میری آنکھوں سے دیکھو۔۔ فیصل عظیم

الف عین

لائبریرین
روشنی کا سفر​

کنگسلے ایمسؔ (Kingsley Amis) کی ایک نظم کا آغاز ان مصرعوں سے ہوتا ہے:

وہ گھوڑا جس کا سوار زقند سے ڈرتا ہوٗگر پڑے گا
بندوق برداروں کاٗ جنھیں بے یقینی کے لہجے میں حکم ملا ہوٗ نشانہ خطا ہو جائے گا
محفوظ تو صرف وہی ہیں جو محفوظ دکھائی دیتے ہیں
جو اپنی آواز کھو دیتے ہیںٗ وہ سب کچھ کھو دیتے ہیں

یہ ایک حقیقت ہے کہ جو افراد تخلیقی سطح پر ادب کی دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں انہی کو اپنی آواز کے پا لینےٗ سنوارنے اور منوالینے کی جستجو رہتی ہے۔ کیونکہ بقول ایمسؔ جو اپنی آواز کھو دیتے ہیںٗ وہ سب کچھ کھو دیتے ہیں۔

تدریس کے پیشے سے وابستگی کی بدولت ہر سال ہی نئی نسل کے نمایندوں سے میرا رابطہ رہتا ہے۔ مجھے خوشی ہوتی ہے جب نئی نسل کا کوئی فرد کسی مثبت اور تخلیقی شعبے میں کوئی پیش رفت کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پختہ کار اور پرانی نسل کے افراد کو علم و ہنرٗ شعر و ادب اور تہذیب و شایستگی کا ورثہ آیندہ نسل کو اسی طرح منتقل کرنا چاہیے جیسے اولمپک کی مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو منتقل کی جاتی ہے۔ اس طرح روشنی کا سفر بھی جاری رہتا ہے اور آخر کار روشنی اپنی منزل کو بھی چھو لیتی ہے۔ روشنی اور انسانی معاشرے میں امن و آشتی کا تسلسل رکھنے کے لئے اس عمل کا جاری رکھنا ضروری ہے۔

میں نے جب پہلی بار نوجوان شاعر فیصل عظیم کا کلام ایک شعری نشست میں سُنا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ نئی نسل کے ایک اور نمایندے تک میراثِ پدر منتقل ہوئی۔ اور وہ اس کی صرف حفاظت ہی نہیں بلکہ اس میں اضافہ کرنے پر معمور ہیں۔ فیصل عظیم معروف شاعرٗ ادیب اور سہ ماہی ’’اقدار‘‘ کے مدیر شبنم رؔومانی کے صاحبزادے ہیں۔ ان کا یہ تعارف تو میں نے کرادیا لیکن اس سے میری مراد ہرگز یہ نہیں کہ میں قارئین سے انہیں رعایتی نمبر دلوانا چاہتا ہوں۔ انسان کو جب کوئی وصف قدرتی طور پر ودیعت ہوا ہو تو اسے مخفی رکھنے سے کیا حاصل ۔ اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ پُراعتماد نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھنے کے لئے اپنی ذاتی صلاحیتوں پر انحصار کریں اور بزرگوں سے اپنی نسبت کو ’’تعارف نامے‘‘ یا Visiting Card کے طور پر استعمال نہ کریں۔

پھر اہم بات یہ ہے کہ فیصل عظیم نے ایک گھنے برگد اور ’’دوسرے ہمالے‘‘ کے سائے میں رہتے ہوئے بھی خود اپنا قد و قامت نکالا ہے۔ یہ کارنامہ کم اہم نہیں ہے۔ تخلیقِ شعر کی دنیا میں فیصل عظیم کی کاوشیں ہی ان کے خاندانی پس منظر سے زیادہ میری توجہ اور ستایش کا موجب بنی ہیں۔

