میری ایک رباعی

محمد وارث

لائبریرین
اربابِ محفل کی خدمت میں اپنی ایک رباعی پیش کر رہا ہوں امید ہے اپنی رائے سے نوازیں گے۔

شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدَم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نَم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم


 

فاتح

لائبریرین
شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدَم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نَم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم

واہ واہ واہ! خوبصورت کلام ہے۔ سبحان اللہ!

اگر اساتذہ کے ہاں "بے نم" کے استعمال کی کوئی مثال یاد ہو تو بتائیے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ! خوبصورت کلام ہے۔ سبحان اللہ!

اگر اساتذہ کے ہاں "بے نم" کے استعمال کی کوئی مثال یاد ہو تو بتائیے گا۔


بہت شکریہ آپ کا فاتح صاحب ہمت افزائی کیلیئے۔ مثال فی الوقت یاد تو نہیں ہے ہاں یاد آئی یا ملی تو ضرور پیش کرونگا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت اچھی رباعی ہے وارث صاحب اور اگر بے نم کا استعمال اساتذہ کے ہاں‌ نہ بھی ملا تو کوئی بات نہیں یہ ایک نئ ترکیب ہے اور ضروری نہیں کہ اساتذہ کہ ہاں‌سے سند ملے تو پھر ہی استعمال کی جا ئے -
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت اچھی رباعی ہے وارث صاحب اور اگر بے نم کا استعمال اساتذہ کے ہاں‌ نہ بھی ملا تو کوئی بات نہیں یہ ایک نئ ترکیب ہے اور ضروری نہیں کہ اساتذہ کہ ہاں‌سے سند ملے تو پھر ہی استعمال کی جا ئے -

بہت شکریہ آپ کا فرخ صاحب حوصلہ افزائی کیلیئے۔

'بے نم' کی ترکیب کیلیئے میرے پیشِ نظر 'پُر نم' کی ترکیب تھی، یعنی امجد اسلام امجد کا مصرع "کسی کی آنکھ جو پُر نم نہیں ہے' بس اسی پر قیاس کرکے 'بے نم' لکھا۔

نوازش آپکی محترم بہت شکریہ۔
 
اس موضوع کی جانب صبح سے کئی بار آچکا ہوں اور دیر دیر تک سر بھی مارا ہے پر کوئی تبصرہ کر پانے سے قاصر ہوں۔ در اصل بات جب تک بندی کے حدود سے خارج ہو کر ّعالم شاعری میں جا پہوںچتی ہے تو میں خود کو بہت ہی بے بس، ناکارہ و حقیر پاتا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس موضوع کی جانب صبح سے کئی بار آچکا ہوں اور دیر دیر تک سر بھی مارا ہے پر کوئی تبصرہ کر پانے سے قاصر ہوں۔ در اصل بات جب تک بندی کے حدود سے خارج ہو کر ّعالم شاعری میں جا پہوںچتی ہے تو میں خود کو بہت ہی بے بس، ناکارہ و حقیر پاتا ہوں۔


ہم نے مانا حضور کے ہمارے چار مصرعے کچھ کام کے نہیں لیکن محترم کیا یہ اتنے ہی مہمل ہیں کہ آپ کچھ فرما بھی نہ سکیں :)

اگر آپ کا اشارہ اسکے اوزان کی طرف ہے (اللہ کرے ایسا ہی ہو) تو بس رباعی ایک خاصے کی چیز ہے، اس کے چوبیس اوزان مخصوص ہیں جو کہ ایک ہی بحر کی فروع ہیں اور ان چوبیس میں سے کسی چار کو بھی ایک رباعی میں جمع کیا جا سکتا ہے، اور صرف ایک ہی وزن میں بھی رباعی کہی جا سکتی ہے لیکن مختلف اوزان کو جمع کرنے کا فائدہ شاید یہ ہے کہ اپنی مرضی کے اور مختلف الفاظ کھپائے جا سکتے ہیں۔

