سوچ کا سفر

نور وجدان

لائبریرین
عشق مشک دی خوشبو !ھو!
عشق تے عطر ہن رلن! ھو!
عشق کستوری توں ودھ کے! ھو!
عشق گلُ گلُ لبیندا !ھو!
عشق عاشق نوں سجیندا! ھو!
عشق رفعت دی نشانی! ھو!
عشق سچی ذات دی کہانی! ھو!
ایڈا عطر بازاروں لبدا نہیں!
جیہڑا انہوں لا لوے
ہوش خود دا رہندا نئیں
عشق پردیس کٹن دا نم ہے
درد نوں سینا کٹھن کم ہے

جنگل میں دُور دُور چلی جارہی ہوں ۔مستی مجھے گھُمائے جارہی ہے ۔ میں البیلی حسینہ ہوں ، اپنے راہ چلے جارہی ہوں ۔ میں چلتے چلتے ہنستی جارہی ہے ۔ میں عشق کی مستی میں گھومے جارہی ہے ! رنگ و بُو کی محفل سجنے جارہی ہے ! میں گھومے جارہی ہوں ، میں جھومے جارہی ہوں ! میں مستی میں چلتی جارہی ہوں ! صبا کے جھونکے مجھے سلام کہتے ہیں ! میں ان کو دیکھ کے مسکرا دیتی ہوں ! میں یونہی ہنستی مسکراتی چلی جارہی ہوں ! میرے آگے خانہ کعبہ ہے میں اُسے دیکھ کے رک سی جاتی ہوں ! میں جنگل میں کعبہ کے آگے سجدہ کرتی ہوں ! میں خود کو خود میں سجدہ کرتی ہوں ! میرے اندر ایک کعبہ ہے ! اس کو سجدہ کیے جارہی ہوں ! نماز عشق نے ہوش و حواس فنا کردیے ہیں ۔ عشق کی مٹھاس انگ انگ میں گھسے جارہی ہے ! یہ نور محمد صلی علیہ والہ وسلم کا ٹھنڈا ٹھنڈا احساس ہے جو رگ و پے میں سرائیت کیے ہوئے ہے ! میں عشق کی مستی میں گھومے جارہی ہوں ! رنگ و بُو کی محفل سجنے جارہی ہے ! میں جنگل جنگل گُھوم رہی ہوں !

پُھول میرا ہاتھ میں دیا گیا ہے ! یہ خاص پھول ہے جس کے عطر سے کستوری کی مہک آتی ہے ! مہک میں نے کبھی محسوس نہیں کی مگر آج تو محسوس ہو رہی ہے !

عشق نے عنبر کردیا
مجھے خود میں عطر کردیا
جذب عطائی ربی ہے
عشق کی ازلی نشانی ہے
وہ کشش کا اصل منبع
مل رہا ہے نور کو نفع
رنگ و نور سے سینہ بھرا
ہر روح کا محل دِل میں بنا
ِدل جگمگ تارہ نگینوں کا!
حقیقت کو جو بھی پائے گا
چھوڑ جھگڑوں کو پیار کمائے گا
آج رنگ کی محفل لاگے ہے
سبھی چشمے مجھے میں بہے ہیں
رنگوں نے دل کو سجا ڈالا ہے
روح کو اپنے یار سے ملا دیا ہے

روح میری بہت تڑپتی رہی جب اصل سے جدا ہوئی تھی ۔ یہ بہت پیاسی ہے ! اپنے اصل کی طرف لوٹ کے جانا چاہتی تھی ! بڑا عرصہ گزرگیا ،لگے کہ میں ہی گزر گئی ! ناجانے کیسے مجھ پر کرم ہوگیا ! مجھے اپنے وطن کے لوگ نظر آرہے ہیں ! جب میں ان کو دیکھتی ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ آج رنگ و نور کی برسات ہے ! یہ احساس کہ میرے دِل میں اندھیرے غار کو روشن کرنے کے لیے ایک اینٹ سرکا دی گئی ہے اب اندر ہلکی ہلکی روشنی ہے ! اک دن ایسا بھی آنا ہے کہ جس دن سارا نور و نور ہوجانا ہے ! غار کا دَہانہ ہٹا دیا گیا اب کہ محسوس ہوتا کہ پہاڑوں پر قندیل رکھی گئی ہے جس سے ہلکا ہلکا دُھواں کسی چھوٹے سے سوراخ سے نِکل رہا ہے ! یہ دُھواں اوپر کی جانب اُٹھ رہا ہے مجھے لگے کہ یہ قندیل میرا دِل ہے ! اگربتی کی خواہش ہمیشہ رہی کہ میں خود میں اگربتی ہوتی اور اس میں جلتی رہتی اور خُوشبو دیتی رہتی مگر کیا معلوم تھا ! کیا معلوم تھا ! کیا معلوم تھا میرا اپنا دِل خوشبوؤں کا مسکن بنا دیا جائے گا ! میری ذات عِطر عِطر کر دی جائے گی !

عشق دی بوٹی رچ مچ گئی اے میرے اندر
پنڈا اندروں ایویں ہلدا جیوں پتر ہلدےہوا نال
ایس عشق دا بالن جدوں اندر اے بلدا
میرا رواں رواں ایدھے نال اے بلدا
ہر ویلے تسبیح عشق دی پڑھیندی آں
مرشد مرا عشق اے سچا کہندی آں
دیوا عشق تیرے دا خورے میرے اندر بلدا
سب نوں لگدا نوراے میرے لفظاں توں ڈلڈا
قران تیرا جد لایا سینے نال
لگیا نور مدینے دا سینے نال
نال نگاہ دے دل میرا رنگیا ای
تجلی ہکوں نالوں سینہ مدینہ کیتا ای
جھلی بن تیری ہن نگر نگر پھردی آں
نور ہن کدی نہ چھٹے اے در کہندی آں

 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
رنگ سرمایہ حیات
رنگ سرمایہ حیات
ان سے میرا وجود
ان کے بغیر کیا نمود
یہ میری بقا
یہ میری حیا
میرے رنگ
میرے سنگ
چلتے چلتے
لے اڑے ۔۔۔!
اب کہاں جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟


یہ جو بکھرے چار سو نیلے پیلے ، سبر ، سرخ نظر آتے ہیں ، ان میں یار جلوہ گر ہے.اس نے خود کو رنگوں میں تقسیم کردیا .......... وہ کیسی ذات عظیم جس کی تقسیم سب سے نرالی ہے . جس کی عطا بھی نرالی ہے . کہیں پیلا تو کہیں نیلا رنگ اپنی قدرت سے دیتا ہے تو کہیں سرخی میں بندے کو سجا سرشار کرتا ہے .......... پرواز کیسے کروں َ؟ اس کی سمت کیسے چلوں ...

''کہاں کہاں چلی ہو ، کہاں کہاں رکی ہو،
جہاں سے تم چلی ہو، وہیں پہ ملی ہو،
جہاں پر تم رکی ہو ، وہیں جی اٹھی ہو،
جہاں ہستیِ کائنات رنگ دی گئی،
وہاں وہاں تری ذات بھی بٹی ہے،
مہد سے لحد تک ،لحد سے حشر تک،
تیرا نام ازل سے نور لکھا گیا ہے،
یہ رنگ کی دولت کہاں کسے ملے،
جسے ملے وہی اس جہاں میں چلے،
صنم تراش سبھی حیرت کناں ہیں،
تجھے اس نے کچھ ایسے رنگوں سے چنا،
یہ کہا ! وہ کہا ! کیا کہا اور کیا نہ کہا،
بس نہ ہوا وہ جو اس نے چاہا نہیں ہے''


یہ اپنے نصیب کی بارشیں ہیں،
جہاں جہاں ملیں بنٹتی جائیں ہیں،
یہ روشنیوں کے ستم بھی عجب ہوئے،
خود سے خود ملے ، خود سے خود بچھڑے،
ہماری شان میں دو ہیرے کے پتھر،
ہماری اوقات میں دنیا کے کیا چکر،
ہم رہے اس شہر کے قدیم باسی،
ذرہ ذرہ ، روح روح ہے پیاسی،
یہ دشت ، یہ صحرا ، نگر نگر تلاش،
جہاں چلے وہیں جلے ، وہیں کھلے،
زمین میں ہیں اس کائنات کے دفینے،
فلک کو ہم ڈھونڈنے چلے تھے خزینے،
میں اس کی روح کی روح ہوں،
جس سے نکل ہر روح پیاسی ہے!
میں تابشِ ہستی کی اصل نشانی،
پھیلنے لگی ہے اسی نور کی کہانی،
یہ شمع ، یہ مشعل ، یہ موم کا جلنا،
کہاں کہاں نہیں اس سے کام چلنا،
ستارہ ہستی ، نورِی نشانی کی شعلہ بیانی،
جل رہی اس سے موجوں کی طولانی،

منزل ہر کس و ناکس کو مل جاتی ہے ،مجھے منزل ملے گی کیونکہ میں خود منزل ہوں ، میں خود ہی پڑاؤ ہوں ، میں خود ہی قافلہ ہوں ، میں خود پیادہ ہوں ،میں خود قاصد ہوں ، میں خود سکندر ہوں ، میں خود قلندر ہوں ، میں صحرا کی باسی ، میں جنگل ہوں ، پربت ........ منزل ملنا بھی تصور ہے ، پڑاؤ بھی تصور ہے ، کائنات کی ہر شے تصور ہے ،میری ہستی خود میں ایک تصور ہے .اس حقیقت کا اندازہ ہوتے ہی ایسی چیخ دوں کہ میری ہستی کے کاغذے رشتے مجھ سے جدا ہوجائیں ...میں ان کو الوادع کہتے اپنے نور سے مل جاؤں ..........میری زندگی کی منزل کا تصور یہ بھی نہیں ہے ،میں اصل میں وہی ہے .میں خود ہی حق ہوں ہوں ، میں خود ہی واحد ہوں ،میں خالص ہوں تو میں نے سورہ اخلاص مکمل کرلی .............اس کی روح میں خود ہی ہوں .......میں اب کیا نہ جانوں میں کون ہوں ؟ بڑی دیر سے یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ میں کون ہوں .........آج عیاں حقیقت اس طرز سے ہوئی ، ہستی خاک ہوجائے یہ تمنا ہوئی مگر تمنا کا تصور ہی لا حاصل ہے .....وہی تمنا کے بنا ہے ، اس کو حاجت نہیں ہے مگر اس نے تمنا کا کھیل رچایا ، کسی کو پیادہ تو کسی کو قاصد بنایا ، کسی کو اسفل تو کسی کو احسن بنایا ، کسی کو امیر تو کسی کو غریب بنایا ، کوئی بادشاہ تو کوئی فقیر ہوا ، کوئی سخی تو کوئی بخیل ہوا، کوئی عالم تو کوئی جاہل ہوا ، کوئی نیک تو کوئی بد ہوا ...............

تماشا ہستی کا رچا کے تماشا بنا دیا خود کو ،
تماشا بنا کے اسے جستجو تماشے کی ہے
تمنائے حاصل بھی لا حاصل سی ہے
وہی کامل ہے ، وہی خالص ہے
ظاہر کو جستجو کیوں ظاہر کی ہے
اندر کا تماشا خوب سجا دیا ہے
مجھے خود اس نے بھیدی بنادیا
میں اس کی نگر کی خوشبو ہوں
میں اس کی ندی کا کنول ہوں
میں اس کے شہر میں ویرانہ ہوں
میں اپنے ویرانے میں شہر ہوں
میں خلق میں ایک تماشا ہوں
میں اپنی ذات کا اپنا تماشا ہوں
کون جانڑے درد دیاں گلاں
کون جانڑے دکھ دیاں ضرباں
سواہ ہویاں رنج دی کی لوڑ
میرے ہتھ ہن کج ہور وی نئیں
لوکی بھجدے پچھے لوکاں دے
میرا ایس تماشے توں جوڑ کوئی نئیں
کیہڑا تماشا اے لائی بیٹھی ایں
توں کیہڑیاں گلاں دل اچ جگائے بیٹھی توں
مر مر جینا تے جینا اے مر مر کے
فیر کیوں لکدی چھپدی رہندی ایں توں

اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میرا کام رہبری ہے ، اس نے مجھ سے کہا میرا کام چاکری ہے ، اس نے مجھ سے کہا میرا کام دل لگی ہے ، اس نے مجھ سے کہا میرا کام جستجو ہے ، اس نے مجھ سے کہا میرا کام چلنا ہے .....................وہ جانے کیا کیا کہتا رہا ، میں اس کو جان گئی اور اس سے دور کھڑی اس کی باتیں سنتے سوچتی رہی کہ میں آئنہ ہوں کہ اصل یا اصل ہوں کہ آئنہ ....................! میں کون ہوں ،میں کیا ہوں .. کیا یہی قلندری ہے ؟ کیا یہی سکندری ہے؟ کیا اسمیں جوگ پالنے پڑتے ہیں ؟ کیا یہی روگی ہونا ہوتا ہے ؟ میں اس سے کھل کے خفا ہوئی کہ وہی تو میرا ہے ،اب اس سے دور نہیں جانا ، تو کیوں نہ جھگڑا کروں ؟ میری بے چینی کی انتہا ہوئی ، وہ میرے پاس تھا کیونکہ کبھی دور تھا ہی نہیں ............میں نے اس کو جانا اب ہے ، میرا رب وہی ہے کہ میں خود میں خدائی ہوں ،میں خود میں رونمائی ہوں ،میں آتش عشق کی بھڑکتی ناؤ ہوں ، میں اس کی ہوں کہ میں خود میں کچھ نہیں ہے میری جسم پر خاکی کاغذ چڑھا ہے ۔ اس کی تصنع ،ملمع اترنے میں دیر کتنی لگنی ہے ، میں اصل میں نورِ لطیف ہوں ۔ میں اصل میں اس کی حبیب ہوں کہ میں اس کی محبت میں محفوظ ہوں میں اصل میں اس کی وادی کا شوخ پرندہ ہوں ۔ میں اس کی اڑتی کرن ہوں ۔ میں اس کا ارباز ہوں ۔​

نور کا کام نور پھیلانا ہے ، نور کا کام روشنی ہے ، نور ایک الوہی چراغ ہے جس کو نور کے سینے میں رکھا گیا ہے ، اس سے اس کو سینہ کھولا گیا ہے ، اس سے نکلنے والا نور ایسا روشن ہے ، جیسے ماہتاب ....... !نور کو خود اس کی خبر ہی نہیں ہے ، اس کو جب خبر ہونی ہے ، اس کی سر کہاں اٹھنا ہے ۔ اس کی ذمہ داری کا احساس اس کو الوہی تعلیمات سے مل سکتا ہے ! نور اس کی سمجھ نہیں رکھتی ہے کہ اس نے زمانے کو اٹھانا ہے ۔اس نے پیامبری سنبھالنی ہے ، اس کےذ مے نائب کے فرائض ہیں !دلوں میں نورہے تو تقدیر میں اسفلیت کا مقام کیسے صادر ہوا......دلوں میں ہی وساوس کا جال ہے ۔ دلوں میں اس وسوسے پر یقین کامل کرنے والے اسفل ہیں ۔ یہ طاقت دراصل شیطانی ہے ۔ شیطان کی حقیقت کوئی مادی نہیں ہے بلکہ آدم کا وسوسہ شیطانی تھا جس کو القا کیا گیا ہے ، جس نے کیا اس کی شیطان کے نام سے موسوم ہے ۔​

شیطان کا کام صرف اس وسوسے کے جال کو پکڑنا ہے ، جس نے اس جال پر عقل سے گرہیں کھول دیں ، اس کا دن نور نورانی ہوگیا اور جس نے اس جال کو تقویت دی و ہ اسفل سافلین میں ہوگیا . اس لیے وساوس سے دوری کا حکم دیا گیا ، نیک و سعید روحیں روشن چراغ کی حامل ان وساوس کی گنجل کو تقویت نہیں دینے دیتی اور ایک وقت آجاتا ہے جب ان کے دل سے سب شیطانی جال ختم ہوجاتے ہیں ۔ان کا یقین کامل ہوجاتا ہے ! سوال تو یہ بنتا ہے کہ آدم علیہ سلام کا یقین کامل نہ تھا ۔ تو لوگو کامل بھی وسوسے میں آسکتا ہے ۔ اس سے کسی کو مفر نہیں ہے ، اس لیے ہر گھڑی استغفار پڑھنا ۔ توبہ مانگنا رحمان سے رابطہ رکھنا ، نیک روحوں کا وطیرہ رہا ہے ....................​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