فیصل عظیم سن و سال کی جس منزل میں ہیں اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے بیسویں صدی کے دو اہم مغربی شعرا کے اقوال یاد آرہے ہیں۔ ایک ٹی ۔ایس ۔ایلیٹ (T.S.Eliot) اور دوسرے رابرٹ فراسٹ (Robert Frost)۔ اپنے ایک مقالے ’’روایت اور انفرادی صلاحیت‘‘ میں ایلیٹ نے لکھا ہے کہ ’’جو شاعر پچیس سال کی عمر کے بعد بھی شعر کہنا چاہتا ہو اُسے چاہیے کہ وہ ہومر (Homer)سے لے کر آج تک کے سارے یورپی ادب اور پھر اپنے ملک کے تمام ادب کو ایک ساتھ زندہ رکھے اور یوں محسوس کرے جیسے یہ ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔‘‘ اور رابرٹ فراسٹ کا کہنا ہے کہ میں اپنی شخصی واقفیت اور ذاتی تجربے کی بنا پر یہ کہ سکتا ہوں کہ نئے اور اچھے شاعر چالیس سال کی عمر تک پہنچنے سے بہت پہلے ادبی فضا میں اپنی شناخت پیدا کر لیتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ فیصل عظیم کا شمار اچھے اور نئے شعرا کے اسی زمرے میں ہونا چاہیے۔ فیصل عظیم جو کچھ کہ رہے ہیں اس کے مطالعے اور سماعت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ برائے بیت نہیں کہ رہے ہیں۔ ایزرا پاؤنڈ (Ezra Pound) نے نوجوان شعرا کو ABC of Reading (مطالعے کی ابجد)میں نصیحت کی ہے کہ اُسی وقت کوئی بات کہو جب تمہارے پاس کچھ کہنے کو ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ فیصل عظیم کے پاس کچھ کہنے کو ہے۔اور جو کچھ انھوں نے کہ دیا ہے اس سے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی حساس طبیعتٗ مہذّب اسلوب اور شایستہ کلامی سے بہت آگے تک
بھرپور کام لینے کی کوشش کریں گے۔

فیصل عظیم ایک حساس اور باخبر نوجوان ہیں۔ وہ پاکستان کے معاشرے میں کھلی آنکھوں اور بیدار ذہن کے ساتھ پروان چڑھے ہیںاور اب امریکہ میں مقیم ہیں۔ نئی دنیا اور پرانی دنیا کے تجربوں اور روایتوں سے گزرنااُن کے حق میں اچھا ہی ہوا۔ وہ دوسروں کے مقابلے میں جذباتیٗ ذہنی اورزمینی حقایق سے جلد اور بہتر طور پر واقف ہو گئے اور دردمندی کے ساتھ اس کو شاعری کے پیکر میں ڈھال رہے ہیں۔

فیصل عظیم نے تخلیقی اظہارکے لئے غزل سے زیادہ نظم کو پسند کیا ہے۔ مجھے ان کا یہ رخ بھی اچھا لگتا ہے۔ اس لئے کہ غزل اپنی توانائیٗ ایمائیت اور ایجاز کے باوصف زندگی کے متعدد مسائل کو اس طرح نہیں سمیٹ پاتی جس طرح نظم میں ممکن ہوتا ہے ۔ پھر غزل میں بسیار سفر باید کی شرط بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ نظم میں چونکہ موضوعات اور لفظی اشاراتٗ تجربات و علامات سے فوری تاثر پیدا ہو جاتا ہے اس لئے
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے
کے علاوہ ایک فطری تازگی کا احساس بھی ہونے لگتا ہے بشرطیکہ شاعر فرسودہ اسالیب سے بچ کر تازہ کاری کی سمت اپنی توجہ رکھے۔

فیصل عظیم کے کلام میں پختگی اور رچاؤ تو وقت کے ساتھ ساتھ ہی پیدا ہوگا لیکن اس وقت بھی ان کے اشعار اور نظمیں ذہن و دل کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔

