میرا شہر’ سرزمینِ گُل‘ پھول نگر۔ کچھ گفتنی ناگفتنی۔۔۔

یونس

محفلین
ایک اور چیز جس کی ہمارے ہاں فراوانی ہے‘ وہ ہے عدم برداشت۔ راہ چلتے ہوئے‘ سفر میں‘ بازاروں میں‘ دفاتر میں‘ یہ ہر جگہ وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔فرض کریں آپ پھول نگر کی مین روڈ پر اپنی گاڑی نہایت محتاط انداز میں ڈرائیو کرتے ہوئے جا رہے ہیں۔ آپ کے آگے آگے جانیوالی گدھا گاڑی‘ جس کا خرِ خانہ خراب ‘ خراماں خراماں چلا جارہا تھا‘ اچانک رک جاتی ہے۔ آپ بمشکل تمام بریک لگاکرخود کو حادثہ سے بچاتے ہیں۔ گدھا گاڑی اب بھی رکی ہوئی ہے‘ غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ گاڑی بان اپنے قریب کھڑے دوست کے ساتھ گپ شپ لگا رہا ہے۔ آپ اسے آواز دے کر راستہ چھوڑ کر کھڑے ہونے کا کہتے ہیں ‘ تو وہ اس کا دوست‘ اور تین چار مزید ساتھی‘ اس جنس ارزاں(عدم برداشت) کو ساتھ لئے کہیں سے آ نمودار ہوتےہیں۔ پہلے تو سڑک پر آپ کے والد محترم کی ملکیت کا سوال سادہ دیسی زبان میں اٹھایا جاتا ہے اور پھرباقاعدہ دعوت مبارزت دی جاتی ہے کہ نیچے تشریف لائیے تاکہ کوئی بہتر فیصلہ کیا جا سکے‘ اگر آپ اسی پر خاموش ہو جائیں تو بہت بہتر‘ ورنہ دوسری صورت میں تین چار ڈنڈا بردار اور ایک آدھ اسلحہ بردارنفوس بھی آسکتے ہیں‘ اس کے بعد آپ کی اپنی ہمت‘ طاقت‘ اورباقی ماندہ صحت پر منحصر ہے کہ آپ واپس اپنے گھر کس حالت میں جانا پسند کرتے ہیں۔ ویسے سول ہسپتال‘ پرائیویٹ میڈیکل سنٹرز‘ دو عددہڈی جوڑ ہسپتال بھی قریب ہی واقع ہیں۔ اور اگر بات ان کے بس سے باہر ہوئی تو ایدھی سنٹر کا مستعد عملہ ایمبولینس کے ساتھ لاہور کے کسی بھی بڑے ہسپتال لے جانے کیلئے ہر وقت موجود رہتا ہے۔ ان ضروری کاموں سے فارغ ہونے کے بعد اگر آپ پولیس کی مدد لینا چاہیں تو یہ آپ کی دوسری بڑی غلطی ہو گی۔ کیونکہ پولیس سٹیشن میں آپ کو ایسے ایسے معززین اس گاڑی بان کے سفارشی کے طور پر ملیں گے کہ آپ حیران رہ جا ئیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ الٹا آپ کے خلاف ہی رپورٹ درج ہو جائے !
اس پر لکھنے کوتومیں اور بھی بہت کچھ لکھ سکتا ہوں‘ مگر میرے شہر کے لوگ انٹرنیٹ پر مطالعہ بھی کرتے ہیں اورمجھےاس شہر میں رہنا بھی ہے۔ بقول بابا عبیر ابو ذری ؂
پچھوں کردا پھراں ٹکور‘ تے فیدہ کیہ​
 
Top