واجدحسین
معطل
پچیسواں باب
میدان جہاد سے فرار کے سخت گناہ ہونے کا بیان
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ( ۱ ) میدان جہاد سے فرار کے سخت گناہ ہونے کا بیان
[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلا تُوَلُّوهُمُ الأدْبَارَ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلا مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ[/ARABIC] ( سورہ انفال 15-16)
"اے ایمان والو ! جب تمھارا کافروں سے مقابلہ ہوتو میدان جنگ میں تو ان سے پیٹھ مت پھیرو اور جو کوئی ان سے اس دن پیٹھ پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لئے پینترا بدلتا ہو یا ااپنی جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو ( یہ دو صورتیں مستثنیٰ ہیں باقی جو اس کے سوا پیچھے بھاگے گا ) تو اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور جہنم بہت برا ٹھکانا ہے ۔"
خوب اچھی طرح جان لیجئے کہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ میدان جہاد سے بلا شرعی عذر بھاگنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور اس گناہ کا مرتکب شخص اللہ کے غضب ، اس کی ناراضگی اور درد ناک عذاب کا مستحق بنتا ہے ۔ اس بارے میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ان میں سے چند ایک کو یہاں بیان کیا جارہا ہے۔
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سات ہلاک کرنے والے کاموں سے بچو ۔ پوچھا گیا اے اللہ کے رسول وہ سات کام کیا ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : [وہ سات کام یہ ہیں ] ( ۱ ) اللہ کے ساتھ شرک کرنا ( ۲ ) اس جان کو نا حق قتل کرنا جسے قتل کرنا اللہ تعالی نے حرام فرمایا ہو ( ۳ ) یتیم کا مال کھانا ( ۴ ) سود کھانا ( ۵ ) میدان جہاد سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا ( ۶ ) بھولی بھالی پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا ( ۷ ) جادو کرنا ۔ ( بخاری ، مسلم )
٭ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن والوں کو ایک خط لکھا جس میں فرائض ، سنتیں اور دیت وغیرہ کے مسائل تھے اس خط میں یہ بھی تھا کہ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بڑے گناہ شرک کرنا ، مسلمانوں کو ناحق قتل کرنا ، جہاد کے میدان سے بھاگنا اور والدین کی نا فرمانی کرنا ہیں ۔ ( ابن حبان )
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا بڑا بہادر ہے وہ شخص جو جہاد میں دشمن کے سامنے سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے اور بہت بزدل ہے وہ شخص جو دشمنوں کا سامنا ہوتے ہی ان پر حملہ کر دے ۔ یہاں تک کہ وہ ہو جائے جو اللہ نے چاہا ۔ عرض کیا گیا اے ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ کس طرح سے ہو گیا [ کہ بھاگنے والا بہادر اور ڈٹ کر لڑنے والا بزدل ] حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جو میدان جہاد سے بھاگتا ہے وہ اللہ کے مقابلے میں جرات دکھاتا ہے [ اور اس سے نہیں ڈرتا تو گویا بہادر ہوا ] اس لئے بھاگ جاتا ہے ۔ اور جو ڈت کر لڑتا ہے وہ اللہ تعالی سے ڈرتا ہے [ اس لئے نہیں بھاگتا تو گویا کہ وہ بزدل ہوا ] ۔ ( کتاب الجہادلابن مبارک)
فصل
اس فصل میں میدان جہاد سے بھاگنے کے بارے میں بعض احکام ذکر کئے جا رہے ہیں [ یہ وہ احکام ہیں جن پر تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے ]