اب اس پس منظر میں ذاتی صلاحیت اور تخلیقی سکت کے ساتھ ساتھ اس عہد کے نشیب و فراز بھی شاعری کی تفہیم کے لئے پیشِ نظر ہونے چاہئیں۔فیصل عظیم کراچی کی اس فضا سے خوب واقف ہیں جب کراچی کی گلیاں خون میں نہا رہی تھیںٗ کرفیو کا نفاذ عام تھاٗ درسگاہوں میں تالے پڑے ہوئے تھے اور مائیں اپنے بچوں کی جان کی خیر منایا کرتی تھیں ۔ پھر انہیں اس امریکہ سے واسطہ پڑا جو 9/11 کے بعد نہ صرف اپنے یہاں بلکہ عالمی سطح پر ہر حساس آدمی کے دل و ذہن پر ضربیں لگا رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوری دنیا ایک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑی ہے۔ عالمی دہشت گردی اور اس کے مضمرات نے پوری دنیا پر خوف کا سائبان تان دیا ہے۔ بے یقینیٗ تباہی اور ہلاکت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پھر سونامیٗ قطرینہٗ وادیٔ نیلم اور بالاکوٹ جیسے سانحات کے نفسیاتی اثرات و مضمرات اس پر مستزاد ہیں۔ذرائع ابلاغ نے آج کے آدمی کو باخبری اور آگہی کے نام پر جو زخم دیے ہیں وہ مندمل ہونے کے بجائے ہر لمحہ تازہ ہو جاتے ہیں۔ اس فضا نے نوجوانوں سے اُن کی رومانیت اور فطری سرخوشی چھین لی ہے۔ اس کرب ناک صورتِ حال کو سہنا ایک ایسا جبر ہے کہ اگر آدمی کے پاس اظہار کا کوئی راستہ نہ ہوتو وہ گھٹ گھٹ کر مر جائے۔

شاید یہی سبب ہے کہ ان دنوں ہمارے ماحول و معاشرے میں کثرت سے شاعری ہو رہی ہے ۔جو اصطلاحی اور فنی معیار کے اعتبار سے ’’شاعر‘‘ نہیں ہیںٗ انہیں بھی اصرار ہے کہ وہ شاعر ہیںاس لئے کہ محسوسات اور اُن کے بیان کا جبر اُن سے کچھ نہ کچھ کہلوا رہا ہے۔خیالاتٗ جذبات اور واقعات کا دباؤاپنے اظہار پر مُصر ہے اور بار بار کہ رہا ہے ع

نالہ پابندِ نے نہیں ہے

فیصل عظیم وطن سے دور رہ کر وطن کے لئے زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ معاشرتوں کا تقابلٗ اقدار کی شکست و ریخت کا احساسٗ عالمی سطح پر ہونے والی چیرہ دستیاںٗ یہ سب کچھ آج کے حساس آدمی کی طرح فیصل عظیم کی فکر اور شاعرانہ آگہی کے حصے میں آگئی ہیں۔

دراصل تخلیق کے سفر میں ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے جو کہتا ہے کہ مجھے اپنے اسلوبِ سخن میں اسیر کر لو۔ ۔
شعر خود خواہشِ آں کرد کہ گرد دفنِ ما
اور یہ شاعر کی تخلیقی بیداری کا امتحان بھی ہوتا ہے کہ وہ اس لمحے کو گرفت میں لینے کے ہنگام سے غافل تو نہیں ہے۔ فیصل عظیم کے یہاں اس امر کے قرائن موجود ہیں کہ وہ غافل نہیں رہتے۔

فیصل عظیم کے کلام میں موضوعات کا تنوع ہےٗ انہوں نے خود کو دُہرانے اورکسی قسم کی یکسانیت پیدا کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ بھی ایک وصف ہے جس کی خاطر اُن کی شاعری توجہ سے پڑھی جائے گی۔ میں دانستہ فیصل عظیم کی نظموں سے حوالے پیش نہیں کر رہا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ میری رائے کچھ ایسا اثر دکھائے کہ آپ اسے اپنے ذوقِ ادب اور سخن فہمی کے ساتھ جوڑ کر فیصل عظیم کی تخلیقی لہر تک خود پہنچنے کی کوشش کریں ۔ مشک اور خوشبو کے درمیان عطّار کا کیا کام ؟