مئے خوار کو میخانہ لایا گیا ہے
شہِ ابرار کا سوالی بنایا گیا ہے
باب العلم نے اسے تھام رکھا ہے
سیدالعشاق کے کے ساتھ چلنا ہے
حیدار کرار کی زمین پر حسین پھول
جس کی چمن، چمن نگر، نگر دھول
ان کا خون عشق حقیقی کی نشانی
تاریخ نے لکھی شاہد کی کہانی
طیبہ کی زمین پر آنکھ کھولی
ان کا چرچہ کیے یاں واں میں ہولی
تیغ وسناں میں ماہر ، خلقِ عظیم کا حامل
عاشقِ کن فکاں کی ہستی ہے کامل
نور نے ان کے ہاتھ بیعت کر رکھی ہے
ان سے عشق کی خلقت لے رکھی ہے
محسنِ ہستی پیار کرنے کے ہیں قائل
بھیجتے نہیں سوالی کو بنا کے سائل
ان کے ہمراہ کربل کے میدان چلی
گلاب کی خوشبو ان کے فیضان سے ملی
کھلا چمنِ بہاراں میں اک اک پھول
دہن پھول ، لب پھول ، دل پھول
حسینؑ میرے دل کی کائنات ہیں
لا الہ اللہ کی سلطنت پر تعینات ہیں
حسین علم و الم کی حکمت ہیں
حسینؑ لا الہ اللہ کی شہادت ہیں
ان کی باتوں میں چھپی روایت ہے
ان کا حلم ، علم ، قلم عبادت ہے
خاکِ حسینؑ خود میں طبیب ہے
خاکِ حسینؑ عشق کی تشبیب ہے
حسینؑ ، حسنؑ علی کے چمن کے لالہ زار
جن سے نکلے عیسیؑ، موسیؑ جیسے بار بار
حسنؑ نورِ حقیقی کی جمالی نشانی
حسینؑ نور حقیقی کی جلالی نشانی
علیؑ نورِ یزدانی کی مکمل کہانی
فاطمہ ؑ کا نورانی سارا گھرانہ
ان سے پایا عالم نے دانا دانا
محمد ان شہسواروں کے سردار
محمد غمخواروں کے ہوئے میخوار
محمد سے دین الہی ہوا مکمل
محمد خلق حسنہ کی نشانیِ اکمل
اللہ ھو اللہ ھو اللہ اللہ ھو
اللہ ھو اللہ اللہ ھو اللہ ھو اللہ
ھو کی سدا دل نے لگا دی
ھو نے دل میں دھوم مچادی
ھو مجھ میں آج بہت بول رہی ہے
ھو مجھ سے آج کچھ کہ رہی ہے
ھو کی محبت سے میں لکھ رہی ہوں
ھو کی حکمت کہ میں یا ھو ! یاھو !
اللہ ! اللہ کیا کمال کردیا ہے
اللہ ! اللہ ! مجھے مست حال کردیا ہے
اللہ ! اللہ ! مجھے شوخ و چنگ کردیا ہے !
اللہ ! اللہ ! ساز سخت کردیا ہے
اللہ ! اللہ ! میں تیری تلاش میں نکلی
اللہ ! اللہ ! میری اندر تیری شبیہ نکلی
میں تیری گمشدہ بستی بنتی گئی
میرا پتا گمشدگی لکھتی گئی
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں
میں تیرے دم سے ہوں ،میں تیرا ساز ہوں
ایک جام میں مکمل میخانہ تھما دیا
میخانے کو پھر نیا جام پلا دیا
ایک جام کی نشانی حسینؑ سے ملی
ایک جام کی نشانی حسنؑ سے ملی
ایک جام ؑعلی کے دم سے ملا ہے
اک جام جہاں محمد نے دینا ہے
ان کے در سے در نہ چھوٹے گا میرا
محمد کے در پر کاسہ تھامے کھڑی
ان کی سوالی سنا رہی قوالی
مجھے دیکھ کے وہ مسکرا دیے
!بولے ! کیا ہے تیری مست حالی
تنگیِ حال پر کیا کیا شوخیاں اپنالیں
ان کی مسکراہٹ سے دل کے غنچے کھلے
چمن در چمن خوشبو کی جھونکے ملے
ان کی خوشبو ابر بن کے برس رہی ہے
ان کی محبت سے نور مہک رہی ہے
وہ پیارے شہ ابرار ، میرے مرشد حق ہیں
وہ پیار مئے خوار ، میرے غم خوار ہیں
وہ پیارے شہسوار ، حسین کے نانا ہیں
وہ پیارے شہسوار فاطمہ کے بابا ہیں
صدیق کو ان کے دم سے ملے کاسہ
وہ کاسہ جہاں کے دے رہا آسرا
محمد کی حیا کا عکس عثمان کو ملا
محمد کے جلال کا آئنہ عمر میں پایا
علی نے آپ سے علم کا کاسہ پایا
عشقِ اویس کی شہادت محمد نے دی
بلال کی محبت سے زمانہ ہوا گھائل
حمزہ نے دلوں میں گھر بنا لیے
عضو عضو سے سینکڑوں گواہ بنا لیے
آئنہ ساز ہستی اصحاب کو ملی
ہر آئنہ خود میں اپنا اصل نکلا
عباس نے علم کی دستار سنبھالی
عمار نے فقر میں شہنشاہی کی
زید نے بیٹے کی نشت سنبھالی
غلامی سے کیسی فضیلیت پالی
محمد کے غلاموں کا شمار نہیں
ان کا یاروں سا کوئی یار نہیں
آزادی کا پروانہ غلامی کے سر کیا
جو آپ کی صحبت میں ہوکے رہ گیا​
 

نور وجدان

لائبریرین

ہوا کا سندیسہ

cleardot.gif
ہوا کا سندیسہ مجھے ملا ہے ابھی ابھی ...میری کانوں میں آکے سرگوشی کی ہے کہ نور اٹھ جا! تجھے تیرے محبوب نے یاد کیا ہے. میں ہوا کے دوش پہ اڑتی اڑتی جاؤں ...خود سے لڑتی لڑتی جاؤں ..میں ہنستی ہنستی جاؤں.... یار نے بلایا ہے کیا تحفہ دوں؟ ارے جلدی کرو، وضو کرو! ارے اٹھو نماز پڑھو! اڑے اٹھو اظہار کرو! اڑے شراب پیو! ارے ارے میخانہ.چلو! ارے ارے! چلو مل کے عید منائیں ..عید کے لیے بلا رہا ہے ...آج بڑی شان کی محفل لگی ہے. آج بڑے بڑے لوگ اس کی جانب سے مجھے ملیں گے ...مجھے نئی نئی سواری ملی ہے. میں شاہِ ہادی کی شہسوار ہوں .. ...خود کو سنوار نور! آئنہ دیکھ نا! گالی پہ لالی کدھر گئی! ہونٹوں پہ سرخی بڑھا دے! گلے کی مالا پہن لے! چنری اوڑھ! میری کوئل گھوم گھوم لہک لہک چل میرے پاس آ! اٹھلا اٹھلا کے ہوا کے دوش پہ اڑتی اڑتی آ ....​
میں نے اس کے پاس جانا تھا .... خوشبو لگآئی، مشک و عنبر سے خود کو سجایا ... گلاب کی مالا گلے میں پہنی اور گل دستہ لیے کے اس کے پاس جانے لگی. ہوا نے پوچھا!!! کیسا یار ہے وہ جس کے سنگت نے تن من مہکا دیا ہے...میں شوخی میں گھومتی جارہی ہوں جیسے زمین اپنے محور کے گرد گھومے جائے ہے....یونہی.گھومے گھومے اس کے پاس جا رہی ہوں ، مجھے اس نے کہکشاں بنا دیا ہے۔ میں ستاروں سے اونچی چلی ...میں عطر کا سمندر ہوں ،میں گلاب کا دریا ہوں، میں مشک کا سمندر ہوں، میں اک قلندر ہوں . عطر کا لباس پہنا ہے ،اس کو لوبان کی دھونی سے گلاب کے پھول سجاتی رہی، بعد اس کے عطر کی بارش کی اور مشک سے نہاتی رہی ...اب میں چلی چلی! یارو! میں چلی چلی! لوگو !دل کی کھلی کلی! او میں چلی چلی! دل کی کھلی کلی! دل میرا جنگل کی مانند ہے جس کا پتا پتا ھو ھو کی صدا دیتا ہے۔ آج پتھر مجھے سجدہ کر رہے ہیں کیونکہ میں یار کے پاس چلی ... پتا پتا میرا گواہ ہو رہا ہے بوٹا بوٹا مجھے چھونا چاہتا ہے کہ یار کو جا کے ان کا سلام کہ دوں ...میں میں کہتی ہوں اس سے ..سلام قبول کرلے نا! وہ کہتا ہے کہ آنے میں دیر کیوں؟ میاں کہتی ہوں اس سے اظہار میں جلدی کیوں؟ وہ کہتا عشق کی بازی کھیلیں؟ میں کہتی ہوں مجھ سے پوچھا کیوں؟ وہ کہتا ہے کہ میں ا”آج اچھا رقص کر رہی ہوں اس کو بھی لطف میرے رقص سے ملا ہے​
وہ کہتا ہے میرے حیدر سے ملاقات نہیں ہوئی ؟ اس جیسا جہاں میں کون ہے! .میرے حیدر نے تجھے دیکھا ہے! وہ کہتا ہے یہ تو کملی ہو گئی ہے ..میں نے کہا مالک! ہائے یہ کیا کردیا مجھے مست کر دیا ...

اے امت کے شیر! اے جوانوں کے شہسوار! اے علی! اے میرے دل! اے میخانہ ضوفشان! اے حجاز کی خاک عظیم! اے حیدر اے کرار! اے مجتبی! اے مرتضی! اے علی! اے میری جان! السلام علیکم یا سیدی! السلام علیکم یا حیدر! السلام علیکم یا ہاشم! السلام علیکم اے امین الامین! السلام اے شمع ہدایت! السلام علیکم اے شہنشاہ فقر! اسلام اے کوثر کے امین! السلام علیکم اے نبی کریم کے بھائی! السلام علیکم یا عالی سرور ..........
وہ بولے نور بڑی دلیر ہے، بہت زبان چلتی ہے .عشق کی بازی کھیلیں! میں کہتی ہوں کہ عالی جناب کیسا پوچھنا! وہ خدام سے کہتے اسے لے جاؤ ابھی مستی میں ہے اسے لے جاؤ، ابھی مست ہے، اسے اک جام اور پلاؤ ..میخانہ بناؤ پھر میرے پاس لاؤ ... میں اڑتی اڑتی چلی! میں چلی کہ گمان خوشیِ مرگ کا ہے ۔ فلک حیران ہوا کہ اتنی گردش اج تک کسی عاشق نے نہ کی. عرش پہ بیٹھے مالک کی رحمت جوش میں آگئی اور بولے میرے شیر اس کا سینہ عشق کی سوزش سے جل گیا !
حیدر کرار نے مالک سے عرض کی!
مالک جو تو نے کہا کہ تو کن فکان ہستی ہے ۔ میں بھی تیرا امر ہوں!
خدام! نور کو لاؤ! خدام اس کو سمجھاؤ! خدام اس کو بتاؤ حیدری میخانے کے آداب!
خدام نور کے حیدر کرار کے سامنے لاتے ہیں ...
میں مودب جھکی ہوئ ہوں. دل.سے آہیں نکل رہی ہیں شمع جل.رہی ہے. مجھے دیکھ کے حیدر مسکرا اٹھے!
میری حیا سے وہ فرما اٹھے کہ لے جاؤ اس کی فاطمہ کے پاس! اس سے سلام و دعا کراؤ .بہت عشق ہے اس سے!
سلام میرے دل کی مکین! بہت دل لگا ہے آپ سے! جب سے پیدا ہوئی اپ کی بہت یاد آئی!
اپ کی جانب روح کھینچی کھینچی چلی آئ! سوچا کرتی تھی کہ آپ کیسی ہوں گی. سوچا کہ آپ کیسی ہیں!
سوچا تھا جس طرح کی حیا آپ نے پائ ہے اس پر چلنا ہے! آج تک اس کو نبھا رہی ہوں مجھے اپنے سینے سے لگا لیں!
اس کو ٹھنڈا کردیں! میرا درد جان لیں! وہ غم خوار عشق! وہ نرم خو! وہ عالی دماغ! وہ حیا و شوق کی سردار!
وہ عشق کی ہستی کا مکمل.باب! وہ میری جان! وہ میرا پیار! ان کے قدموں میں جھکی ہوں کہ وہ بڑھیں مجھے اپنے ساتھ لگا لیا ہائے! نور کا وہ مقام نور سراپا! نور چمن! نور پھول! نور مستان! نور کا دل اڑے اڑے جائے!
کیسی بڑی ذات نے مجھے ساتھ لگا لیا! بڑی دیر سے لگایا مگر لگایا ..دل کے اندر علم کے سوتے کھلنے لگے!
جناب علی بیٹھے مسکرانے لگے کہ بڑی عاشق ہے! عشق میں جل جل کے.پاس آئی! اس کی تواضع کر دیجیے! ارررررے!
اس سے بڑھ کے تواضع کیا ہو ا!!! ارررررے میں ان کی خدمت کرلوں ،اس سے بڑھ کے تواضع کیا ہو!
مجھے اپنی خدمت میں لے لیں! قسم سے! قسم سے اپ کی خدمت کی خواہش لے کے پیدا ہوئی..
. آپ سے ملنا میری.سب سے بڑی خواہش! وہ بولی سعدیہ! وہ بولی نور سعدیہ! اتنا پیارا نام ہے! اس نام کے طریقے پر چلنا! نور اس نے تمھیں مقرر کیا ہے خدمت پر ....کیا چاہیے! میں نے کہا آپ کی صحبت! سید العشاق سے ملنے کی تڑپ ہے.
اپنے سردار بیٹے سے ملا دیں! اک دفعہ ان کو دیکھنا چاہتی ہوں! وہ بولیں نور باؤلی ہو چلی! آج اس کو نیا نیا عطر ملا ہے!
وہ بولیں نور کیا پیو گی! کونسا شربت پسند! میں بولی جس میں حسین کے عشق مئے ہو ،حیدری جام ہو!
وہ بولیں نور خدمت کیا کر، اتنی جلدی کیا! ہوا کے دوش پہ کیوں سوار ہو! میں اڑتی اڑتی چلی! میں اڑتی اڑتی چلی!
مجھے شوخی نے چھیڑا دیا! میں ہوا کے دوش شوخی میں اڑ رہی! میں اڑتی جا ری ہوں! میں نے امت کی سب سے با حیا خاتون کے ہاتھ کو پیشانی پہ رکھا اور چوم کے کہا اس سے بڑی نعمت کیا کم ہے آپ کے پاس ہوں ۔ وہ مسکراتے کھل سی اٹھیں! کہنے لگیں! نئی نئی میخوار بنی ہو ... اس لیے سنبھالی نہیں جا رہی! جتنا ہو درود پڑھا کرو! سب کام چل جائے گا!
صلوۃ اور درود کو اپنا لو ..خوشبو ،عطر کی مستی با ادب رکھے گی! محفل کے آداب مل جائیں گے!
میرا دل کی شوخی کو جھٹکا لاگے کہ ان کے آگے جھکی ادب سے ہوں تو فرمانی لگیں!
یہ مئے عام نہیں ہے یہ ہوش سے بیگانہ کر دیتی ہے اس لیے اس کو سنبھال.سنبھال.پینا.اچھا!
اس کو سنبھال کے درود سے پیا جاتا ہے! میں نے کہا آپ تو بالکل.ویسی ہیں جیسے میں نے اپ کو دیکھ رکھا تھا ۔آپ کی مسکراہٹ سے روشنی ملی ہے وہ کہتی ہیں کہ نور چل کام تو شروع کر! میں کہتی ہوں
اے سلطنت عشق کی ملکہ! اے ہم نشیں! جو کہیں! وہ ہی کرنا ہے ۔حکم کیجیے سر گردن سے اتار دوں!
وہ بولیں نور بڑی پر جوش ہے کچھ ہوش سیکھ لے! کام بن جائے گا! میں نے کہا کہ یہ کیا کم آپ ملی ہیں، یہ کیا کم ہے آرزو پوری ہوئی! میں نے کہا اے میرا دل!
اے سیدہ خاتونِ جنت! اے حریم ناز! اے سراپا.وفا! آپ جو کہیں وہ ہی ہوگا!
وہ بولیں کہ ابھی درود اپنا لو .... میرا رب سید الانبیاء پر درود بھیجتا ہے! اس کا ذکر سے اپنا ذکر ملا لو ..!
میں نے کہا کہ محفل اور چلا لیں بڑی شدت سے چاہ تھی آپ سے ملوں! میں نے تو ابھی ان کو جی بھر کے دیکھا ہی نہیں! وہ بولیں محفلیں بھی خوب سجیں گی!
سب ارمان دل کے پورے ہوں گے پہلے اس سلطنت کے آداب سیکھ لو! ابھی نئی ہو غلطی کا احتمال نہ ہو! میں نے کہا مجھے خود سے جدا نہیں کیجیے! آپ سے دوری نے دل خون و خون کر دیا! وہ میرے سینے پر ہاتھ رکھتی ہیں دل کے سب زخم مندمل ہونے لگے ۔ دل نے بڑے ادب سے کہا! اے فاطمہ! اے ام ابیھا! اے شہِ ابرار سے عالی نسبت والی! اے علی کے گھر والی! اے حسین سے تاجدار کی مامتا والی! اے حسن کو علم دینے والی! السلام! السلام! السلام! السلام! السلام! السلام! السلام! السلام! السلام!​
خاتون جنت نے سب زخم مندمل کردے​
ان کی شفاعت نے صحرا جل تھل کردے​
ان کی نظر نے سب بند دل کے کھول دیے​
ان کی جمال نے لطافت کے نئے باب رقم کر دیے​
سلطنت عشق کی تاجدار!​
سلطنت عشق کی مے خوار​
سلطنت عشق کو دی ہے بقا​
بقا کے سفر میں ذات کی فنا​
ان سے ملتی رہی نور کو حیا​
وہ علم و حلم کا مکمل پیکر ہیں​
وہ عفیفہ، پاکبازی میں مریم ہیں​
ان سا شہِ کونین کی سلطنت میں کہاں
ان کی خدمت میں سلام پیش کیے جارہی ہوں​
 

نور وجدان

لائبریرین
الَّهمّ صَلِّی علي محمّدٍ و علي آلِ محمّدِ كَما صَلِّيًتَ علي اِبًراهيِم و علي آلِ اِبًراهيِم اِنَّك حميِد‘ مجيِدِ اَللَّهمّ بارِك علي محمّدٍ و علي آلِ محمّدٍ كَما باركتَ علي اِبًراهيِم و علي آلِ اِبًراهيِم اِنَّك حميِد‘ مجيِدٍ

سلام پنجتن پاک !

