میری دسویں غزل۔بجلیوں کا وہی نشانہ ہے

سید عاطف علی

لائبریرین
میری ایک طرحی غزل ۔ دسویں غزل (نویں غزل کے بعد )
طرحی مصرع ۔دل کا موسم بہت سہانا ہے۔

بجلیوں کا وہی نشانہ ہے
وہ شجر جس پہ آشیانہ ہے
-
کیوں بڑھائی گئی سزا میری ؟
کیا مرا جرم مسکرا نا ہے
-
شیخ کی پارسائی کی مانند
تیری نظروں کا تازیانہ ہے
-
میں سمجھ ہی نہ پایا آخر تک
اس کا انداز دوستانہ ہے
-
مسکرانے سے التفات گیا
اس سے بہتر تو روٹھ جانا ہے
-
پہلے قید قفس میں تھی بلبل
اب وہ پابند آب و دانہ ہے
-
چشم گریاں سے ہو گیا ظاہر
دل کا موسم بہت سہانا ہے​
 
آخری تدوین:
بہت خوب ! اچھی غزل ہے ۔ داد قبول کیجئے ۔

چشم گریاں سے ہو گیا ظاہر
دل کا موسم بہت سہانا ہے

یہ شعر پسند آیا ۔ بہت داد!
ایک چھوٹا سا سوال یہ ہے کہ تیسرے شعر میں آپ نے " پارسائی کی مانند" باندھا ہے ۔ کیا اسے " پارسائی کے مانند " نہیں ہونا چاہیئے ؟! امید ہے جواب دیکر میرے علم میں اضافہ فرمائیں گے ۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت شکریہ ہما حمید ناز صاحبہ پذیرائی پر ممنون ہوں اور آپ نے ایک اچھے نکتے کی طرف اشارہ فرمایا ۔ ویسے تو زبان و بیان کے لحاظ سے مانند کے ساتھ کی اور کے ،دونوں ہی اہل زبان کے موافق لگتے ہیں ۔ تا ہم مجھے آج کے مروج معیار کی نسبت کی زیادہ موافق تر لہجہ "کی" ہی لگا۔سو اسی کو استعمال کر لیا۔۔۔ الف عین صاحب سے رائے بھی لے لیتے ہیں۔آپ بھی کوئی مثال پیش کریں ۔میر تقی صاحب کے ہاں کے مانند کی ایک غزل ہے کے مانند کی ردیف کی۔تجھ بن اے نوبہار کے مانند۔چاک ہے دل انار کے مانند۔
تاہم میر ہی کا ایک شعر لڑکپن کے زمانے سے یونہی یاد پڑتا ہے۔۔۔۔نیز میر تقی صاحب کے زمانے کا املا ءبھی ی اور ے کے اعتبار سے اتنا مستحکم نہ تھا ۔
سر اٹھاتے ہی ہو ئے پامال
سبزہء نودمیدہ کی مانند


محسن نقوی صاحب کی ایک غزل ردیف کی مانند کی نظر سے گزری ہے ذہن میں آرہی ہے
مقروض کہ بگڑے ہوئے حالات کی مانند
مجبور کہ ہونٹوں پہ سوالات کی مانند
دل کا تیری چاہت میں عجب حال ہوا ہے
سیلاب سے برباد مکانات کی مانند
میں ان میں بھٹکے ہوئے جگنو کی طرح ہوں
اس شخص کی آنکھیں ہیں کسی رات کی مانند
دل روز سجاتا ہوں میں دلہن کی طرح سے
غم روز چلے آتے ہیں بارات کی مانند
اب یہ بھی نہیں یاد کہ کیا نام تھا اس کا
جس شخص کو مانگا تھا مناجات کی مانند
کس درجہ مقدس ہے تیرے قرب کی خواہش
معصوم سے بچے کے خیالات کی مانند
اس شخص سے ملنا محسن میرا ممکن ہی نہیں ہے
میں پیاس کا صحرا ہوں وہ برسات کی مانند
------------------------
ایک بار پھر آداب و سپاس۔
 
آخری تدوین:
Top