میں فیصل عظیم کو اُن کے پہلے شعری مجموعے کی اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ان کے بہتر مستقبل کے لئے دعاگو ہوں۔
پروفیسر سحرؔ انصاری
 

الف عین

لائبریرین
دست بستہ

اپنے یا اپنے کلام کے بارے میں کچھ لکھناٗ نثر میںٗ اور وہ بھی پہلی کتاب پیش کرتے ہوئےٗ یقینا مشکل کام ہےٗاس لئے کہ جس نے اپنے بارے میں پہلے کچھ نہ لکھا ہوٗ اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ بات کہاں سے شروع کرے اور اس سے بھی مشکل یہ کہ کہاں ختم کرےٗ خصوصاً جبکہ اگلے تمام صفحات پر اپنی نہ سہیٗ اپنی ہی کہی ہوئی باتیں ہوں۔ یہاں میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ یہ کتاب میری یا میرے ماحول کی کہانی کا خلاصہ پیش کرنے کی کوئی کوشش ہے کیونکہ اس میں کیا ہے، کیا پہنچ سکا ہے یا کیا رہ گیا ہےٗ اس کا فیصلہ یقینا پڑھنے والے صاحبانِ نظر ہی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا میں خود شناسی کی خوش فہمی کے بجائے اس بات کا انتظار کروں گا کہ اس کتاب میں مجھے کیسا پایا گیا۔

جب ’’میری آنکھوں سے دیکھو‘‘ پر کام شروع کیا تھا تو میں اس شش و پنج میں تھا کہ آیا یہ وقت مجموعۂ کلام کی اشاعت کے لئے مناسب بھی ہے یا نہیں اور یہ کہ میری اب تک کی شاعری کا عرصہ کتاب کی اشاعت کے لئے بہت مختصر تو نہیںٗ مگر پھر یہ خیال کہ زندگی خود اتنی مختصر ہے اور پھر دوستوں اور بزرگوں کی جانب سے حوصلہ افزائی نے یہ فیصلہ کرنے میں بڑی مدد دی کہ کام جاری رکھا جائے ۔ یوں بالآخر دعاؤں اور محبتوں کے سائے میںٗ میں اپنا پہلا مجموعۂ کلام آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کرنے کے قابل ہو ا ہوں۔

یہاں میںتمام دوستوں اور بزرگوں کے شکریے کے ساتھ ساتھ یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شعر گوئی کے حوالے سے اگرچہ فطرت سب سے بڑی رہنما ہوتی ہے مگر مجھے اپنے والد کی تربیت اور والدہ کی حوصلہ افزائی سے سب سے زیادہ مہمیز ملی ہے اور آج میں یقینا انہی کی دعاؤں کے سبب یہ پہلا پتھر رکھنے کی کوشش میں کامیاب ہوا ہوں۔ اگر یہ تحریر انتساب کی تعریف پر پوری اترتی ہو تو اسی کو کتاب کا انتساب سمجھ لیجئے۔ کتاب کے حوالے سے مجھے ادب دوستوںسے بس اتنا ہی کہنا ہے کہ اگر ہو سکے تو ’’ میری آنکھوں سے دیکھو‘‘۔
فیصل عظیم
 