سلام میرے آقا کریم !اے نور خدا ! اے مجتبی ! اے مصطفی ! مدحت کا ہوکیسے بیان !
اے میرے آقا ! اے آقا میرے حیبب ! آپ پر کڑوڑوں درود !اے سردار اہل بیعت !
اے سردار قریش ! اے سردار الانبیاء ! اے خاتم الانبیاء ! اے صادق ! اے امین !
اے مزمل ! اے مدثر ! اے یسین ! اے طہ ! اے جمالِ عالی ! اے آئنہ ساز ہستی ! اے ہادیِ برحق !
اے میرے کبریاء ! اے دو جہاں کی رحمت ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ۔۔
فان تولو فقل حسبی اللہ لا الہ الا اللہ ھو علیہ توکلت ھو رب العرش العظیم


روح کی نشانی اس کلمے کے ساتھ جڑی ہے ! مجھے اس کلمے میں آپ صلی علیہ والہ وسلم کا مکمل عکس نظر آتا ہے ! یہ کلمہ آسمان کے بلند ترین کلموں میں سے ہے ۔ آپ مجھے مجھ سے بڑھ کے عزیز ہیں ! میں آپ کی محبت اور اپنے مالک پر توکل میرا راستہ ہے ۔ جب یہ کلمہ مجھے عطا ہوا تو روح کے سوتے کھل اٹھے مجھے محسوس ہوا کہ نور کا دِل مکمل نوری ہالے میں لپٹا ہوا ہے ! آپ کی نظر سے اس کلمے کی روشنی نے مجھے نئی زندگی عطا کی !

اے میرے شاہا ! اے میرے دلِ اے میری جان ! آپ پر سلام ! آپ کے روضے پر کھڑے میرے سلام !
جبل نور پر کھڑے آپ کو میرا سلام ! اس مبارک محفل میں کھڑے میرا سلام !
سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام ! سلام یا حق ! سلام اے نور علی نور ! سلام اے عالی ! سلام اے ذی وقار !
سلام اے دو جہاں کے شیش نگر بنانے والے ! سلام ! سلام ! سلام اے خالص عبد !
سلام اے وجہِ بشر تخلیق ! سلام اے ہادی برحق ! سلام اے ظلمتیں مٹانے والے ! سلام اے علی کے نسبتی برادر !
سلام اے حسین کے نانا !سلام اے زین العابدین کے جد !
سلام اے غمخوراوں کے میخوار ! سلام اے عالی نسب ! سلام اے یسین ! سلام اے یسین !
سلام اے معراج کی رفعتوں والے ! سلام اے حسن جیسے شاہ کے نانا !سلام اے میرے آقا ! سلام میرے ہادی !
آپ کے ہاتھ پر میری بیعت ! سلام اے وجہ بشر تخلیق ! سلام اے لا الہ الا اللہ کی تصویر !
سلام اے حق کی تمجید ! سلام اے حق کی تلوار ! سلام اے صادق !
میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے میرا دل آپ نے تھاما ہے ! سلام ! سلام ! اے ذی دو وقار !
سلام اے شیش محل بنانے والے ! سلام دو جہانوں کے سردار ! سلام یا شافعی محشر !
سلام یا ساقی کوثر ! سلام ! سلام ! آپ کے در پر کھڑے کھڑے سلام !
سلام اے نبیوں کے امام ! سلام اے محبوبِ خُدا۔۔۔ اللہ اپنے نبی پر درود و سلام تحفہ بھیجتا ہے!
اے جد الحسینی !آپ پر لاکھوں درود !اے شافع المذنبین ! اے راحت العاشقین !
اے سراج سالکین ! اے انیس الغریبین ! اے رحمت العالمین !
آپ پر لاکھوں کڑوڑوں دردو !

محفل سجنے کو چلی ہے
شمع جلنے چلی ہے
محفل سج کے لگی رہے گی
شمع جل کے جلتی رہے گی

اے خاتم الانبیاء آپ پر کڑوڑوں درود !اے میرے ہادی ! بڑی دیر ہوگئی ! اب تو قدموں میں بلالیجئے !
سینہ مدینہ بنا دیجے! اے شافعی محشر بڑی دیر ہوگئی ! اے آقا اپنی نور کو قدموں میں بلا لو !
اے آقا اپ کی خفگی میں قبول نہیں کرسکتی ! اے آقا میری خطاؤں کو معاف کردو ! اے عفو کمال ہستی !
اے صبر بے مثال ہستی ! اے نور ازل کی تمثیل ! اے جمیل ! اے عالی نسب !
اے میرے آقا نور کا سر پر آکے قدموں میں ہے ! اے میرے آقا نور کا سر آپ کے قدموں میں ہے !
اے میرے آقا نور کا سر آپ کے قدموں میں ہے !
یہ سر تب تک آپ کے قدموں سے نہیں اٹھے گے جب تک آپ سے نوازی نہ جاؤں !
جب تک اے کبریاء جاناں ! آپ کے چہرے پر مسکراہٹ نہ درر آئے ! اے مصباح المقربین !
اے مصباح امقربین !اے دوستوں میں سورج ! اے دوستوں میں ماہتاب ! کیا ہے آپ کی آب و تاب !
بے خودی کا ملے مجھے جام ! اے سورج کی سی چمک والے ! تیری چمک سے میں چمک پاؤں گی !
خود میں ستارہ کہلاؤں گی ! اے میرے آقا ! نور کا قدموں میں سر ہے ! نور کا سر قدموں میں رہے گی !
میری رونا قبول کیسے ہو ! مجھے میری پیاری ہستی ام ابیھا نے تھام لیا ہے ! انہوں نے سینے سے لگا لیا ہے
میرے رسول کے چہرے پر مسکرا ہٹ ہے ! وہ فرما رہے ! نور میری محفل کی شان دیکھ !
میری خامشی کو ملے زبان ! میں کہوں آقا میں ترے قربان ! آقا! میں تیرے قربان !
اے آقا میں تیرے قربان !

وہ فرماتے ہیں ! فاطمہ ! اے خواتین میں عالی مقام !
نور کو ملا تمھارا سلام !
وہ فرماتی ہیں ! نور نے کیا مرا کام ! اس کو ملے انعام ! روشن ہے اس کا نام ! اس کو دے دیجئے پیغام ! اس کو ملے جن و انسان ! ان پر کرے راحت کا سامان !

میری آنکھوں سے آنسوؤں کے نشان ! میری روح پر ملاحت کے نشان ! میری بصیرت کو ملا انعام !
میں واری جاواں آقا میں واری جاؤں ! آقا میں واری جاواں ۔۔۔ ایتھے فاطمہ تے ایتھے علی نوں پاواں !
کنھیاں اکھیاں میں لاواں ! میری روح دا ذرہ ذرہ بنیا قران ! میں کیتا کیہڑیاں نال کلام ! حق ھو ! حق ! ھو ! حق ھو!
قدموں میں روشنی سے عطا کیجئے ! اے سید الخاتون جنت ! آپ کے در سے جڑا ہے ذرے ذرے کا بیان !
آپ کی رحمت میں عکس محمد ﷺ ! آپ کے عکس میں رحمت محمد ﷺ ! آپ کی مسکراہٹ میں شبیہ محمد ﷺ کی !
آپ کی مسکراہٹ میں شبیہ ہے محمد کی ﷺ ! آپ کو میرا تو سلام ! قبول کیجئے میرا سلام !
اے فاطمہ نازشِ عورت ! اے فاطمہ خاتونِ عفیفہ ! اے پاک حیاباز ! اے شرم و حیا کا پیکر !
اے تقدس میں مریم سے بڑھ کے ! اے حسین کی ماں ! کیا کیا کروں میں آپ کو بیاں ! کیا کیا آپ کا ہو بیان !
اپنے قدموں میں رکھ لیجئے ! قدموں میں تا حیات رکھ لیجئے ! ازل سے میں آپ کی غلام ! میری خوشی کو ملے دوام !
اے فاطمہ ! خاتون سیدہ جنت ! اے عالی نسب ! اے ام بیھا ! عکس خدیجہ ! اے فاطمہ پاکباز مریم کی سی !
اے فاطمہ علم میں عائشہ کی سی ! امہات کی صفات کا مظہر ! نبی کی بیٹی ! نبی کی آل پر میرا سلام !
مجھے قدموں سے مت اٹھنے دیں !
مجھے قدموں میں پڑھا رہنے دیں!
میں اپ کی قدموں کی دھوون ہو جاؤں
خاک اڑے اور میں خاک ہوجاؤں
میری راکھ پھرے نگر نگر
میری راکھ کو ملا ہے آپ سے پیغام!
ذیشان ! رحمن ! عالی وقار کا ملا فرمان
پھیلے گا اب رب کا گھر گھر یہ اعلان
مجھے آپ کے قدموں میں ملی ہے جان
قدموں میں رکھ لیجئے !
قدموں میں قدم کر دیجئے !
ایک قدم پر میں ہوجاؤں قربان !
آپ کا ہاتھ مرے سر پر رکھا رہے
مجھے ملتا رہے سرشاری اورریحان


سلام اے حسنین ! سلام اے حسن ! سلام اے حسین ! سلام اے حسن ! سلام اے حسین! دل مٹھی میں پگھل پگھل جائے !
میں خود سے نکل نکل جاؤں ! آپ کی شان و ہیبت کو دیکھتے ہی نکلے میری جان !
کیا شان ہے دو احسن تخلیق میرے سامنے ہیں ! دو شاہد میرے سامنے ہیں !
سجدے میں سر کٹانے کی روایت آپ سے چلی ! یا حسین
امن کی خاطر قربان کرنے کی روایت آپ سے چلی ! یا حسن !
آپ دونوں کو میرا سلام ! قبول کرلیجئے ! میرا سلام ! قبول کرلیجے میرا سلام !
اے علی شہسوار ! اے علی شیرِ یزدان !
اے علی حیدر کرار ! اے علم کے قاضی ! اے علم کے واجد ! اے علم کے ماجد ! علم سے نکلا بیان !
اے علم البیان ! آپ کو میرا سلام ! اے حیدر کرار ! اے مجتبی ! ا ے مرتضی میرا سلام !

ہجرت کا غم بڑا رُلا رہا ہے ! شاید کہ جدائی پھر سے مقدر کردی گئی ! روح جو خوشی خوشی ناچ رہی تھی اب رو رہی ہے !
کیسے ملوں گی اِن سے سب سے میں تو ہوئی ان سب پر قربان ! لے لیجئے میری جان ! دوری میرے لیے ہے سوہان!
! اے عالی مرتبت ! اے میرے محمد ! اے میرے آقا ! کب ملوں گی ! کب آپ کو دیکھون گی جیسا کہ آپ خلق کیے گئے !
کب آپ کے نقش میرے دل میں اتریں گے ! کب آپ میرا دِل آپ کے نور سے منور ہوگا !
کب نور محمد دل میں مجلی ہوگا ! کب نور سے نور کو ملے برسات ! غم سے ہورہی بری حالت !
ایسے ہوگئے نور کے حالات ! آپ سے دوری سوہانت ! دکھ روح کا وبالِ جان ! مجھے اپنے قدموں میں پڑا رہنے دیں !
ہجرت کی دلسوزی سے سینہ پٹھتا جار ہا ہے !

سن اے میرے دِل! نیک سعید روحیں یونہی بچھڑتی ملتی رہتی ہیں اس لیے واویلا کرنا کیسا ہے! خوش قسمتی ہے کہ ملنے والے کو ہم ملیں ! یہ نصیب کی بات ہے کہ محفلِ نوری ملی ہے !

محفلِ نوری ساقی کے دم سے چلے
بادہِ مے سے سب داغ دل کے دھلے​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
تیری پہچان میرا رستہ
نقل ، اصل کا رشتہ
سوچ ، عقل کا تعلق
دل ، دھڑکن کا تعلق
خون ، فشار کا تعلق
سوت ، چرخے کا تعلق
خیال ، قلم کا تعلق
تیرا، میرا کیا تعلق؟
ماہتاب ، کرن کا تعلق
رات، دن کا تعلق
دل ، دروازے کا تعلق
بندے ، خدا کا تعلق
علم ، پہچان کا تعلق
عشق کی سمجھ سے ملے
خیال آگ میں جلے
شام کو دن کب ملے
شمع بدن میں جلے
عاشق کی رمز سن لے
عشق اکیلا اکیلا مرشد
عشق ہے بادشاہ گر
عشق ہے کیمیا گر
وحدت میں الجھاتا
شہادت میں الجھاتا
یہ کیمیا گری کی ابتدا
اس کی ہوگی کیا انتہا
عشق رنگ ، ذات نہیں
انس اس سے آزاد نہیں
عاشق کی کوئی شفا نہیں
عشق لاعلاج مرض ہے
عاشق کو امیری کیا غرض
فقر کی دولت سے کھیلتا ہے

اس حقیقت پر میں خود حیران ہوں . میں کب کیسے اس کے راستے پر چل پڑی .میں اس کرم پر ورطہ حیرت میں ہوں . پستی سے دلدل سے اوج کمال کی بلندی پر پہنچا کے لامتناہی بلندی پر جانے کا قصد کیے ہوئے ہے . رب خواہش سے پاک ہے ،اس کا امر کن کا محتاج ہے ؟ '' کن فیکون '' ...

