امیر مینائی میری تربت پر اگر آئیے گا - امیر مینائی

کاشفی

محفلین
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)

میری تربت پر اگر آئیے گا
عمر ِرفتہ کو بھی بُلوائیے گا

سب کی نظروں پہ نہ چڑھئیے اتنا
دیکھیئے دل سے اُتر جائیے گا

آئیے نزع میں بالیں پہ مری
کوئی دم بیٹھ کے اُٹھ جائیے گا

وصل میں بوسہء لب دے کے کہا
مُنہ سے کچھ اور نہ فرمائیے گا

ہاتھ میں نے جو بڑھایا تو کہا
بس، بہت پاؤں‌ نہ پھیلائیے گا

زہر کھانے کو کہا، تو، بولے
ہم جلا لیں گے جو مرجائیے گا

حسرتیں نزع میں‌بولیں مُجھ سے
چھوڑ کر ہم کو کہاں جائیے گا

آپ سنیئے تو کہانی دل کی
نیند آجائے گی سو جائیے گا

اتنی گھر جانے کی جلدی کیا ہے،
بیٹھیئے ، جائیے گا، جائیے گا

کہتے ہیں، کہہ تو دیا، آئیں گے
اب یہ کیا چِڑ ہے کہ کب آئیے گا

ڈبڈبائے مرے آنسو، تو، کہا
روئیے گا تو ہنسے جائیے گا

رات اپنی ہے ٹھہرئیے تو ذرا
آئیے بیٹھیئے، گھر جائیے گا

جس طرح عمر گزرتی ہے امیر
آپ بھی یونہیں گزر جائیے گا

مؤدبانہ گذارش ہے ارباب اختیار یعنی ناظمین اور موڈریٹر سے کہ وہ امیر مینائی کا نام بھی Prefix میں شامل کریں۔۔۔ شکریہ بیحد۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ جناب سخنور صاحب۔۔جیتے رہیں اور خوش رہیں۔۔۔ جناب سے گذارش ہے کہ میری درخواست پر غور فرما کر اسے امر فرما دیں۔۔ شکریہ۔۔

آپ کی درخواست پر میں کچھ کرنے سے قاصر ہوں۔ وارث صاحب، آپ کی درخواست پر شاید کچھ غور فرمائیں۔
 
Top