الف عین

لائبریرین
خود کلامی

دل تری خلاؤں کی وسعتوں کا زائر ہے
اور سب ترے تَلمیذ، صرف تو ہی شاعر ہے
میں اَسیر لفظوں کا، تو نے جو اُتارے ہیں
میں سفیر جذبوں کا، جو ترے اشارے ہیں
تیری شاعری دنیا، یہ زمیں ترا مطلع
تیری شاعری عقبیٰ، وہ فلک ترا مقطع
زلف بھی ترا مصرع، پھول بھی ترا مصرع
چاند اور سورج بھی، دھول بھی ترا مصرع
یہ سمندر اور دریا سب غزل کی بحریں ہیں
کس قدر عروضی ہیں، بحر کی جو لہریں ہیں
تیرے استعاروں میں ’’رات، دن‘‘ سمائے ہیں
عارضوں میں بھی تو نے قافیے سجائے ہیں
کیا غضب کی ’’ترکیبیں‘‘ ، یہ تری ہوائیں ہیں
کیا عجب ردیفیں ہیں، جو سیہ گھٹائیں ہیں
یہ پہاڑ ہیں گویا ایک مطلعِ ثانی
ان رُموز تک پہنچے کیسے عقلِ انسانی!
منفرد ہر اک پیکر، مختلف ہر اک چہرہ
سوچئے تقابل ہے کس جگہ ردیفوں کا
تیری ہی زمینوں میں قافیے سجاتے ہیں
شعر کہہ کے تجھ کو ہی روز گنگناتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
نعت
آرزوئیں مدحت کی، لوح کو بھگوتی ہیں
لفظ میری نعتوں کے، آنسوؤں کے موتی ہیں

آنسوؤں کے موتی ہیں یا وُضو کا پانی ہے
وہ بتائے، طیبہ کی جس نے خاک چھانی ہے

خاک ایک صحرا کی، پھول جس میں کھلتے ہیں
خاک، وہ، جہاں ہم کو دو جہان ملتے ہیں

جو پڑھا کتابوں میں، ہم کو یاد کرنے دو
نور اُنؐ کی سیرت کا روح میں اترنے دو

مکڑیوں کے جالے تھے غار کے دَہانے پر
منکرو ! ذرا سوچو، کون تھا نشانے پر

کس کے اک اشارے پر چاند ہو گیا ٹکڑے
اور سنگریزے بھی ہاتھ کے پکار اُٹھے

وقت لے چلے ہم کو گر اسی زمانے میں
ہم بھی دست بستہ ہوں اُنؐ کے آستانے میں

اب تو یہ بھی خواہش ہے ۔۔’’ایک دن ادھر جائیں
اور ہم مدینے کی خاک میں اتر جائیں

ہوں دُرود سے روشن سب دیے نگاہوں کے
اور ہم مسافر ہوں آخرت کی راہوں کے‘‘
 

الف عین

لائبریرین
خاموشی

میں تو چپ تھا
لیکن میری آوازوں پر پہرہ تھا
میں تو چپ تھا
لیکن میری فکر کا سایہ گہرا تھا
میں تو چپ تھا
لیکن میرے دل کی دھڑکن ڈولی تھی
میں تو چپ تھا
لیکن خاموشی خود مجھ میں بولی تھی
میں تو چپ تھا
لیکن یہ سنّاٹے چیخا کرتے تھے
میں تو چپ تھا
لیکن سب اس خاموشی سے ڈرتے تھے
میں تو چپ تھا
لیکن درد صدا دیتا تھا سینے میں
میں تو چپ تھا
لیکن کوئی بولتا تھا آئینے میں
میں تو چپ تھا
لیکن میرے اندر حشر سا برپا تھا
میں تو چپ تھا
لیکن میں اس خاموشی سے ڈرتا تھا
میں تو چپ تھا
لیکن اک تہذیب کے ہاتھوں مرتا تھا
میں تو چپ تھا
لیکن میں اس چپ سے باتیں کرتا تھا
میں تو چپ ہوں
لیکن اب چپ رہنے میں دشواری ہے
میں تو چپ ہوں
لیکن اب ان آوازوں کی باری ہے
 

F@rzana

محفلین
بہت خوب، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ، ساتھ ہی میں بابا جانی کی ممنون ہوں جنھوں نے تعارف کے طور پر اتنی مفید پوسٹ کی ہیں۔
 
Top