نور خود میں الگ منفرد ہے ، ا سکی روح منفرد جدا ہے مگر اس کے ٹکرے ہزار ہوئے ، کچھ اس کے ماضی سے جڑے ، کچھ حال اور کچھ مستبقل میں .. یہ تقسیم کی نشانی ہے ، میرا امر ہے ، میرے امر سے نکلنے والی صدا اس کے دل میں ڈال دی گئی ہے ...میرے عشق کی انتہا کب ہوئی ، لا محدودیت کے دروازے ٌپر میری نور کھڑی ہوئی ، میں اس کا منتظر ہوں میں اس کو کہتا ہوں کہ نور دل جھانک میں لے اور دیکھ سب زمانوں کو ، دیکھ اپنے خیال کو ، دیکھ اپنی مامتا کے بچھڑے ٹکروں کو .....یہ تو نہیں ! مگر یہ سب تجھ سے نسبت رکھتے ! ان کو تجھ سے نسبت عہد الست سے تھی کہ تیری روح بڑی طاقتور تھی شکر کا کلمہ پڑھ بندی ، شکر کا کلمہ پڑھتے میرے پاس آجا ! تیرا کام تو مجھے سب یاد کرنا ہے ...میں تیری یاد کے تار خود میں سنبھال رکھتا ہے اور جب جی چاہتا ہوں تجھے آواز دیتا ہوں ، تو میری طر ف دوڑی چلی آتی ہے ...میری محبت کا رشتہ تجھ سے اٹوٹ ہے ، تو میری تیری میں تیرا .......ہم دونوں میں کیا فرق ہے میں تو اپنا آپ کب سے تیری نفی میں گم کیے ، تجھ سے نفی کا طالب ہون مگر تو ہی دنیا میں پڑی رہی ، تیری نفی کے ساتھ اثبات کا رشتہ جڑا ہے ۔ میں تیرا اثبات ہوں ، میں تیری بقا ہوں ، تو میری حیا کا دروازہ ہے

حیات دوامی، وجود فانی
اسمِ ذات نور کی لاثانی
ستارہے کہکشاؤں میں گھسے
نور جس طرز نور میں رہے
بسمل کی مانند تڑپنا زندگی بھر
تو عشق کی فقط مضرابِ ہستی
خلق نوائی بنے گی تری گواہی
شاہد کی اس بڑھ کے ہو کیا سچائی
چاند زمین کی گردش میں لگے ہے
مہتاب زمین کے پرورش میں لگے ہے
تسبیح کے بعد ذکر کی محفل.سجالے
اس کی یاد میں بوریا.بستر اب اٹھالے
سنگی کو رنگی بنتے دیر کتنی لگتی ہے
یہ جوگ پالتے دیر کتنی لگتی ہے
اس جوگ ، روگ میں پیار کوسمجھ
اس احساس میں میرے اظہار سمجھ
جسم کی قید سے نکل رہا ہے نور کا نور
نور کے نور کی فلک پر شعلہ بیانی دیکھ
نور کی نوریوں سے حکایت سازی دیکھ
کلی، پھول، پھل کا چکر کیا ہے
زندگی سے زندگی کا حشر کیا ہے
سورشِ زندگی نے لہولہان کردیا ہے
نالہِ درد و فغاں میں محو کردیا ہے
حسن والے عشق کے محتاج ہوئے ہیں
عشق میں پڑنے والے کب برباد ہوئے



تیری تلاش کا سفر مجھ سے جڑا ہے ، وہ پرت در پرت کھلتا جائے گا تجھے علم ملتا جائے ، تیرا دل خزانہ حیات ابدی سے نوازا جا رہا ہے اس لیے بندی شکر کر جتنا تو چاہے ، اتنا کر ، جتنی تری طاقت ہے اتنا کر ،جتنی تیری اوقات ہے اس سے بڑھ کے کر ، جتنا تیری ہوش بچا ہے ، اس ہوش میں مدہوش ہوتے کر ، جتنی زندگی تیری لکھی ہے وہ پل پل میں گزار لے ، وقت قرین زندگی کی بھاری نوازی جانی ہے۔اس کو لینے کے لیے تیار ہوجا ، تیرا کام اس جہاں میں چلنا پھرنا ہے تو یہاں مسافر ہے ، تو یہاں واں پھرتے میرے لوگون کے ساتھ اٹھا بیٹھا کر ، ان کے درد سنا کر ، ان کو میرے قصے سنایا کر ، مٹا دے ہستی کے سب رنگ ، ان کو چھوڑ کے چل اب میرے سنگ ، کر تو نفس سے اب جنگ ، تو میرا رباب شوخ و چنگ ، تیری ذات مجھ سے ملی ہے ، تیری بات مجھ سے جڑی ہے ، تو میرے شوق کا آئنہ ہےتو میرے خیال کی طاقت ہے ، دنیا میں سب کچھ طاقت سے ہے ، اس لیے میری جان سبھی طاقت کو سمجھ بنا اس کی جانب چلتے پھرتے ہیں ..... ملی ہے ، معجزے میرے خیال کی طاقت پر استوار ، بندہ بشرکی ولایت نیابت میری خواہش کا امر ، تو میریدوست ہے ، میری ولایت کی نشانی ہے ، میرا جذب بیانی ہے ، میرا شعلہ رقص ہے ، میرا ذات تیری کہانی ہے ۔یہ راز کی باتیں کھل رہی ہیں ان سے الجھنا بے کار ہے م عشق کی دولت سرفراز لوگو ں کی ملا کرتی ہے ، نور تو میری رفعت ہے ، تو خود میں قلندر ہے ، تو خود میں سمندر ہے ۔

چشم نمی وصل کی نشانی
ورد آیات ہوتی رہی بیانی
ستم یار کا مجھ میں رہتا ہے
وہ جو کہتا ہے اسے میرا کردیا ہے
حکمت اس کی کون کب سمجھے
ہر فرد کو خود میں محشر کردیا ہے
ازل کا نغمہ ہوں ابد تک.چلوں.گی
فتویِ عشق ابھی صادر کیا جانا ہے
میں دائم میری شہرت بھی دائمی
سزا کا کچھ نیا طریقہ اپنایا جانا ہے
مجمع دیوانہ جان کے میرے گرد ہے
دیوانہ کون ہے یہ ابھی بتایا جانا ہے
ًچرچہِ حسن گلی گلی مشہور ہونا ہے
زندگی کو سو بار موت میں مرنا ہے
نشاطِ ہستی بدولت درد کے ملتا ہے
ابھی تو اس.فیض کو بہت عام ہونا ہے
سوز و گداز دل ہی دلوں کو دیتے ہیں
اس کام کو ابھی نسل در نسل.چلنا ہے
''ورفعنا لک ذکرک ''کی بات ابھی چلنی ہے
یہ نعمت نور سے بہت آگے چلنی ہے
جلنے کا فیض شمع کو حاصل ہے فقط
مومی کاغذ سے نظروں کو خیرہ ہونا ہے
فصل بہار میں علم دانش کے ہنر سے نوازا
خزاں کا.باغ اب بہت دور پرے لگنا ہے
جزا سزا کے فیصلے ہیں پیادوں کے لیے
قاصد کو اب تپشِ آگ سے زندہ کرنا ہے
روایت حدیث ذات اب زور و شور سے ہوگی
تیری ذات کے منصوب قصے بکھرنے ہیں
خوش قسمتوں کے فہم میں خالق ہوتا ہے
وہ اسی سے ذات کا قلندر ہوتا ہے


آزاد روحیں اپنا آپ لٹانے کو تیار رہتی ہیں ، تیری آزادی بھی نام کے ساتھ منسلک ہے ، تو وہی ہے جو میں چاہوں تو وہی ہے جو میں کروں گا ، تو وہی ہے جس کو تیرے لیے امر کیا جاچکا ہے ۔ تیرا مرنا جینا میں نے لکھ رکھا ہے ۔ تیرا مجھ سے الجھنا بھی لوح و قلم پر لکھا ہے ،.یوں کہ کے میں آزاد ہوں تیرے اندر ۔ میں حیات ہوں تیرے اندر ۔ میں اصل ہوں خیال کے اندر ، میں علم ہوں قفس کے اندر ، میں شمع ہوں قندیل کے اندر ............میں زمینوں آسمانوں کو نور ہوں ..........تو ہنسے ، تو روئے ، تو جلے ، تو کھلے ، یہ سب میری دم قدم سے ہیں کہ تیرے در میرے در ہیں ، تیرے ہاتھ میرے ہاتھ ہیں تیری زبان سے نکلے لفظ ہیرے ہیں ، تیری آنکھ سے نکلے آنسو نرم و زرخیز مٹی کی نشانی ہیں ، تیری ہدایت کا ذمہ میں نے خود لیا ہوا ہے تو میرا خزانہ ہے میں تیرا آئنہ ہوں ، میں تیرا شوق ہوں کہ تو میری ، اس کو جان لے کہ تفریق کے جام تو سب گرادے میری محبت میں آکے تو مزہ لے ، تجھے ہنر کا گفتگو ملتا جارہا ہے ، عشق کا خزانہ لٹتا جارہا ہے ، میں طببیب ہوں تو مریض عشق .....

گفتگو کا سلیقہ آجاتا ہے
بندہ عشق میں جو آجاتا ہے
سمجھداری کے تقاضے بھولے
مجذوبیت کے سب راستے کھولے
سادگی کا حسن نور سے جانیے
متانت میں عزت کی دولت جانیے
شہِ ابرار محمد کی نبوت کے رنگ
پھیلنے چلے ہیں چمنِ پھول کے چنگ
عادت انکساری کی سب سے اچھی ہے
عبد کی بندگی اس کو بھلی لگی ہے
جبل نور کا سرمہ نور کو ملا ہے
جو یار کی یاری کے صدقے بٹا ہے
احمد کی باتیں محمد کی جانب سے
احد کی باتیں واحد کی جانب سے
ساجد و مسجود کے فرق کیا، دیکھ!
کن فیکون کی تکوین میں خود کو دیکھ
جہاں میں لٹتا رہتا ہے عشاق کا قافلہ دیکھ
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

cleardot.gif
cleardot.gif

cleardot.gif
cleardot.gif

قتل میرا عشق سے ہوا ہے
بسمل مجھے عشق نے کیا ہے
خنجر سے وار پر وار کیا ہے
تار تار زخمی کر دیا ہے
ہستی میں مستی بھر دی ہے
عشق نے شوخی بھردی ہے
میں یار کے ساتھ رقص میں ہوں
دل میں خود 'ھو 'کے عکس میں ہوں
وار پر وار پر یار مجھے کیے جارہا ہے
زخم در زخم نشان کیسے دکھاؤں
اسی حال میں بس ھو کی ضرب لگاؤں
اللہ ھو ! اللہ ھو ! اللہ ھو!
ھو نے انگ انگ وچ کردی سج دھج
اب تو ''الف '' م '' کے سنگ
لمحہ لمحہ درد بڑھتا جارہا ہے
ایک لمحے میں صدی کا در ملا ہے
میں '' ھو '' ھو '' کہتی رہتی ہوں
وہ زخم پر زخم دیے جارہا ہے
قتل مجھے عشق نے کردیا ہے
بسمل مجھے عشق نے کیا ہے
لہر در لہر دھواں کی شعاعیں
اللہ ھو کی لگاتی ہیں صدائیں
میرے اندر نور سماگیا ہے
میں خود سراپا نور ہوں
اندر میرے نور، میں ہی سراپا نور
رقص کرتے یار ساتھ ہوگئی چور چور
میں رقص کی بازی جیت جاؤں گی
یار ساتھ جشن میں مناؤں گی
رقص کرتی کرتی پنچھی اڑیں گے
پرواز آسمانوں تک کریں گے
میں اس کا جنگجو پرندہ ہوں
میں زخم کھاکے بھی اڑوں گی
عشق نے مجھے قتل کردیا ہے
بسمل عشق نے بنا دیا ہے
عشق کی بازی میں جیت جاؤں گئ
جشن میں مطرب کی محفل سجے گی
نور ازل ! ازل کا ساز چھیڑے گا
نغمہ میں اس کا ساتھ گاؤں گی
اس کے سُر میں مل کے لگاؤں گئ
نغمہ ، سُر ، ساز میری ذات ہوگی
میری ایسی تب اوقات ہوگی
مطرب میری اپنی ذات ہوگی
قوال ساز میں سما جائے گا
میں ہوش اپنے کھو جاؤں گی
مجھ میں ھو ھو کی صدا لگاتا جائے گا
لوگوں کو وہ جگاتا جائے گا
میں ہوش اپنے کھوتی جاؤں گی
یار مجھ میں نئے سر لگائے گا
عہد الست کا درد یاد دلائے گا
یوم الست سے اس کی ہوں دیوانی
عشق نے برپا کی ہیجانی
آئنہ آئنے سے مل رہا ہے
بارشیں ہورہی رحمانی
روح میری ہورہی عرفانی
اوج و بلندی اب مل ہے جانی
اللہ نور السموت ولارض
تو نورِ سماوی تو نورِ زمانی
نبی سارے تیرے نشانی
رحیمی کریمی جلالی جمالی
تیری ذات بڑی ہے رحمانی
فنائے ہست بعد دید کی طلب میں رہ گئی
کہ زندگی میری ملن کی تڑپ میں رہ گئی
میری وجود نوری ہوتا جارہا ہے
خود میں طور ہوتا جارہا ہے
زمین و آسمان کا نور اللہ ہے
جن و انس میں چھپا اللہ ہے
درختوں کی خاموشی میں اللہ ہے
پرندوں کی بولی میں اللہ ہے
اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ
اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ
اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ
اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ
اللہ کرتی رہوں گی میں
اللہ سے مانگتی رہوں گی
جلوے کی خواہش میں جلتی رہوں گی
مست و ہست میں ناچتی رہوں گی
میں خود میں اک جلتا چراغ ہوں
میں خود ہی روشنی کی مثال ہوں
میری وجود میرے عشق کی خانقاہ
میں خود کا آئنہ جمال ہوں
طور کا جلوہ میرے دل میں ہے
ہست کو فنا کرکے مست کردیا
میری فشار میں اللہ کی یاد رواں ہے
فاصلہ کبھی ہم میں رہا نہیں ہے
اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر
روح کی حقیقت فاش کردی
نفس کی اصلیت کھل گئی
لا الہ الا اللہ !
لا الہ الا اللہ
لا الہ الا للہ حق اللہ ! حق اللہ ! حق اللہ ! حق اللہ
خوشبو کی مانند لفظ پھیلے ہیں
میرے اندر خوشبو بس چکی ہے
اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ
 

نور وجدان

لائبریرین
جو کہتا 'تو ' نفس ہے

جو کہتا ''تو'' نفس ہے
جھوٹ کہتا ہے
جو کہتا ''تو'' پاک ہے
جھوٹ کہتا ہے
جو کہتا ہے ''وہ '' تجھ میں ہے
وہ ہی سچ کہتا ہے


اس پیار سے سج دھج کرتا ہوں
اب کہاں الگ رہتا ہوں
زمین سے فلک میں رہتا ہوں
مکین عرش کا رشتہ خاکی سے
پاکی جیسے ہو ناپاکی میں
نور کو ہو جیسے حجابی میں
نفس میں چھپی شرار دیکھ
اللہ کا خود سے پیار دیکھ
بے حجابی نور کی باطن میں دیکھ
عشق کی نمود ساجن میں دیکھ
راہی شہر شہر پھرتا رہا ہے
اسی کی فکر میں رہتا ہے
ارباز کی فکر بلند ہوئی ہے
جذبات کی آنچ میں مدغم ہوئی
راستے چار سو کھلتے رہے ہیں
راہ میں راہی ملتے رہے ہیں
پھول کھلنے کو صبا چلے ہے
بہار جنون کا استعارہ لگے
عشق ،یقین کی یاری دیکھ
علم ، فکر کی سواری دیکھ
فریب و دغا کی کشش میں
سچے پیار کی بندش میں
جانے کتنے پہاڑ ٹوٹے
جانے کتنے پہاڑ ٹوٹیں
یہ سمجھ کس کو لاگے ہے
ناسمجھ کہاں بھاگے ہے
شیشہ ریاکاری کا اتار دے
سچ کو اب اظہار دے
کہاں کونین کے خزانے بنٹیں
کہاں کو فرصت کے بہانے لگیں
آشیانے تنکے ہونے لگیں
سیلاب سمندر ہونے لگے
کون دل کا درد جانے گا
جو جانے وہی پہچانے گا
رب سچے بندے کا مالک ہے
کون روح کا خالق ہے ؟
اے نورِ حقیقی ! اے نورِ ازل!
اسرار کے پردے چاک کردیے
بت خدائی کے پاش پاش کردیے
لڑیے، جھگڑیے کس کی آس میں؟
کس کو اس جہاں میں پاس ہے؟
تسلی بشر کو نور کے دم سے ہے
تجلی امرِ حقیقی کے دم سے ہے
یہ کیا کم ہے کہ آنکھ نم ہے
یہ کیا کم ہے دل میں غم ہے
یہ کیا کم ہےکہ اشکوں میں ردھم ہے
یہ کیا کم ہے کہ جذبات کا سنگم ہے
یہ کیا کم ہے سوچ، فکر میں مدغم ہے
یہ کیا کم ہے چلا اک اور ستم ہے
یہ کیا کم ہے بارش کا موسم ہے
یہ کیا کم ہے کہ جامِ جم ملے ہے
یہ کیا کم ہے کہ سازِ جسم جلے ہے
یہ کیا کم ہے مجھ میں سُر ،سرگم ہے
یہ کیا کم ہے کہ نشہ مدھم، مدھم ہے
یہ کیا کم ہے کہ میخانہ آبِ زم زم ہے
یہ کیا کم ہے کہ ساتھ میرے ہمدم ہے