( ۱ ) جہاد عمومی طور پر فرض کفایہ ہوتا ہے لیکن جب مسلمانوں اور کافروں کی صفیں آمنے سامنے آجائیں تو جہاد فرض عین ہو جاتا ہے اور پیچھے ہٹنا حرام ہو جاتا ہے ۔
( ۲ ) اگر دشمن کی تعداد دگنا سے زیادہ نہ ہو تو میدان سے بھاگنا حرام ہے مگر ان چند صورتوں میں جائز ہو جاتا ہے ۔ ( الف ) دشمن کو دھوکا دینے کے لئے پیچھے ہٹنا تاکہ پیچھے ہٹ کر حملہ کر سکے ( ب ) پیچھے بھاگ کر کہیں چھپ جانا تاکہ دشمن تعاقب کرتا ہوا وہاں پہنچے تو اس پر حملہ کردے ( ج ) میدان جنگ اگر تنگ ہو اور پیچھے کھلی جگہ ہو تو وہاں آنے کے لئے بھاگنا یا سورج اور ہوا کے مناسب رخ کے لئے پیچھے ہٹنا ( د ) پیچھے موجود اپنے لشکر میں آنا تاکہ وہاں سے دوبارہ حملے کی تیاری کی جاسکے یہ لشکر دور ہو یا قریب ۔ چھوٹا ہو یا بڑا ۔
( ۳ ) سخت بیمار ی، اسلحے کے ختم ہونے اور تیر اندازی کے مقابلے میں تیر نہ ہونے کی صورت میں بھی پیچھے ہٹنا جائز ہے مگر جس شخص کو بھی عذر کی وجہ سے بھاگنا ہو اس کے لئے اچھا یہ ہے کہ وہ پلٹ کر حملہ کرنے کی نیت سے راہ فرار اختیار کرے۔
( ۴ ) اگر کافروں کی تعداد دگنا سے زیادہ ہو تو پیچھے ہٹنا جائز ہے لیکن ڈٹ جانا اور لڑنا افضل ہے خصوصاً جبکہ لڑنے کی طاقت موجود ہو اس بارے میں کئی عجیب وغریب واقعات پچھلے باب میں گزر چکے ہیں۔
( ۵ ) لشکر کے امیر کے مارے جانے کی وجہ سے فرار ہونا یا پیچھے ہٹنا جائز نہیں ہے ۔
( ۶ ) جب مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار ہو تو ان کے لئے کسی حال میں فرار ہونا اور پیچھے ہٹنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ۔ بارہ ہزار کا لشکر قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوگا ۔ ( ابوداؤد۔ ترمذی ۔ السنن الکبریٰ) اس بارے میں حضرت امام مالکرحمہ اللہ کا فتوہ بھی موجود ہے[مزید تفصیلات اعلاء السنن ص ۶۳ جلد۱۲ پر ملاحظہ فرمایئے و فیہ ما یکفی]
غلبے اور ثابت قدمی کا راز
اللہ تعالی کی بندوں کے ساتھ معیت دو طرح کی ہے ایک معیت تو علم اور احاطے کے اعتبار سے ہے کہ اللہ تعالی کا کوئی بندہ بھی اس کے علم اور قدرت سے باہر نہیں ہے ۔ اس معیت کا تذکرہ اس آیت میں ہے :
[ARABIC]وَ ھُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُم[/ARABIC] ( الحدید ۔ ۴ )
اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمھارے ساتھ ہے ۔
یہی معنی اس اگلی آیت میں بھی ہے ۔
[ARABIC]مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلاثَةٍ إِلا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلا خَمْسَةٍ إِلا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلا أَكْثَرَ إِلا هُوَ مَعَهُمْ [/ARABIC]
( سورہ مجادلہ ۔ ۷ )
( کسی جگہ ) تین ( شخصوں ) کا ( مجمع اور ) کانوں میں صلاح و مشورہ نہیں ہوتا مگر وہ ان میں چوتھا ہوتا ہے اور نہ کہیں پانچ کا گروہ مگر وہ ان میں چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم یا زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔
دوسری معیت نصرت ، تائید اور دشمنوں پر غالب کرنے والی معیت ہے یعنی خصوصی طور پر اللہ تعالی ایمان والوں کا ساتھ دیتا ہے ۔
[ARABIC]إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا[/ARABIC] ( سورہ توبہ ۔ ۴۰ )
اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
اسی طرح اس آیت میں بھی اسی معیت کا تذکرہ ہے :