یہ تو شکر ہے اللہ کا رباعی میں صرف چار مصرعے ہوتے ہیں اگر کہیں چوبیس مصرعے ہوتے تو تمام کے تمام ہی مختلف اوزان میں باندھے جاتے۔ ویسے فارسی کے مشہور شاعر مولانا جامی علیہ الرحمہ نے چھ رباعیاں کہیں تھیں جن کے تمام مصرعے مخلتف اوزان میں ہیں اور یوں چھ رباعیوں میں تمام چوبیس اوزان باندھے ہیں، مراز یاس یگانہ چنگیزی کی کتاب 'چراغِ سخن' میں یہ چھ رباعیاں موجود ہیں۔

آپ کی دلچسپی کیلیئے، میری رباعی کے چاروں مصرعوں میں چار مخلتف اوزان ہیں جو بالترتیب کچھ یوں ہیں:

مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلن فع
مفعولن مفعولن مفعولن فع
مفعولن فاعلن مفاعیل فعَل
مفعول مفاعیلن مفعولن فع
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت اچھی رباعی ہے، کم علمی کی وجہ سے کچھ اور نہیں کہہ سکتا، وارث بھائی گلدستہءِ داد قبول فرمائیے۔ شکریہ۔
 
برادر محترم یہ آپ کیا فرما رہے ہیں۔

اول تو میں آپ کو استاد تسلیم کرتا ہوںکہ آپ کی ذات سے خاموشی سے بہت کچھ سیکھ رہا ہوں۔ اس لحاظ سے آپ کے کلام کی کسی طور تحقیر میرے لیے نا زیبا ہے۔

در اصل میری کشمکش بے نم ترکیب کو لیکر تھی باقی مجھے کہیں کوئی کلام نہیں تھا۔ رہی بات معنویت اور ما فی ضمیر کی تو وہ مزید کسی تعریف کا محتاج نہیں۔

بات چل نکلی ہے تو دو باتیں مزید واضح کرتا چلوں کہ

اول تو یہ کہ میں طنز سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں کہ یہ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔
دوم یہ کہ انکسار نہیں دکھاتا کہ حد درجہ نا اہل ہوں تو کس اہلیت پر انکسار دکھاؤں۔

لہٰذا درخواست ہے ہے کہ میرے مراسلے اس پس منظر سے دور رکھ کر دیکھا کریں۔

ویسے ایک بات کا پھر اقرار کروںگا کہ آپ کی ہر بات خواہ وہ غصہ، ناراضگی، طنز، مزاح، ڈانٹ، شکوہ کسی بھی شکل میں ہو ہمیں استفادہ پہوںچاتی ہے۔ مثلاً یہی پوسٹ لے لیجے جسے میں شکوہ پر محمول کرتا ہوں اس میں بھی مجھے رباعی پر ایک نفع بخش سبق میسر آ گیا۔

میں اپنا مفصل تعارف کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتا ہوں جس سے آپ کو میری اردو کے تئیں ناقص علمی کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ خیر مجھ طفل مکتب کی ابھی عمر ہی کیا ہے؟
 

ایم اے راجا

محفلین
کیا زبردست بات کی ہے آپ نے ابنِ سعید صاحب، لیکن اگر تعارف کروادیں تو ہم بھی جان جائیں آپکی ہر دلعزیز شخصیت کے بارے میں کچھ۔
 
کیا زبردست بات کی ہے آپ نے ابنِ سعید صاحب، لیکن اگر تعارف کروادیں تو ہم بھی جان جائیں آپکی ہر دلعزیز شخصیت کے بارے میں کچھ۔

یہ سلسلہ تو خیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہاں میں یہ کام اپنے تعارفی دھاگے میں ضرور کر سکتا ہوں جس کا ربط درج ذیل ہے۔