نور کم کچھ نہیں ہوتا ، اندھیرا چھٹ جائے تو کمیاں سب ختم ہوجاتی ہیں ۔ نایاب ہیرے اپنے سیپیوں میں چھپے موتیوں کی مانند ہوتے ہیں بس بارش ملنے کی دیر ہوتی ہے ! بس بارش ملنے کی دیر ہوتی اور سب ساز کا کام چل پڑتا ہے ۔ روح قفس عنصری میں قید ہے اور پھڑپھڑاتی ہے جیسے کہ پرندہ قفس سے نکلنے کو تیار ہے ۔ فضا کی بلندی میں اڑتے اڑتے یار سے ملے اور واپس پنجرے میں واپس آجائے ۔ بے قراری بڑی ہے ! کیا جانو گے تم کہ یہ کیسی بے قراری ہے ۔ روح دل میں اکٹھی ہوتی ہے جسم سے نکلنے کا زور لگاتی ہے کہ محبوب سے مل لیں ۔ دل کی عجیب سی حالت ہوجاتی ہے جیسے کہ روح اتر رہی ہے اور اس کے اترتے ہیں روح کو پھر بچھڑنے کا احساس ہوتا ہے ! ہائے ! وہ لمحے بھر کا احساس مجھے نچوڑ کے رکھ دیتا ہے کہ ملوں محبوب سے اس طرح جس طرح چندا ، سورج سے ، زمین فلک سے ، شب دن سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے کیسے جدائی ڈال دی دو اپنوں کے بیچ ۔۔۔ اس خلا کو کب کون سمجھ پایا ہے ؟ اس خلا میں بقا ہے اسی میں چھپی دوا ہے ۔۔۔۔


زندگی کا کوئی لمحہ اس کی نماز سے خالی نہیں گیا ۔ اس کے سرجھکا ہے ، جھکا رہے گے حتی کہ وہ سرخرو کردے ۔ میرا نماز کو قیام مل جائے گا ۔ مجھے نماز کی قبولیت کا سندیسہ مل جائے گا ۔ سیلاب سے مکان بہتا رہتا ہے مگر پھر بھی قائم رہتا ہے جیسے میرے آبلہ دہکتے انگاروں پر چلنے کے باوجود سلامت ہیں ، جیسے میں نے پانیوں پر چلنا سیکھ لیا ہو ، جیسے جگنوؤں نے مجھ سے روشنی پالی ہو ، جیسے مجھے شمع بنادیا ہو جیسے فقر کا پیالہ میں نے پی لیا ہو ۔ میرا مرشد عشق بن گیا ہے ، میرا رہنمائی جذبہ عشق کے دم سے ہے ۔ میری روح عقابی ہے جس کا کام آسمانوں پر پرواز کرنا ہے ۔ میں اپنے دور کی شاہین ہوں۔ میں شہباز ہوں میری پرواز رفعتوں پر ہے ۔ میرا مقام اوجِ ثریا سے بھی اوپر ہے ، میرا وصل لامکان میں قرار پایا جائے گا ۔ میں اس کی شبییہ ہوں۔ میں اس کا عکس ہوں ، میں اس کے رنگ میں رنگی گئی ہوں۔ میں اداس چلمن کی اوٹ میں کھڑی محبوبہ ہوں، جس کو اپنے معشوق کا انتظار رہتا ہے ۔ اس کے انتظار میں آنکھیں پتھرا گئیں ہیں کہ لگے بینائی چلے جائے گی لگے کہ عضو عضو سرمہ سرمہ ہوجائے گا مگر اے میرے محبوب تیرے انتظار کے دیپک میرے آنکھوں میں ہمیشہ رہیں گے ۔ تو میرا ہے کہ میں تیری ہوں ۔ میرے اندر تو سما گیا ہے گویا کائنات سما گئی ہے ، کائنات کی دوئی جیسے ختم ہونے کے در پر ہو! یہ روح پھڑا پھڑا رہی ہے جیسے اس کو دیکھ لیا ہو ، جیسے اس کو پالیا ہو مگر خود قید میں ہے تو کیسے ملے ، دیرینہ مجبوری ہے قفس میں رہنے کی مگر خود اس کے ساتھ لگے کے اپنی برسوں کی تشنگی بجھانا چاہتی ہے ۔۔۔ ہائے ! کب ملے گا موقع ! ہائے ! کب دور ہوں گی جدائی کی یہ گھڑیاں ! ہائے کب لگے دل پر بھاری ضرب ! ہائے کب ہلے گا تار تار دل کا ! اللہ جی ! اللہ جی ! اب تو مل جا مجھ سے ! سب دوریاں مٹا دے ! مجھے اپنے پاس بلا لے ! میں تیری آں مولاں ! میں تیری آں مولاں ! میں عشق دا پایا چولا ! میں تیری آں ! مولا میں تیری ۔۔۔۔۔۔ ۔

آؤ ! گھوم جاؤ ! آؤ پی لو ! آ جاؤ ! یہ نیا دور شراب کا چلا ہے ! اب تجھے نیا جام ملا ہے ! اب رقص بسمل کا شروع ہونے کا ہے ۔ اب میری بات تیرے دم سے چلے گی ۔ تیرا نام میں بلند کروں گا ۔ میں نوازنے پر آؤں تو دے دوں زمانہ ! میرے پتا لوگ تجھ سے پوچھیں گے تو ان کو کہ دینا کہ وہ دل میں رہتا ہے ! جھانک لو دلوں میں ! جھانک کے پالو مجھے ۔ میں نے کسی سے فرق نہیں کیا جو میرے پاس بھاگ کے آئے گا میں اس کو خود سے کیسے جدا کرسکتا ہوں میں غم دیتا ہوں ۔ ان کی برسات میں بھیگنے والے بدن مجھے تب محبوب ہوجاتے ہیں جب بارش غم کی ہو ، نام میرا ہو، پکار میری ہو! مجھے بھی احساس ملتا ہے کہ کوئی درد سے بڑھ کے مجھے چاہتا ہے کہ یاد رکھیو! دنیا میں سب سے بڑا رشتہ درد کا ہے ، سب سے بڑا درد بھی عشق ہے ۔۔۔۔ اس کو نبھانا آسان نہیں ہے ، جو نبھاتے ہیں وہ ایک باریک تار پر چلتے ہیں کہ ذرا سی بے دھیانی ان کو گراسکتی ہے ۔۔۔ دھیان سے چلنا نور ! دھیان سے کہ تو میرا عشق ہے ! میں تیرا عشق ہوں ! تجھے میں کبھی گرنے نہیں دوں گا ! تو میری ہے ! تیرا نفس مجھ سے ملا ہے !اللہ اکبر اللہ اکبر ! اللہ اکبر​
 

نور وجدان

لائبریرین

منتظر ہیں سوئے حرم ۔۔۔۔

ہم نشین مجھ سے روٹھ نہ جائے کہیں ! یہ چلمن پھر سے گر نہ جائے کہیں ! نگری نگری میں رل نہ جاؤں کہیں ! جاناں کا در پھر چھوٹ نہ جائے کہیں ! نور توں ڈردی کیوں پھردی ؟ تیری سوچ نال کی کم چلے ؟ کناں چلی ایں توں ؟ توں اپنی کیتی رکھ ۔۔۔۔ میں اپنی کیتی رکھاں گا ۔ میں ہی جانڑاں میں کی کرنا ۔۔۔۔۔۔ مجھے ڈر نہیں ہے کہ وصل کی گھنی چھاؤں میں ہجرت کی دھوپ تقدیرکردی جائے!

میرے دل میں جانے ازل سےہے آپ نے ڈیرا جمایا !
میں ظلمت میں ڈوبی کئی بار مگر آپ نے نہ چھوڑا سویرا !
میں روٹھی کئی بار مگر آپ نے منایا !
آپ سا کون ہے میرے مولا ؟
میرےمولا آپ سا کون ؟
مجھے بتاؤ مولا آپ سا کون ؟

میڈے کولوں چنگا ہے کون !
تیریاں گَلاں مینوں لگدیاں نیں چنگیاں !
تو گلاں کریندی جا ! میں سندا رواں گا !
کون اے میرے سوا ؟
جیہڑا سنے دل درد مند دی صدا ؟

مولا ! مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کے محبوب کی خدمت میں کہیں کوئی خطا نہ کردوں !
بہت دل ڈر رہا ہے ! وہ تیرے محبوب ہیں ! اس لیے مجھے اپنی جان، اپنی روح بہت کمزور نظر آرہی ہے !
میں کیسے ان کو خوش کروں ! میری جان کا نذرانہ بڑا حقیر ہے !
میں نے کیا ہے خود سے پیمان ! کروں گی پورے سبھی ارمان !
چلوں گی قدموں کے بل ! ہوجاؤں گی قربان !
خاکِ مدینہ سر پر ڈالوں گی ! آنکھ کا سرمہ بناؤں گی !
نظر کو ملے گا قرار !
مگر کب ملے گی اس در کی سواری !
مجھے جو پہلے لفظ عطا ہوئے ! وہ یہی تھے کہ میں نے کہا تھا

منتظر ہیں سوئے حرم کب آئے گی عاشقان محمد کی باری
کب ان کے در پر بلانے آئی گی مجھے ان کی سواری

میرا بیان ان کی محبت سے طاقت پاتا گیا تھا اب میں اس بات سے ڈر رہی ہوں ۔
جس محبت نے مجھے اتنی طاقت دی کہ میں آپ سے بات کر رہی ہوں !
کہیں ان کی محفل میں مجھ سے کوئی خطا نہ ہوجائے !
مولا کریم آپ میری نیت سے آگاہ ہیں ۔
آج سے پہلے کبھی بھی یہ حال نہ ہوا تھا !

او میڈی کملی ! او میڈی جھلی ! تیڈے دل اتے میڈے یار نے تجلی کیتی اے !
اودھی رحمت دی قسم میں کھاچھڈی اے ! او رحیم اے ! او کریم اے !
کیہڑیاں فکراں تو پالیاں ! نور کیہڑاں فکراں تو پالیاں ؟
ایڈی فکر نال ای چنگا اودھا ناں لیا کر !
زبان اتے جیویں شکر کھنڈ رکھیا کر !
شہد کولوں مٹھا مٹھا ناں محمد دا اے !
میرا یار میرا ناز تے فخر اے !
اودھی بارگاہ اچ سارے ٹردے ٹردے جاندے نیں !
جاندے نیں تے رحمت پاندے رہندے نیں !
چھڈ ساریاں فکراں بس درود نال یاری رکھ
ہووے گا قبول تے فکراں جان گیاں مک ۔۔۔

مولا آپ سے جب کرتی ہوں اپنا حال بیاں !
فکر کا سب جاتا رہتا ہے نشان !
میری پریشانی دھواں دھواں ہو جاتی ہے !
روح میری ذکر میں محو ہو جاتی ہے !
عشق نے انگ انگ میں چشمے نور کے کھولے !
تجلی سے دریا بہا چھوڑے !
میں ڈرتی ہوں کہیں یہ چشمے مجھ سے چھین نہ لیے جائیں !

نور کملی توں کیہڑیاں فکراں پالئیاں !
سنبھال رکھ یار دیاں دتیاں لالیاں !
چھڈ ساریاں فکراں تے میرے محبوب دا ذکر کیتی رکھ !
محمد دے ناں درود کری رکھ !
درود نال ای دعا منگی رکھ !
میرے محبوب دی شان وڈی نرالی اے !
نصیباں والیاں نوں ملدی اودھی محفل اے !
خوش قسمتاں نو اودھیاں محفلاں ملیاں نیں !
نور توں کیہڑیاں فکراں پالیاں !
چھڈ ساریاں فکراں تے میرا ناں لیندی رہ
نال " الا اللہ " تسبیح کیتی رکھ !
ذکر درود نال من دا حجرہ پاک کریندی رکھ!
یار سوہنے دا حجرہ بڑی پاکی منگدا اے !
ذکر دی خوشبو نال دل نوں سجایا کر !
اندر عطر تے لوبان نوں وسایا کر !
حجرے اندر محفل سجایا کر !
ذکر وچ دھمال پایا کر !
ساریاں فکراں بھل جایا کر !

اینوں اوہنے ہے مست کیتا
جیہڑا بیٹھا میرے من اندر
اُچا یار میرا ،نیوی میں آں
اودھے گھر دا پانی پینی آں
 

نور وجدان

لائبریرین
محمد کی میم


جو یاد رہتے ہیں ، ان کو بھولا کہاں جاتا ہے ۔ جو یار بنالیا جائے ، اسے چھوڑا کہاں جاتا ہے ۔ جسے عشق ہوجائے ، وہ خود میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ خود کو یار ، خود کو جوگی روگی ہوجاتا ہے ۔ اس کا رستہ گمشدگی میں ہے ۔

ڈھونڈنے والو ! مجھے ڈھونڈ کو تو دکھاؤ ! آؤ ! مجھے دیکھو ! میرا جلوہ تو کرو !میں تمھیں یہاں وہاں کہاں ملوں ۔جنگل ، پربت میں یا مسجد منبر میں ۔۔۔۔۔۔۔دل کی سرزمین پر ہریالی کے فصلوں میں محبت کا ابدی نغمہ سر لگاتا ہے میں اس دل میں رہتا ہوں ۔ لوگو ! اس گمشدگی کو ڈھونڈو ۔ اس سے ملو ،یہ میری نشانی ہے ! خالق کی قسم ! خالق اپنے بندوں پر گواہ ہوتا ہے ! خالق نور پر گواہ ہے اور یہ گواہی عام نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حق ھو ! حق ھو ! حق ھو !
مجھے دیوانہ کردیا ہے
ھو کی ھو نے مست کردیا
اس ھو سے جذب مل گیا
میں مجذوب قلندر ہوں
میں اس کا شاہباز ہوں
پرواز میری آسمانوں پر ہے
کون میرا راستہ جانے
کوئی نہ جانے میرا راستہ

امتحان کی نشست لگی ہوئی ۔ میں اپنے خالق کے پاس محبت کا امتحان دے رہی ہوں لوگ سمجھ رہے ہیں کہ میں دیوانی ہوگئی ہوں ۔ امتحان تو سبھی نے دینا ہے مگر یہ کیا کم ہے کہ خالق کے پاس اس کی صحبت میں بیٹھی ہوئی ۔ اس کا نور مجھ میں سماتا جارہا ہے میں خود میں گم ہوتی جارہی ہوں ۔ نور کی شعاع نور سے ٹکراتے نور کی ہوجاتی ہے ۔ نور کے دل کو کعبہ بنا دیا ہے ۔ نور اپنے دل کے گرد شمع کی مانند طواف کیے جاتی ہے ۔ کیا ہوں میں ؟ میں کچھ بھی نہیں میں کچھ بھی نہیں بلکہ جوبھی ہے وہ میرا خالق ہے ۔ نور نے خالق سے کہا کہ مجھے اپنے پاس رکھ لے کہ مجھے دنیا اب اچھا نہیں لگتی میری شوخی کا سامان تو تیرے دم سے ہے ۔ نور خالق کو کہتی ہے کہ دنیا کیوں بنائی ! یہ جال کیوں پھیلایا! اس دنیا میں پہچان کا کھیل کیوں رچایا ؟میں سوالات کے جوابات کہاں سے لاؤں میرے علم کا منبع تو وہ خود ہے ۔۔۔۔۔۔ جواب دے نا میرا محبوب کہ پہچان کا فرق کیوں رچایا

علم معرفت عارف کی پہچان
اس پہچان میں بپا نہ کر ہیجان
ہر کسی کو نہیں ملتی معرفت
عام نہیں ذروں پر اس کی لطافت
ذرہ نے اس سے فریاد کی
کیوں رچایا کھیل معرفت کا
کسی کو شاہ تو کسی کو فقیر بنا کے
کسی کو عالم تو کسی کو جاہل بنا کے
کسی کو عاقل کسی کو کامل بنا کے
کسی کو غلام کسی کو مالک بنا کے
رسولوں کو اپنا شاہد بنا کے
رسولوں کو نبیوں کا شاہد بنا کے
نبیوں کو ولیوں کا شاہد بنا کے
کیا ملا؟ کیوں کیا ؟
عارف کو حقیقت معرفت سے ملی
پیامبر کی حقیقت کنجی سے کھلی
پردہِ مجاز میں حقیقت کے رنگ دیکھ
حقیقت کا پتا گمشدگی میں دیکھ
حقیقت میں لطف زندگی ہے معرفت
حقیقت سے ملنے کا رستہ ہے معرفت
عشق شناس بندوں کو عارف بنایا
حقیقت شناسی سے پائی معرفت
عارف کی پہلی سیڑھی ہےولایت
سورج کی جیسے ستاروں میں ہے روایت
باب عشق عیاں ہوا معرفت سے
لگی ہے دل میں لگن معرفت سے
ستم سہنے ملے کیسے کیسے وچھوڑے
اس میدان میں آتے نہیں بھگوڑے
شدت اظہار سے روح، جسم میں ڈال
عشق کو پہچان کی لگام میں ڈال
مسیحائی کا پیشہ طبیب کے دم سے ہے
مریضِ عشق کا غم پتھر میں مدغم ہے
شرمساری عصیاں کی بڑھتی جائے ہے
ندامت سے گردن جھکی جائے ہے



دل کی کیا حیثیت موم جیسی ہے جو پگھل پگھل کے بھی ختم نہیں ہوتی ہے ۔ اس موم میں اگربتی ، گلاب ، لوبان اور مشک کی خوشبوئیں ملائیں گئیں ۔ جب اس کو چنگاری ملی ۔ ایک تجلی نے جہاں میں جل تھل کردے ۔ برسات کا موسم آگیا ہے ۔ پھول کھلنے لگے ۔ پھول کی تسبیح لا الہ الا اللہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔اپنے مالک کو یاد کر رہے ہیں ۔خوشبو چمن میں پھیل کے اپنا پتا کھو رہی ہے اور بلبل اپنا گیت سنارہی ہے ۔۔۔ بلبل کی صدا ہے حق ھو حق !

