میری پسندیدہ غزل

مثل نگیں جو ہم سے ہوا کام رہ گیا
ہم رو سیاہ جاتے رہے نام رہ گیا
یارب یہ دل ہے یا کوئی مہماں سرائے ہے
غم رہ گیا کبھو کبھو آرام رہ گیا
ساقی مرے بھی دل کی طرف ٹک نگاہ کر
لب تشنہ تیری بزم میں یہ جام رہ گیا
سو بار سوز عشق نے دی آگ پر ہنوز
دل وہ کباب تھا کہ جگر خام رہ گیا
ہم کب کے چل بسے تھے پر اے مژدہ وصال
کچھ آج ہوتے ہوتے سر انجام رہ گیا
مدت سے وہ تپاک تو موقوف ہو گئے
اب گاہ گاہ بوسہ بہ پیغام رہ گیا
از بس کہ ہم نے حرف دوئی کا اٹھا دیا
ای درد اپنے وقت میں ایہام رہ گیا

خواجہ میر درد دہلوی
 
Top