف

محفلین
ستاروں سے کہو
اب رات بھر ہم ان سے باتیں کر نہیں سکتے
کہ ہم اب تھک گئے جاناں!
ہمیں جی بھر کے سونا ہے
کسی کا راستہ تکنے کا یارا بھی نہیں ہم کو
مسافر آگیا تو ٹھیک ہے لیکن،
نہیں آتا تو نہ آئے
ان آنکھوں میں ذرا بھی روشنی باقی نہیں شاید
وگرنہ تیرگی ہم کو یوں گھیرے میں نہیں لیتی
مگر یہ سب،
ازل سے لکھ دیا تھا لکھنے والے نے
ستاروں سے کہو، بہتر ہے ہم کو بھول ہی جائیں
ہمیں آرام کرنا ہے
ضروری کام کرنا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
آگیا آج وہ زمانہ بھی
کفر ٹھہرا ہے دل لگانا بھی

جس کو ہم آسمان کہتے تھے
پھٹ گیا ہے وہ شامیانہ بھی

دیکھ کر تو یقیں نہیں آتا
بند ہوگا یہ کارخانہ بھی

احمد فواد​
 

فاتح

لائبریرین
میں نہیں بولتی۔۔۔ یہ کس کی غزل ہے؟

کھڑکیاں مت بجا میں نہیں بولتی
جا او جھوٹی ہوا میں نہیں بولتی

چھوڑ دے میری دہلیز کو چھوڑ دے
تجھ سے کہ جو دیا، میں نہیں بولتی

مجھ سے اب میٹھے لہجے میں باتیں نہ کر
میرا دل بجھ چکا میں نہیں بولتی

مجھ کو معلوم ہے جتنی اچھی ہوں میں
اب نہ باتیں بنا میں نہیں بولتی

اب کسی چال میں مَیں نہیں آؤں گی
چاہے قسمیں اُٹھا میں نہیں بولتی

یہ جو اِک مور سا میرے آنگن میں ہے
جب نہیں بولتا میں نہیں بولتی

میرے پاؤں سے دھرتی کھسکنے لگی
جب بھی ماں نے کہا میں نہیں بولتی

پہلے اس کے لئے سب سے لڑتی پھری
پھر اسے کہ دیا میں نہیں بولتی

اب صفائی کا موقع نہ دوں گی اسے
جو ہوا سو ہوا میں نہیں بولتی

بہت ہی سادہ مگر انتہائی خوبصورت انداز میں جذبات کا اظہار ہے لیکن یہ غزل کس شاعرہ کی ہے؟
 

ہما

محفلین
سفر

بارش کا اک قطرہ آ کر
میری پلک سے اُلجھا
اور آنکھوں میں‌ڈوب گیا۔۔۔۔


پروین شاکر
 

ہما

محفلین
چاند مری کھڑکی ميں آئے



چاند کبھی تو تاروں کی اس بھيڑ سے نکلے

اور مری کھڑکی ميں آئے

بالکل تنہا اور اکيلا

ميں اس کو باہوں ميں بھرلوں

ايک ہی سانس میں سب کی سب وہ باتيں کرلوں

جو ميرے تالو سے چمٹی

دل ميں سمٹی رہتی ہيں

سب کچھ ايسے ہی ہوجائے جب ہے نا

چاند مری کھڑکی ميں آئے، تب ہے نا

امجد اسلام امجد
 

ہما

محفلین

محبت کے موسم

زمانے کے سب موسموں سے نرالے

بہار و خزاں ان کی سب سے جدا

الگ ان کو سوکھا الگ ہے گھٹا

محبت کے خطے کی آب و ہوا

ماورا ان عناصر سے جو

موسموں کے تغير کی بنياد ہيں

يہ زمان و مکاں کے کم و بيش سے

ايسے آزاد ہيں

جيسے صبحِ ا زل۔۔۔جيسے شامِ فنا

شب و روز عالم کے احکام کو

يہ محبت کے موسم نہيں مانتے

زندگی کی مسافت کے انجام کو

يہ محبت کے موسم نہيں مانتے

رفاقت کی خوشبو سے خالی ہو جو

يہ کوئی ايسا منظر نہيں ديکھتے

وفا کے علاوہ کسی کلام کو

يہ محبت کے موسم نہيں مانتے

امجد اسلام امجد
 

فاتح

لائبریرین
اے شریف انسانو!

گو کہ یہ نظم ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے پس منظر میں لکھی گئی اور معاہدہ تاشقند کے موقع پر نشر کی گئی لیکن جب تک اس کا مقصد پورا نہیں ہوتا یہ تازہ ہی رہے گی۔
اے شریف انسانو
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میّتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لئے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

(2)

برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے

جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدانِ کشت وخوں ہی نہیں
حاصلِ زندگی خِرد بھی ہے
حاصلِ زندگی جنوں ہی نہیں

آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں

جنگ، وحشت سے بربریّت سے
امن، تہذیب و ارتقا کے لئے
جنگ، مرگ آفریں سیاست سے
امن، انسان کی بقا کے لئے

جنگ، افلاس اور غلامی سے
امن، بہتر نظام کی خاطر
جنگ، بھٹکی ہوئی قیادت سے
امن، بے بس عوام کی خاطر

جنگ، سرمائے کے تسلّط سے
امن، جمہور کی خوشی کے لئے
جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن، پُر امن زندگی کے لئے

(ساحر لدھیانوی)​
 
Top