تو ہی تو میرا سائیاں ، تو ہی تو میرا سائیاں
دل کردا ایہہ میرا دہائیاں
میرے تو لگیا جیہڑا جیہڑا
اونوں ملدا جاندا اے سویرا
میں سیاہ رات اچ اجلا سویرا
کوکاں مار دی میں جگاواں
لوکی سمجھن مینوں کملی دیوانی
درد دیاں گلاں کوئی نہ جانڑے
کتھے لوکی حسین حسین کردے نیں
قربان غرض توں ایمان کر چھڑدے نیں
میں حسینی نور آں ! پھیلاں شوخ ہوکے
حسین نال یاری پرانی اے
میرے ہتھ وچ حسینی چراغ اے
آبشاراں نوں رستے نوے ملدے نیں
ندیاں بہندیاں چنگیاں لگدیاں نیں
ایدھی واجاں تو کوئلاں چہکدیاں نیں
ایناں باغاں وچ گلابی پُھل اے محمد
جیہڑا شاخاں اچوں روشنی اے پھیلاندا
جیہڑا اوتھے جاوے خوشبو پاوے
میل لاوے ، تن اجیارے
مالی پھلاں دی حفاظت شوق نال کریندا اے
اوتھے بیٹھا جیہڑا حسن دی شیدائی اے
اونہوں میں آکھیا مالک تو کی کمایا؟
کی کمایا لا کے دنیا دا تماشا؟
او آکھے ! چلی ! کملی سن لے
محمد دی واسطے سوانگ رچایا
جا ! اس وانگر لب کے کوئی ہور لیا
اودھے جیا ہور ایتھے کوئی نہیں
محمد دی 'م' اچ چھپی اے کہانی
میم دا قصہ سن لوو مری زبانی
شب و روز گزرتے جاتے ہیں
غم ہجر بھی ٹلتے جاتے ہیں
مراداں والے میرے کول آندے نیں
محبت دی مانگاں نال چولی پھردے جاندے نیں
معراج دا تحفہ پاندے جاندے نیں
منور ، مطہر ، مزمل ، مدثر ، معجل
مجلی ، مصفی ، معطر ، محمد دا سینہ
جیہڑا لگیاں اس نوں ، ملیا سفینہ
محبت دا امین ، معین ، مھیمن اے
محمد دی ''م '' وچ کیہ کیہ لکیا اے
ایڈھ وچ قران دا ہر اک صفحہ اے
محمد دی' م ' اچ کیا کیا چھپا ہے
محمد دی ''م'' اچ الہام چھپا ہے
وحیِ رسالت کی امین ہے جس طرح
محمد رسولوں میں معین ہیں جس طرح
محمد کی ''م '' میں کیا کیا چھیا ہے
محمد کی ''م'' میں مکہ اور مدینہ چھپا ہے
محمد کی ''م '' میں کیا چھیا ہے
محمد کی ''م'' میں مامتا چھپی ہے
محمد کی رحمت کا بڑا اونچا قد ہے
محمد کی ''م'' محبت والی ہے
اس کے دم سے زندہ ہر سوالی ہے
محمد کی ''م '' موجوں کو طغیانی دے
محمد کی ''م'' مظاہر کو نشانی دے
محمد : مرشد ، مہدی برحق ہیں
محمد کی محبت میں کھڑی یہ سگ ہے
محبت کی ''م'' مستی والی ہے
محبت کی '' م'' مرادوں والی ہے
''م '' کے خزانے بے شمار ہیں
علمِ معرفت کی '' دو میم' سرادر ہیں

حاجی کعبے آون ، شوق دے دیوے لاون
حج نہ ہووے جدتک مدینے نہ جاون
کعبہ وی مدینہ مدینہ کردا اے
دل اچ رنگ مدینہ توں لگدا اے
''میم '' دا رنگ سرخی آلا اے
''میم '' سرخ جوڑا پوندای اے
''میم '' شوخی تے مستی چڑھاندی اے
'' حق ھو ! ''میم '' دے نال کریے
حق ! میم کی محبت میں نشرح نازل ہوئی
ورفعنا لک ذکرک کی چلیں باتیں
کرم کی بارشوں سے پائیں سوغاتیں
دردو پڑھو ! پڑھو درود ۔۔۔م کی چاہت سے پالیں سوغاتیں
اللھم صلی علی محمد وعلی الہ محمد کما صلیت علی ابرھیم وعلی ابرھیم انک حمید مجید
اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ابرھیم وعلی ابرھیم انک حمید مجید
محمد کی محبت سے غلامی کی سند حاصل ہوئی
محمد کی غلامی سے یہ شان حاصل ہوئی
رنگی گئی نور اس محبت میں مکمل
اپنے رنگ لٹانے چلی ہوں مکمل
میں رنگ گئی محمد کی محبت میں
پرواز کی طاقت سے ہوں رفعت میں
اڑتی ہوں فضاؤں میں شہبار کی مانند
اس محبت نے علم کی دولت عطا کی
عقلِ کل تک رسائی ہے عطا کی

خزانے ''م'' کے مجھ پر لٹا دے حق۔ان کو پانے کو میں مضطرب ہوں ۔ مولا محبت میں مری جارہی ہوں ۔میرا سینہ مکہ مدینہ بنادے ۔ میرا سینہ فلک کی مانند بلند کردے ۔اوج رفعت ملی ہے مجھے یار کے نقش قدم سے ۔میرے ساتھ چلو جہاں جہاں میں چلوں ۔میں مستی میں چلی جارہی ہوں ۔مجھے ڈھونڈو مگر کیسے ڈھونڈو گے کہ میں تو گمشدہ محبت کی بستی ہوں ۔۔ میں نشے میں مست جارہی ہوں ۔۔جنگل کو خوشبو دیتی جارہی ہوں ۔ صحرا سے جنگل کا سفر میرا شروع ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔

حق ھو ! حق ھو ! حق ھو! گمان ہوتا ہے کائنات مجھ میں سما گئیں ۔افلاک میرے اندر ہے اور پاتال بھی میرے اندر ہے ۔ قبرستان بھی اندر ہیں ، مسجد بھی میرے اندر ۔۔ سبھی رشتے میرے اندر ہیں میں کہاں ہوں ، کدھر جارہی ہوں میں تو مستی میں چلتی جارہی ہوں ۔۔ مستی جنگل اور دریا کے سنگم میں ملی ہے ، یہ اوج مجھے یار سے ملا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں وہ شہسوار ہوں جسے کوئی مات نہ دے پائے ۔۔میری رفتار کسی بھی گھڑسوار سے تیز تر ہے کہ یک مشت میں بلندیاں میری مقدر ہیں ۔میں ذات کی قلندر ہوں ! میں شہباز ہوں ! کون میرے پیچھے آسکتا ہے کہ میرا بسیرا بلند فضاؤں میں ہوگیا میں نے اڑنا سیکھ لیا ۔۔۔پنچھیوں کو اڑتے دیکھ کے اب آہیں نہیں بھرتی کیونکہ میری اڑان بہت بلند ہے ۔میری اڑان بلند ہے ۔۔میرے پاس ہفت اقلیم کی دولت ہے ۔میرے پاس دولت کے خزانے ہیں ۔علم کا خزانہ مجھے مل گیا ہے مجھے اپنا آپ مل گیا ۔مجھے اس نے مکمل کردیا ۔۔۔۔۔۔۔میرا یار مجھ میں بس گیا ہے ! میرا یار مجھ میں بس گیا ہے ! مجھ میں بیٹھ کے تار ہلاتا ہے ! میں تار پر لہو بہاتی ہوں اور سیاہی بنتے لکھا جاتا ہے ۔ درد دلاں داں کون جانے ! کوئی نہ جانے گا کہ یہ میں ہی جانوں


درد کا سب سے خوبصورت چہرہ محبت ، عشق ہے ۔عشق کے جام مجھے دیے جارہے ہیں میں مستی میں ابھی ہوش میں ہوں ۔۔مجھے کیا معلوم میں کہاں جارہی ہوں میں بس چلتی جارہی ہوں ۔۔پہاڑ پر تو کبھی ندیوں پر تو کبھی آبشاروں سے تو کبھی ڈھلانوں سے تو کبھی دریاؤں سے کبھی درختوں کو چیرتے ہوئے ۔۔۔مجھے پتھر سلام کرتے ہیں ! مجھ سے ندیاں باتیں کرتی ہیں ! میں نے اسے پالیا ہے اس لیے درخت مجھے سجدہ کرتے ہیں ۔پہاّڑ میرے آگے جھکتے ہیں ! مجھے آقائے دو جہاں کی محبت نے سورج کردیا ہے ۔ آسمان پر پڑے سورج کی میرے سامنے کیا حیثیت ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
Jul 24​
cleardot.gif

cleardot.gif

cleardot.gif
cleardot.gif

جس کی کُرسی عرش پر قرار ہے
وہ میرے ساتھ چلا ندی پار ہے
ندی میں عشق کا رنگ دیکھا
مقتول عشق ندی کنارے بہتا پایا
سُرخی نے لالیاں ندی اچ نیراں
سرخی اُتے نور، نور نال چلی جاندا اے
سرخی اندر وی ! سرخی باہر وی اے
ہستی اچ ہستی نے ہستی لبی اے
آئنہ جیوں آئنے دے اچ رلیا اے !
آئنے تے نور دا ناں لکھیا اے
سرخی نے پالیا سرخی چولا اے!
میں لبدی پھراں کتھے گیا چولا!
یار نے رقص آئنہ وچ ویکھیا اے
جیویں ندی اچ ندی ملدی پئی اے !
میرا رنگ روپ اُڈیا
لالی نے کیتا مست حال
دل اچوں آری ہوگئی آرپار
بسمل وانگوں تڑپدی پیئ آں
اُوس نے ویکھ ٹھردی پئیی آں
یار حدوں حدی قریب ہویا اے
اودھی خشبو دی سنیاں واجاں ایں
اللہ ھو ! اللہ ھو ! اللہ ھو !
ھو دی گلاں کریاں ہن کیہ کیہ میں
ھو نے کردی انگ انگ اچ سج دھج
نچاں ''الف '' تے ''میم'' دے سنگ
''م'' دی ہستی ویکھاں گی الف دے نال
اس کی آنکھوں سے جہاں دیکھا میں نے
کیا بتاؤں میں کہ کیا ہے میرے دل کا حال
وصل کے شیریں شربت کا جام مل گیا ہے
وصل دی بوٹی مشک و عنبر وانگوں
کیہ دساں کیہ اے ہن میرا حال
الف دی مستی لکی اے میری ہستی اچ
مٹڈے جاندے نیں ہن ہستی دے زنگ
بارش چھم چھم کریندی جاندی اے
وصل دی گلاں کریندی جاندی اے
بارش میں بھیگی بارش بنتی گئی
بارش نال بادل دا بسیرا
چھاندا جاندا اے ہنیرا
اندر سویرا تے بار ہنیرا
مینوں بار کج نظر نہ آوے
ایڈھے اچ میں ڈبدی جاندی آں
جیویں رت ہنیرا لاندی جاندی اے
رشنائی اندر چھاندی جاندی اے
ایس رشنائی نے مینوں کیتا بے رنگ
رشنائی نوں رشنائی لکھواندی پئی اے
عشق دی رشنائی وڈی نورانی اے
لکھدی پئی میں ایس دی کہانیاں
ھو ! ھو ! ھو! ھو !
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو​
 

نور وجدان

لائبریرین

سالارِ قافلہ !اے میرِ امم
تشریف دل میں شاہِ امم
تسکینِ جان و دل کا کیا سبب
نور کو کردیا اپنے در کا سگ
اُمِم الکرسی فلک سے جب اتری
تشریف فرما تھے اس پر ہادیِ امم
مخاطب فرما ہوئے جب شاہِ امم
زلَزلے چلتے چلتے یکدم سے تھمے
ان کی محفل میں رنگ نئے ملتے رہے
حسن تو کبھی حسین سے ملتے رہے
کبھی فاطمہ نے سینے سے لگایا مجھے
شاہ طیبہ نے کبھی سر پہ ہاتھ رکھا
مقدر میں سفرِ حسینی ہے میرے لکھا
فاطمہ عالی کی نظر کے سائے میں ہوں
ان سے ملی ہے مجھے ولایت کی کنجی
میں ہوا میں اڑتا ہوا ہوں آزاد پنچھی
جس روح سے مجلی دل کل ہوا تھا
اس بہت میٹھی روشنی کا عکس ملا تھا
دمِ وصال سکوتِ سمندر ٹوٹا تھا
مدہوشی میں مگر ہوش نے ساتھ دیا
میں ان کی محفل کا آزاد پنچھی ہوں
میرے سر پر شاہِ امم نے ہاتھ رکھا
میرا دل علی نے تھام رکھا ہے
مجھے نور حسین سے ملا ہے
مجھے حسینی چراغ بنایا گیا ہے
میری قسمت نور سے لکھی گئی
میں قلم و خیال سے نوازی گئی
عالی فاطمہ نے خدمت میں لے لیا
میری قسمت کا گھوما ہے یوں پہیہ
میں نے تجدید بیعت کی محمد سے کی
مجھے نوری خلعت سے نوازی گیا ہے
نور حسینی سے میرا سینہ تراشا گیا ہے
کہیں فیض کے رنگ، کہیں شوخی چنگ
دل کے ہر ذرے کو ملنے لگی نئی امنگ
محفلِ نوری کی ہر سعید روح کو سلام کیا
جھک جھک سے سب سے پیار میں نے لیا
میرا دل جھوم جھوم کے علی علی کہتا رہا
حیدری میخانے کا مجھے طریقہ سمجھاتا رہا
دمِ رخصت آنکھ سے آنسو بہتے رہے
دل کے حال سب پر عیاں ہوتے رہے
میری شوخی درد سوزی میں بدل.گئی
کچھ پل ملن بعد ہجر کی چادر تن گئی
چشمِ نم بن اشک کے روتی رہیں ہیں
یکدم دل میں مسرت کے چراغ بجھ گئے
زبان پر تب میرے درود کے تار ڈل گئے
تسکین اس ذکر نے دل میں اتار ہے دی
کرم ہوا کہ رب سے تحفہ کیا ہے ملا
اس نے مجھے اپنی جناب میں ہے لے لیا
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
نبی نبی کی صدائیں لگاتی رہتی ہوں