[ARABIC]وَأَنْتُمُ الأعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ [/ARABIC]( سورہ محمد ۔ ۳۵ )
اور تم تو غالب ہو اور اللہ تعالی تمھارے ساتھ ہے ۔
لیکن اللہ تعالی کی یہ معیت اور ساتھ بندے کو اسی وقت نصیب ہوتا ہے جب وہ بندہ بننے اور بندگی کرنے کا حق اداء کرتا ہے ۔ اور اس کی بندگی میں نافرمانی کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔ پس جو مجاہد اس طرح بندگی اختیار کرتا ہے تو اس پر کوئی بھی غالب نہیں آسکتا کیونکہ اللہ تعالی اس کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اور اس کا مددگار ہوتا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
[ARABIC]ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لا مَوْلَى لَهُمْ ۔[/ARABIC] (سورہ محمد ۔ ۱۱ )
یہ اس لئے کہ جو مؤمن ہیں ان کا اللہ تعالی کار ساز ہے اور کافروں کا کوئی کار ساز نہیں ۔
لیکن جب مجاہد اللہ تعالی کی بندگی اور فرمانبرداری کا حق اداء نہیں کرتا اور اللہ تعالی کے احکام پر عمل نہیں کرتا یا کافروں کی طرح گناہوں میں پڑ جاتا ہے تو اس میں اور اس کے دشمن میں ایک چیز مشترک ہو جاتی ہے اور وہ ہے اللہ تعالی کی نافرمانی چنانچہ کافروں کی طرح اس کے دل میں بھی رعب ، دنیا کی محبت اور رسوائی جیسی بیماریاں داخل ہو جاتی ہیں اور وہ ذلت کی زندگی کو عزت کی موت پر ترجیح دینے لگتا ہے۔ اللہ تعالی کی نافرمانی جس قدر بڑی ہوگی اس کا اثر بھی اسی قدر بڑا ہوگا اور یہ نافرمانی جس قدر چھوٹی ہو گی اس کا اثر بھی کم ہوگا ۔ کیا آپ نے کبھی حنین کے واقعے پر غور نہیں کیا ۔ اس دن کچھ [ نئے ] مسلمانوں کو اپنے کثرت پر فخر اور اللہ تعالی کی نصرت پر نظر نہ کرنے کی وجہ سے ابتدائی طور پر مسلمانوں کو شکست ہوئی ۔ لیکن چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہیں اور کئی ایمان والے بھی فخر سے محفوظ رہے تو اللہ تعالی نے انہیں فرار سے بچایا اور وہ ڈٹے رہے اور بالآخر فتح انہیں کی ہوئی اور دشمن کو شکست فاش ہوئی ۔
غزوہ حنین کا واقعہ آگے انشاء اللہ تفصیل کے ساتھ آئے گا ۔ یہی بات سمجھانے کے لئے قرآن مجید نے کئی جگہ جہاد و قتال کے ساتھ تقویٰ کا ذکر فرمایا ہے ۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
[ARABIC]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [/ARABIC]( سورہ توبہ ۔ ۱۲۳ )
اے ایمان والو! اپنے قریب کے کافروں سے لڑو اور چاہئے کہ وہ تمھارے اندر سختی پائیں ۔
اس کے فورا بعد فرمایا :
[ARABIC]وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ [/ARABIC](سورہ توبہ ۔ ۱۲۳ )
اور جان لو کہ اللہ تعالی پرہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔
اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تسلی دینے کے بعد کہ آپ ان کافروں کی سازشوں سے پریشان نہ ہوں ۔ فورا یہ ارشاد فرمایا :
[ARABIC]إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُون [/ARABIC](سورہ نحل ۔ ۱۲۸)
کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اور جو نیکو کار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا : تم اللہ کو یاد رکھو۔ وہ تمھیں یاد رکھے گا ۔ تم اللہ کو یاد رکھو تم اسے اپنے آگے پاؤ گے ۔ ( ترمذی )
٭ اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے اگر میری امت مال غنیمت میں خیانت نہیں کرے گی تو دشمن کبھی اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا۔