سعود عالم ابن سعید کا تعارف

یہاں میرے ابتدائی مراسلے موجود ہیں، مزید کے لئے تھوڑا انتظار کیجئے یا بہتر ہوگا کہ کچھ سوال کر ڈالئے تا کہ مجھے بات آگے بڑھانے میں آسانی ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی پوسٹ لے لیجے جسے میں شکوہ پر محمول کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت غلط سمجھے آپ برادرم، میں اپنی جس بات کو مزاح المومنین سمجھ رہا تھا آپ نے اسے شکوہ جانا۔

اور یقین مانیں کہ اگر صرف الفاظ ہی جذبات کی صحیح عکاسی کر سکتے ہوں اور انکی صداقت کی شہادت دے سکتے ہوں تو شاید میرے یہ الفاظ بھی کام آ جائیں۔ :)
 

جیا راؤ

محفلین
اربابِ محفل کی خدمت میں اپنی ایک رباعی پیش کر رہا ہوں امید ہے اپنی رائے سے نوازیں گے۔


شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدَم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نَم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم


بہت خوب جناب۔
اساتذہ کے کلام کو سراہنا بھی ایک کارِعجیب معلوم ہوتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب جناب۔
اساتذہ کے کلام کو سراہنا بھی ایک کارِعجیب معلوم ہوتا ہے۔

آپ کی پہلی بات کا شکریہ واجب، اور دوسری بات کی تصیح فرض۔

نوازش آپکی، لیکن آپ کے استعمال کردہ لفظ کا سزاوار نہیں ہوں بلکہ الٹا اپنے طور پر الگ سے شرمسار ہوتا ہوں،عروض کی دو چار کتابیں پڑھ کر خود کو استاد سمجھنے اور کہنے کہلوانے والے کے، بقول عرفان صدیقی، سرِ پندار پہ خاک۔
 

فاتح

لائبریرین
رباعی ایک خاصے کی چیز ہے، اس کے چوبیس اوزان مخصوص ہیں جو کہ ایک ہی بحر کی فروع ہیں اور ان چوبیس میں سے کسی چار کو بھی ایک رباعی میں جمع کیا جا سکتا ہے، اور صرف ایک ہی وزن میں بھی رباعی کہی جا سکتی ہے لیکن مختلف اوزان کو جمع کرنے کا فائدہ شاید یہ ہے کہ اپنی مرضی کے اور مختلف الفاظ کھپائے جا سکتے ہیں۔ [/size]

یہ تو شکر ہے اللہ کا رباعی میں صرف چار مصرعے ہوتے ہیں اگر کہیں چوبیس مصرعے ہوتے تو تمام کے تمام ہی مختلف اوزان میں باندھے جاتے۔ ویسے فارسی کے مشہور شاعر مولانا جامی علیہ الرحمہ نے چھ رباعیاں کہیں تھیں جن کے تمام مصرعے مخلتف اوزان میں ہیں اور یوں چھ رباعیوں میں تمام چوبیس اوزان باندھے ہیں، مراز یاس یگانہ چنگیزی کی کتاب 'چراغِ سخن' میں یہ چھ رباعیاں موجود ہیں۔

آپ کی دلچسپی کیلیئے، میری رباعی کے چاروں مصرعوں میں چار مخلتف اوزان ہیں جو بالترتیب کچھ یوں ہیں:

مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلن فع
مفعولن مفعولن مفعولن فع
مفعولن فاعلن مفاعیل فعَل
مفعول مفاعیلن مفعولن فع

بہت شکریہ وارث صاحب کہ اتنی جامع معلومات چند سطروں میں سمو دیں۔ گو کہ میں نے اس مراسلہ کا شکریہ وہاں بٹن دبا کر ادا کر دیا تھا لیکن اتنی خوبصورت معلومات کا 'اقتباسآ' شکریہ ادا نہ کرنا کفر ہوتا اور یہی سوچ کر یہ مراسلہ لکھنا پڑا۔
 
Top