نبی نبی کی صدائیں لگاتی رہتی ہوں
درود سے لبِ دل تر کیے جو رکھتی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ احساس جب قوی ہوجائے کہ قبائے بدن سے مارے فراق کے دل باہر نکلنے کو تیار پنجرے پر بار بار ہاتھ مارے ۔ کیسا ان دیکھا پنجرہ ہے جس میں قید دل خود کائنات ہے ۔۔۔ فضا بھی فضا میں منقسم ہوجاتی ہے اور بدن کی قید میں موجود کائنات کے پائی جانے والی مخلوقات اسی کو سمجھ سکتی ہیں ۔خوف ڈر کے مارے دبک جاتا ہے اور خوشی مارے کیف کے حال میں آجاتی ہے ۔۔ میرے اندر کی کائنات میں لامکان قید ہے ، وہ نور جو زمانے میں پایا جاتا ہے وہ مجھ میں بار بار ھو ھو کی صدا لگاتا ہے اور میں بھی ھو ھو کرتی ہوں ۔میرے اندر ھو کے علاوہ اب کچھ باقی نہیں رہے اب کہ یہ حال ہے کہ بدی کی ساری نسوں کو نچوڑ کے باہر پھینک دینا چاہتی ہوں تاکہ جسم کے خون میں پاکی کے علاوہ اب کچھ بھی نہ رہے ۔پاک محمد کا کلمہ میری زبان پر رہے اس پاک ذات کی کبریائی کی قسم کہ اللہ نے سب سے پیاری روح محمد کو پیدا کرکے ہم پر کس قدر احسان کر دیا ہے اور ہم اس کو دیکھ دیکھ کے خوش ہو لیتے ہیں کہ ہم بھی معراج پا سکتے ہیں ہماری روح کو اب امید لگ چکی ہے کہ ہم بھی پیارے پیارے محسن کے پیروکار ہیں ۔وہ ہم پر احسان کریں تو ہم پر فرض ہے کہ احسان کریں ۔۔۔

اے شمعِ محفلِ دل نئی زندگی ملی ہے
اے شمع ِ محفلِ دل نئی روشنی ملی ہے
دل تیری مہک میں خراماں خراماں گھوم رہا
عنبر و عطر سے سے تابندگی ملی ہے
تیری کملی میں چھپنے کی تمنا بہت تھی
تکمیلِ تمنا بعد نئی ہستی ملی ہے
حسین کے نانا ، فاطمہ کے بابا ، میرے ابرار
آپ کے نوری ہالے سے جذب مل گیا ہے
ملن کی آرزو میں درد سے دل بھرپور ہے
میخانے کیسے جاؤں پاؤں میں زنجیر ہے
اے شمع محفل دل ہجر کے مارے لیر لیر ہے
اے شمع محفل مجھے اپنے در پر بلا لیجیے
اے شمع محفل دل ، اپنے در پر نعت پڑھوا لیجیے
اے مشک و عنبر و گلاب سے بر تر ہستی
اے مزمل و مدثر اے یسین و طہ
اے شمع محفل دل آج وجد میں ہے
اے دل ! دل کو بہت تڑپ ہے
محمد حق ! محمد حق ! محمد حق ! محمد حق ! محمد حق ! محمد حق
محمد حق محمد حق ! محمد حق ! محمد حق ! محمد حق
یا نبی سلام علیک یا نبی سلام علیک
یا رسول سلام علیک یا رسول سلام علیک

'لا' کی کہانی 'مٹی' کیا سنائے گی
'لا' خود زبانی 'مٹی' کو بتائے گی
'لا 'کی روانی میں الہ کا مستی ہے
'لا' کہنے بعد 'مٹی' نغمہ سنائے گی
'لا' کہتے 'الا اللہ' کی صدائیں ہیں
سرمدی ''حق اللہ'' کی فضائیں ہیں
وہ جو میرے اندر کی روشنی ہے
وہ مجھ میں 'ھو 'بن کے بولتی ہے
اس روشنی میں 'مٹی 'جل رہی ہے
تجلیِ عشق مرشد بن چکی ہے
میں اس کی ہوں یا وہ میرا ہے
'لا الہ' کی باتیں 'مٹی' نے جانی ہے
'لا' کی 'مٹی' میں' الہ 'کی قید دیکھ
کائنات میں کائنات کا جلوہ دیکھ
آئنے کا آئنہ فقط ایک واحد آئنہ
اس آئنہ میں مدغم عکس ہستی دیکھ


 

نور وجدان

لائبریرین

ازل نے کی ابد کی جستجو مقامِ ھو تلک
جنوں کو مل ہے جائے آبرو مقامِ ھو تلک

فلک کا نور جب وجود میں سما رہا تھا تب
خودی میں آئنہ تھا روبرو مقام ھو تلک​
نبی کی میم کی کہانی الف کی مثال ہے
خلق جو آئنہ ہوا ہےھو مقام ھو تلک

حسن ، حسین یہ علی کے ہیں چمن کے لالہ زار
انہی سے ہستی کی ہوئی نمو مقامِ ھو تلک​
دریچے دل کے وا ہوئے ہےبکھرا سحر چار سو
درود سے ملا ہے رنگ و بو مقامِ ھو تلک

جو عفو کی مثال ہیں وہ فاطمہ کمال ہیں
ملا ہے ان سے اوج نورؔ کو مقامِ ھو تلک

مجھے ہے زعمِ شعر گوئی وہ کہ مسکرائے جائے
قلم ہے چلتا جب رسائی ہو مقامِ ھو تلک​
 

نور وجدان

لائبریرین
جفا کا نام مت لے ، یاں وفا سے کام چلتے ہیں
وہی دنیا میں باقی رہتے جو مر کے بھی جیتے ہیں

ملی معراج ھو سے ، عکسِ ھو میں ذات ہےموجود
کمالِ رقص بسمل میں ہی ہم اپنا اوج پاتے ہیں

رموزِ عشق ہجرت کی بدولت کھولتے ہیں ہم
ہمی قالو بلی کے رقص میں اکثر جو رہتے ہیں​

نمودِ ہست کی فطرت کے جلتے دیے رہنے​
قلندر پر ازل کے پردے سارے فاش ہوتے ہیں

ازل کے نور نے مجذوبیت بخشی ، ہوں مثلِ بحر
تلاطم خیزی سے طوفان میری گھبرا جاتے ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین

خبر نہیں تھی جانے کیسے لہروں میں گھرے
بھنور کی کیا مجال یہ ہمیں ڈبو چلے

کہاں کہاں تلک مجھے اڑان مل سکے
ترے یہ صید جال بچھنے چار سو لگے!

یہ کیسا دھوکہ زندگی ہے! کون جانے ہے !
دکھاوا یہ خوشی کا جانے کب تلک چلے !

کمان سے جو تیر نکلا ، سینے میں کھبا
تری نگہ سے کتنے دل فگار ہو چلے

قصور روشنی کا تو ہے، جو اندھیروں میں
اجالے کی تلاش میں ادھر ادھر پھرے

پہاڑوں پہ چڑھنے کی لگن نے مات دی
مگر لو عشق کی بھی دھیمی دھیمی ہے جلے

ہمارے حصے دشت کی لکھی سیاہی ہے
اسی لیے بھی تارکِ رہ ہونے ہیں لگے

سیاہ رات میں ہی آگہی کے چاند سے
بجھے چراغ ذات کے ستارے تھے بنے​
 

نور وجدان

لائبریرین
اللہ آسمانوں زمینوں کا نور
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
وہ نور زمین و زمانے کا ہے
کام حقیقت کو پہچاننے کا ہے
جو اندر بھی موجود ،باہر بھی موجود
اسی کا کام راز افشاں کرنے کا ہے
انسان میں اس کا نور خاص ہے
نائب کا کام اس کو جاننے کا ہے
ساجد بھی انسان ہے ،مسجود بھی ہے
عشق کی سلطنت میں کام قربان ہونے کا ہے
اللہ نور السموت ولارض
ملائک میں اس کا نور ہے
خلائق میں اس کا نور ہے
دِلوں کو پھیرتا ہے غرور
تکبر لے جاتا ہے پھر نور
ڈھونڈتے رہتے ہیں ہم سرور
دیدار کروں گی اس کا میں ضرور
میں نے دیدار کرنا ہے اس کا ضرور
میخانے میں جام پینے سے ملا ہے نور
جلوہ نور دل میں ، کیا کروں غرور
سجدہ کرتے ہوتے رہنا نور نے مسرور
اس کا جلوہ پاتے پاتے جلوہ ہورہی ہوں
سجدہ عشق ادا کرنا عاشق کا کام ہے
ھو کا اندر سما جانا اسی کا کام ہے
اندر باہر کون ہے؟
میں کیا جانوں!
اوپر نیچے کیا ہے؟
میں کیا جانوں!
زمین کی گردش کا ردھم
جس میں چھپا ہجرت کا غم
زمین بڑی گردش میں ہے
اس کی گردش کو کس نے تھام رکھا ہے؟
میں کیا جانوں؟
میں ہوا کے دوش میں اڑتی رہوں
فضاؤں میں بسیرا میرا رہے
اس کے پاس جانے لگی ہوں
میں خود میں خود سمانے لگی ہوں
کیسے جلوہ خود کا میں خود کروں
کیسے سجدہ میں خود کو خود کروں
کیسے نماز خود کی خود پڑھوں
کیسے ذکر میں اپنے محو رہوں
اپنی حقیقت ''میں '' کے سوا کچھ نہیں !
میں ایک حقیقت لیے ہوں
میں حقیت کی ترجمان ہوں
میں خود اس کا فرمان ہوں
''کن '' سے تخلیق کی ہے
انما امرہ اذا ارادہ شیا ان یقول لہ کن فیکون !
اس کے ارادے سے ترتیل ہوئی
تخریب سے تعمیر ہے ہوئی
اس نے اپنے لیے چن لیا ہے
مجھے خود ہادی کردیا ہے
اس کے لیے بھاگوں چار سو
اندر جستجو محو رکھے کو بہ کو
میں اس کی یاد میں غرق ہورہی ہوں
وہ مجھے کہے جارہا ہے: فاذکرونی اذکرکم
اس کا ذکر میں کیے جارہی ہوں
اپنے ملائک سے کہے جارہا ہے
نور کا ذکر بُلند کرو !
میری دوست کا ذکر کرو
مجھ پر سجدہ واجب ہوا
میرے ہادی نے میرا ذکر کیا
مجھے اپنا ولی کردیا ہے
میں اس کی ولایت میں ہوں
اس نے خودی میں جلوہ کردیا
وہ چار سو نظر آتا ہے
اندر اس کو کیسے دیکھوں
میں خود میں گم ہو چلی ہوں
میں محبت کی گمشدہ بستی
میرا پاک ہوگئی ہستی
اس نے چنا مجھے یہ اس کی مرضی
میں نے ڈالی نہیں اس کو کوئی عرضی​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے


اس کی شہنائی گونج رہی ہے
روح مستی میں گھوم رہی ہے
جوگ پالتے کردیا اس نے روگی
اس کی بات میں خود کو میں بھولی
ضربِ عشق سے ذائقہِ موت ملا
کلُ نفس ذائقتہ الموت
یہ کون میرے سامنے ہے
میں کس کے سامنے ہوں
وہ میرے یا میں اس کے۔۔۔؟
ہجرت میں گمشدہ روح پہچانے کیسے؟


وہ جو اس جہاں کا سردار ہے جس کے اشارے سے سب کام چلتے ہیں ۔ جس نے میرے دل میں دھڑکن دی اور اس دھڑکن میں اپنے نام سے رونق دی ۔ اس کو جلوہ دل کی مٹی کو بہت نرم کردیتا ہے مگر اس کے کے ساتھ غم کی ایسی کیفیت لا حق ہوجاتی ہے جس کو میں کوئی بھی نام دینے سے قاصر ہوتی ہوں ۔یوں لگتا ہے کہ دل کو مٹھی میں بند کرکے نچوڑ دیا گیا ہے مگر ہر سانس شہادت دیتی نظر آئے اور زندگی آزار سے آزادی کی تمنائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!اس دل کو درد ملتا ہے مگر کون جانے کو کتنا درد ملا ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟ شاید صدیوں کا درد ملا ہے یا ایک پل میں صدی کا درد ۔۔۔۔۔۔! میرے سوا اس درد کو کون جان سکتا ہے کیونکہ اس کو سہنے والی میری اپنی ذات ہے مگر میں اپنی اوقات میں رکھی ہوئی اس سرخ پلیٹ کو دیکھتی ہوں جس میں چھپا وصل کا نقاب مجھے اپنی اوقات سے بڑھ کے دکھتا ہے ۔ بحرِ وجود سے نکلتی درد کے بے کراہ لہریں ساحل پر شور کرتی ہیں تو لفظوں کی صورت شور کی آواز میں بھی سن لیتی ہوں ۔ لہریں بحر سے علیحدہ ہوتے ہی اپنا وجود دھارتے مٹی میں مدغم ہوتی جاتی اور میں اپنی ذات کے منقسم ٹکروں کے رقص پر حیرت کناں! جونہی حیرت کے دریا میں غوطہ زنی کرتی ہوں تو اپنی حمد اپنے یار سے سن کے خراماں خراماں چلتے اس کے سامنے سر بسجود ہوجاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔

اے یار سجدہ بنتا ہے
سجدہ کے بعد جلوہ ہے
جلوہ کے بعد حیرت ہے
حیرت کے بعد کچھ نہیں ہے
میں غائب ہوں ! وہ موجود!

مقامِ شُکر کہ موت آن پُہنچی
مقامِ شُکر کہ میں چُن لی گئی
مقامِ شُکر کہ بعد موت زندہ ہوں
مقامِ شُکر کہ آبِ حیات پیا ہے !
مقامِ شُکر اس کو پہچانا ہے !
مقامِ شُکر کہ اس نے بنایا مجھے
مقامِ شُکر کہ میں اسکا جمال
مقام شکر کہ میں اس کا کمال
مقامِ شُکر کہ میں اس کے ساتھ
مقامِ شُکر کہ وہ ہے میرے پاس
مقامِ شکر کلمہ توحید میں پڑھا
مقامِ شکر کہ مرشدیت محمد کی ملی

اپنی ذات جب فنا کے سفر پر روانہ ہوئی ہے تب سے ہستی کے ذرہ ذرہ نڈھال مستی میں اپنا وجود کھوئے جارہا ہے اور بادل بنتے ابر کی شکل میں ڈھلتے برسنے کو تیار ۔۔۔۔۔۔! وہ جو شاہد ہے ، وہ جو مشہود ہے ! نور کو اسی کا طرز عمل ملا ہے جس پر وہ چلتے یار سنگ رقص کرے گی ۔ میرا نام آسمانوں میں نور کے نام سے لکھا ہے کہ لوح قلم پر میری پیدائش اسی نام پر رکھی گئی ۔ہستی تو نور بن کے بکھر جانی ہے اور باقی کچھ بھی نہیں بچنا ! اس کے ساتھ پر کچھ ایسی گمان ہوتا ہے کہ میرا وجود جبل النور کی مانند روشن ہے اور میں اپنی حمد میں خود مصروف ہوں گویا کہ میں یار کی تسبیح کرتی ہوں ۔دوست جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں اور میں نے بھی اپنے یار کو پہچان لیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ تیرا نام نور ہے اور میں کہتی ہوں کہ مالک تو تو سراپا نور ہے ! نور کا کام یقین کی روشنی دینا ہے ۔ حق ! حق ! حق ! میں اس کے رکوع میں گم ہوں اور اس میں فنا ہوں ۔۔! فنا کے سفر میں پہ در پہ انکشافات نے وجود میں بھونچال بپا کردیا ہے اور حرارت بدن نے محشر کی سی گرمی بخش دی ہے ۔میری ہڈی ہڈی اس کی تسبیح میں گُم ہے ۔ اس محشر سے جسم روئی کی مانند بکھرتا جارہا ہے جیسے شمع اپنا بدن گھل گھل کے ختم کردیتی ہے بالکل اسی طرح ہڈی ہڈی سرمہ ہوتی جاتی ہے مگر کیا غم ! اس کی فنا کے حال میں کیا پروا؟ کیوں ہو پروا ؟ میں تو اس کی تسبیح میں ہوں اور مجھے لا الہ الا للہ کی تسبیح ملی ہوئی ہے ۔

اس نے نور کو آزادی دی ہے ، آزادی جو بعد موت کے ملتی ہے ! جو بعد فنا کے ملتی ہے ! جب اس سے فریاد کرتی ہوں کہ تجھے دیکھنا ہے ! اپنی دید تو کرادے نا ! تو وہ کہتا ہے کہ جاؤ ! نوریوں !

تڑپ دلِ مضطر کی بڑھ چکی ہے
ابر رحمت کی برسات ہوچکی ہے

اس کو تسلی دو کہ اس کی بات سن لی گئی ہے ۔ وہ پاس آتے ہی حمد شروع کرتے ہیں میں اپنے مالک کی تسبیح میں ان کے ساتھ ہوتی ہوں اور صدائے درود عاشقانہ مجھے مسحور کیے دیتی ہے

اللھم صل علٰی محمد و علٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔

درود کے ساتھ پیرکامل کی نظر ہوجائے تو دل میل کے دھل جاتے ہیں اور کثافتیں سب غائب ہوجاتی ہیں ۔دل توحیدی میخانہ بن جاتا ہے ۔ جام در جام پینے کے بعد میخانہ کو میخانے کی طلب ہوتی ہے کہ اب پیاس اس صحرا کی اسی در سے بجھ سکتی ہے کہ جانے کب اس در پر ملے حاضری اور کب ہو یار کی دید ، کب ہو مرشد کامل کا جلوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔! مرشد کامل کی نظر ، کرم ہے مگر اب دل دید کے سوا کچھ مانتا نہیں ہے ۔۔۔جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اسی در کی ہوجاؤں اور دل کے بجھے چراغ اسی در کی روشنی سے جلالوں ۔۔۔۔۔۔!

لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں کھال اترنی ہے
لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں زبان کھینچی جانی ہے
لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں دار پر مستی کرنی ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



 

نور وجدان

لائبریرین
دل کے پاس کیا ہے !

دل پریشانم و حیرانم کہ مست خرام بھی ہے اور وہ کہ جلوہ نما نہیں ہے ۔ وہ کہاں ہے ؟ وہ یہاں ہے ! وہ فلک پر ہے یا وہ زمین پر ہے ! وہ زمین ہے یا وہ فلک ہے ! وہ جہاں کے خراباں ہائے میں پوشیدہ ہے یہاں خوشنما گلاب کی مہک میں بکھرتا رہا ہے ! وہ دل میں ہے یا دل اس میں ہے ۔ اسکے فرق نے دل میں زخم کردیے ہیں ،دل اس کا آئنہ ہوں ، یا اسکا جلوہ ہے مگر اس کا آئنہ باقی جہاں ہے ، جو خود کے رو برو اسرارِ یار سے ناواقف ہیں ، وہ جو دید سے محرومی پہ نالاں ہیں ، وہ جو زمانے کی زنجیر پر رقم شدہ واقعات میں اس کے لیے سرگرداں ہیں ۔ کبھی کبھی دل پر برق گرتی ہے تو ان کو لگتا ہے کہ وہ شریکِ غم ہے ، وہ وصل میں ہیں ، تب یہ شور اٹھتا ہے

وصل جب ہوگا ، تب رات ناچے گی ، چاند ڈوب جائے گا ، سورج ابھر جائے گا ، عشق پابہِ زنجیر سرطورِ رقص کنا ہوگا


وہ پوچھے گا شراب کتنی پی !
''بہت تھوڑی ، بہت کم !''
وہ پوچھا گا ابھی دل نہیں بھرا!
''محویت نے ہوش کہاں دیا''
وہ پوچھے گا موت کیسی لگی
''زندگی تیری سنگت لگی
موت تجھ سے دوری لگی''
وہ پوچھے گا ، جلوہ کے بعد چوٹ لگی
حیرت کے بعد اسرار کی معرفت کیسی لگی
ادب خاموش ! عشق سربستہِ راز
یار سے دیوانگی اسکو اچھی لگی
یار نے شراب طور پلادی
زندگی بس تب اچھی لگی
ھو ھو ھو کی صدائیں دل نے دیں
حق ! حق حق ! دل نے کہا !
آئنہ دل ، آئنہ جہاں ، آئنہ نشان
تو کہاں ، تو نہاں ، تو عیاں
یہ بھی تیرا نشان ، وہ بھی تیرا نشان
اسنے پوچھا !
جلوے کی تابش میں جلنا کیسا لگا
''جلا کیا بولے ، بن جلے کیا بولنا''
نسیم طور پر چلے تو اچھی لگے
دیے کی لو بجھے تو اچھی لگے
زندگی ختم ہو ، بندگی رہے
بندگی ختم ہو ، تابندگی رہے
تابندگی ختم ہو ، سازندگی رہے
سازندگی ختم ہو ، وفا باقی رہے
وفا شاملِ حال رہے ، وہ رہے
میں نہ رہوں ، وہ رہے
ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو
وہ پوچھے ہے کہ تعمیر کیسی لگی ، فنکار کا شاہکار کیسے لگا ، یہ شاہکار جو مدت بعد بنتا ہے ، یہ جو بنتا ہے ٹوٹ ٹوٹ کے ، جو پھر بار بار توڑ دیا جاتا ہے ، ٹوٹنا کیسے لگا !

''تو جو کہے ، وہ سب اچھا ہے ، تو جو کرے وہ سب اچھا ہے ، تیرا درد سب سے اچھا ہے ، تیری قربت میسر ہے ، دل کو اور کیا اچھا لگے ، دل میں بس گیا یار ، یار نے بوٹے سے کہا ، بوٹے نے کلی سے کہا ، کلی نے پتیوں سے ، پتیوں نے مل کے کہا۔۔۔۔۔ اللہ ھو اللہ ھو

دیدار مئے بعد منزل ہوجائے
انتظار طویل ہے ختم یہ ہوجائے
نور کے ہر ورقہ ہائے دل پہ لکھا
الا اللہ ھو ! الا اللہ ھو ! الا اللہ ھو
میری خاکی زیبائش میں حسنِ یزدانی ہے
روحی ، صبوحی ہوں ، ازل کی تپش ہوں
حسن کا مرقع ، حسن مجلی ہوں ہوں
نگینہ نور ہوں ، گنجینہ ِ اسرار ہوں
وہ میرا حبیب ہے ، میں اسکی ُحب میں ہوں
وہ جو حبیبی ہے ، وہ زمانی ہے ، وہ نورانی ہے
عقلِ کل ، حجاب ازل ہے ، میرے سینہ سے اٹھا اک پردہ
دکھا اسکا جلوہ ، دل کی تڑپ دیکھو ماہی بے آب کی مانند
دلِ بسمل کو جلوہِ یزدانی ہوا ، دل نے کہا ھو ھو ھو ھو
اک تو ہی تو ، تو ہی تو ، تو ہی تو ، میں کہاں ہوں
مجھے ڈھونڈو میں کہاں ہوں ، کوئی گمشدہ ہوگیا
کوئی مل گیا اپنے اصل سے ، کوئی گمشدہ ہوا ہے
جو ملا اصل سے ہے ، وہ عزت و شہرت کی وجہ ہے
ویہ زمانہ جو میں نے دیکھا تھا ، وہ زمانہ سربستہِ راز ہے
کن سے فیکون کے دل میں گونجی صدا ،
دل نے نغمہِ ازل کے گیت چھیڑ دیے ،
ساقی نے شرابِ مئے شہادت پلادی ہے
وحدت کے سو رنگوں کی دنیا دکھا دی ہے
'' ساقی اور پلا ، دل نہیں بھرتا
یہ روح کا قلب ترا آشیانہ ہے
جس میں چھایا ہر سو ویرانہ ہے
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو !

وہ میرے سامنے ، اسکا سلام کیا
یا سلام یا سلام یا سلام یا مومن ،
یا واجد یا قھار ، یا قھار یا باسط ''
''اے نورِ ازل سے ساقی کے رتبے پر
اے نورِ ہجر ! ملن کی پیاس ، ملال کے درجے پر
اے شمعِ ہدایت ! جل جل کے جلال کے درجے پر
اے حسن کے شاہد ،شاہد ہوتے ہیں جمال کے درجے پر
وصل جب مکمل ہوجائے تو عاشق ہوتے ہیں کمال کے درجے پر
جب وہ سماجاتا ہے تو ہوتے ہیں حال کے درجے پر ،
جو وہ نہ ہو دل میں تو ہوتے ہیں قال کے درجے پر

اے عالی ِ جمیل ، اے حسن کی شمع !
حسن بڑھا دے ، دل کو شمعِ نور البقیع بنا دے
شمع کو نگینہِ ہائے سرفرازی کا سرور تھما دے
پرواز ، احساس ، حضوری ، صبوری کے پروانے شمع کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں
شمع جل رہی ہے ، ضوفشانی کیا ہے ، تجلی اسکی دکھ رہی ہے
دل کو طور کردیا ، نور و نور کردیا ،
سینہ کھول دیا ، مدینہ کردیا ،
یا محمد ! یا محمد ! اے میرے محمد آپ کو سلام
اے مدینہ ! اے مدینہ ، مدینے کی ہوا کو سلام
اے بادِ صبا ، اے گلِ اطہر ، اے شمعِ ہادی، اے شہِ ابرار
دل کے پاس کیا ہے ، دل کے پاس قبلہ نور ہے
دل کے پاس کیا ہے ، دل بنا عرشِ رفعت ہے
دل کے پاس کیا ہے ، دل مجلی ، منور ھو سے ہے
دل کے پاس کیا ہے ، دل پھولوں کی بستی ہے
دل کے پاس کیا ہے ، دل کے پاس وصل کی مٹی ہے
دل کے پاس کیا ہے ، دل کے پاس آنکھ ساقی کی ہے
دل کے پاس کیا ہے ، جلوہ ء حیرت رخِ جانم ہے
جلوہ کبریاء ہے ، جلوہِ ہے ، دل نے سجدہ کیا ہے
دل کے پاس کیا ہے ، وہ جو دل میں مکین ہے
وہ نورِ حزین ، وہ میری جستجو کی مکمل تصویر ہے
دل کے پاس کیا ہے ،اسکی تلوار لا الہ اللہ ہے
دل کے پاس کیا ہے ، دل میں عرش ہے
دل کے پاس کیا ہے ، اسمِ اعظم سبحانی ہے
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین
دل کے پاس کیا ہے ، افلاک دل میں ہیں
دل کے پاس کیا ہے ، اسماء ھو کو نور ہے
دل کے پاس کیا ہے ، عشق مرشد بنا ہے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
سبحان ھو --------پاک ہے وہ ذات

سبحانک اللہ ھو ! یہ تسبیح عبد الباسط پڑھتے ہیں
سبحانک اللہ ھو ! یہ تسبیح عبد الرزاق پڑھتے ہیں
سبحانک اللہ ھو ! یہ تسبیح عبد المقیم پڑھتے ہیں !
سبحانک اللہ ھو ! یہ تسبیح عبد الرافع پڑھتے ہیں
شہادت ، مشاہد کی عبد العلیم دیتے ہیں
ولایت ، عبد الوالی، اللہ سے پاتے ہیں
یہ نیند ، یہ غنود ، یہ شہود ، اس کا ظہور
دل میں سکوت ، مٹ چکی ہیں حدود !
سجدہِ شکر واجب، مغفرت ، الغفور سے پاتے ہیں !
سجدہِ تعظیم واجب ، پاکی جس ذات کی بیان کی!
سجدہِ ھو واجب، العالی کی پناہ میں آنے کا !
سجدہ فنا لازم ہوتا ہے، المقسط کی آمدِ پر !

صبوری میں ، پھول کھل رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ پھول جو میرے تیرے ہیں ، یہ قبائے ہاشمی ہے ، یہ لباسِ برہنگی ہے ، یہ اقتباسِ بندگی ہے ۔ یہ تابندگی ! یہ رفعت ! یہ العالی کی باتیں ہیں ، یہ جو رونق ہے وہ میرے مطلبی ، ہاشمی کے دم سے ہیں ، یہ جو نور کی شعاعیں ہیں وہ میرے مجتبی ، حیدر کے دم سے ہیں ! وہ جو خامشی ہے ، سکوت ہے وہ میرے عثمان کی لطافت ہے ، جو چشمہِ رفعت ہے وہ میرے بو بکر کی عنایت ہے ۔ یہ سب جو مل رہا ہے ، مرادوں کو زبان مل گئی ، تنگی ، خوشحالی بن گئی ، دل کو مئے پہ مئے پلائی جارہی ہے اور ساقی کہے جارہا '' مانگ ''
میں کہتی ہوں ، ساقی اور پلا ، اور پلا ، ساقی اور پلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ ھو ! اللہ ھو ! لا الہ الا اللہ ھو ! لا الہ الا اللہ ھو المالک ، ھو القادر ، ھو الخالق ! ھو الباری ! ھو العالی ! ھو الرزاق ! ھو الجبار ! ھو القھار ! ھو الوہاب ! ھو الواجد ! ھو الماجد !لا الہ الا اللہ ھو ! سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت سمیع العلیم ! ھو السمیع ! ھو العلیم ! ھو الخبیر ! ھو الکبیر ! ھو الجمیل ! ھو الطیف ! ھو اللہ ! ھو ! ھو ! ھو ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ !

اے شافعی محشر ، تم پہ لاکھوں سلام !
اے والی کوثر ، حجاب ازل ہٹا دو !
اے جمیل عالی ! اپنی دید کرادو !
اے طہ و یسین ! میری عید کرادو!
اے شمس الدحی اے بدر الدجی !
اے ندائے غیب ! اے صدائے کیف
اے صدائے نغمہِ ھو، اے صدائے دلبری !
اے صدائے غنود ، مٹ گئیں حدود !
اے صدائے غنود ، میں ہوگئی لا محدود!
لا مکاں کی منزلت پاتا ہے کون کون
کعبے کو دل میں سجاتا ہے کون کون
دل میں ''ن '' ، دل میں '' ق''
دل میرا ''ح---م'' دل میں ''یسین ''
دل اسمِ نوری کا نورِ النور ہے
ْ دل میں ''ھو '' کا ظہور ہے
یہ منزلِ فنا ہے ، یہ منزلِ بقا ہے
یہ منزلِ حیا ہے ، یہ منزل وفا ہے
یہ منزلِ دعا ہے ، یہ منزل گیان ہے
دل میرا میان ، اسکی اتری تلوار ہے
قلب میں اتری اسکی اتری تلوار ہے
لا الہ الا اللہ ھو ! الا الہ الا اللہ ھو !
یہ قیود ، یہ حدود ، چھا گئی غنود !
دل میں اتر چکی سورہ الاھود !
وہ سورہ ''ق'' ، وہ سورہ النور!

یہ صحیفہِ ھود یہ صحیفہ النور ، یہ صحیفہ 'ق' یہ شجرِ سر سبز کو جو پھلوں سے بھرپور ہے ، جس میں اس کا نور ہے ،وہ بانٹے جارہا ہے اور دیے جارہا ہیں ! وہ شجر جو پاکبازی میں مریم سا ہے ، وہ شجر جو رفعت میں ''ھود '' سا ہے ، وہ شجر جو شان و شوکت میں '' لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین '' کی روح لیے ہوئے ہے ! وہ جو شجر جس کے اندر ''الوالی '' کے راز پوشیدہ ہیں ، وہ شجر جسکے دل میں صحیفہ النور ہے

یہ روح ہے ، یہ مرکز و قلب سے ہے ، وہ جو اس کے وطن سے ہے ، وہ روح جو اسکا ذکر لیے ہے ، وہ روح جو ہماری خلق کی گئی صورتوں میں حسین ہے ، وہ صورت جمیل الجمال ہے ، وہ المتعال کی مثل ہے ، وہ حال ہے ، اسکا دل میرا قبیلہ ہے ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ ! اللہ !اللہ ھو ! اللہ الباقی ! اللہ الشافعی ھو ! اللہ الکافی ھو ! اللہ المالک ھو ! اللہ الخالق ھو !

تیرے حسن و جمال کی قسم
تیرے جلوے جلال کی قسم
تیری حشمت و قربت کی قسم
تیری معینی ، تیری پاکی کی قسم!
دل میں سکینہ اتری ! دل میں ،
یہ جو تیرا مل رہا ہے سرور
میرا دل بن گیا ہے طور

یہ کونین کی باتیں ، کونین کے والی نے کی کہا: لا مکان کی منزلت پاتا ہے کون کون ، لا مکانی میں سبحانی کلموں کو اٹھاتا ہے کون کون ! وہ پاک ذات جسے جیسے چاہے نواز دے :لا الہ انت سبحانک انی کنت من الظلمین ! یہ جو نور ہے تیرے دل میں یہ بقا کی علامت ہے ، یہ سجدِہ شکر ہے یہ حیا کی علامت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دانائی کی ، حکمت کی سبیل سے اٹھالیے چشمے ، ایک ندی بن گئی ، اک سبیل ! پل صراط پہ چلنے کو ہوگئی تو تیار ، تیرے دل میں اتری تلوار ، میری تلوار ہے جس پہ لکھا ہے لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین ! ۔۔​
 
آخری تدوین:
Top