٭ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے حضرت حبیب بن مسلم رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا دشمن میدان جنگ میں تمھارے سامنے ایک بکری کے دودھ دوھنے کی مدت ٹھہرتا ہے ۔ انہوں نے فرمایا ہاں اور [ بعض اوقات ] تین بکریوں کا دودھ دوھنے کی مدت بھی ٹھہرتا ہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا ۔ رب کعبہ کی قسم تم میں مال غنیمت میں خیانت کرنے والے موجود ہیں ۔ [ اسی وجہ سے دشمن اتنی دیر تمھارے سامنے جم کر لڑنے کی ہمت پا لیتا ہے ] ۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سلطان رکن الدین بیبرس رحمہ اللہ کے زمانے میں ایک مجاہد کے پاس ایک شاندار گھوڑا تھا جو میدان جنگ میں خوب اگے بڑھتا تھا ایک بار لڑائی کے دوران گھوڑا سست ہو گیا وہ مجاہد اپنے گھوڑے کو آگےبڑھنے کے لئے مارتا تھا مگر گھوڑا پیچھے ہٹتا تھا اس پر وہ مجاہد بہت حیران ہوا رات کو اس نے خواب میں اپنے اسی گھوڑے کو دیکھا تو اسے اس کی سستی اور پیچھے ہٹنے پر ملامت کرنے لگا اس پر گھوڑے نے کہا کہ میں کیسے دشمن پر چڑھائی کرتا ، جبکہ تم نے میرا چارہ کھوٹے پیسے سے خریدہ تھا صبح اٹھ کر یہ مجاہد چارہ بیچنے والے کے پاس گیا تو چارہ فروش نے اسے دیکھتے ہی کہا کل آپ نے جو درھم مجھے دیا تھا وہ کھوٹا تھا چنانچہ وہ درھم اسے واپس دے دیا ۔ ( ابن کثیر فی تاریخہ )
اسی طرح کا ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ ایک بار مسلمانوں نے کافروں کے ایک قلعے کا کئی دن سے محاصرہ کر رکھا تھا ان سے کوئی سنت چھوٹ رہی تھی ۔ اس لئے قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا ، جب غور کیا گیا تھا تو معلوم ہوا کہ مسواک میں سستی کی جارہی ہے ۔ پس سارے لشکر نے اس سنت کو زندہ کیا تو قلعہ فورا فتح ہو گیا۔
اب آپ اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ ایک سنت چھوڑنے پر جب یہ نحوست آگئی تو حرام کام کرنے اور حرام چیزیں کھانے اور پینے سے کتنی نحوست نازل ہوتی ہوگی۔ پس یہی چیزیں مجاہدین کے لئے ذلت اور شکست کا باعث بنتی ہیں اس لئے اے مجاہدین کرام اپنے دل میں اللہ تعالی کی نا فرمانی کا اردہ تک نہ آنے دیجئے اور اپنے باطن کو نافرمانی کی غلاظت سے بچائے رکھئے اور وساوس کی تاریکیوں میں یقین اور توکل کے چراغ جلائیے ۔ اور یہ یقین رکھئے کہ موت نے ہر حال میں اپنے مقررہ وقت پر آنا ہے ۔ نہ کوئی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اس موت سے بچ سکتا ہے اور نہ انسانوں کی تدبیریں اس موت کو ٹال سکتی ہیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
[ARABIC]أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكُكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ [/ARABIC]( سورہ النساء ۔ ۷۸)
( اے جہاد سے ڈرنے والو) تم کہیں بھی رہو موت تو تمھیں آکر رہے گی خواہ بڑے بڑے محلوں میں رہو۔
اگر تقدیر میں کسی کے لئے قتل ہونا لکھا ہوا ہے تو وہ اس سے نہیں بچ سکتا :
[ARABIC]قُلْ لَوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى مَضَاجِعِهِمْ [/ARABIC](سورہ ال عمران ۔ ۱۵۴ )
آپ فرما دیجئے کہ اگر تم لوگ اپنے گھروں میں ہوتے تب بھی وہ لوگ جن کے لئے مارا جانا مقرر ہو چکا ہے ان مقامات کی طرف نکل پڑتے جہاں وہ گرے ہیں۔
اے مجاہدین کرام ! اپنے اور اپنے دشمنوں میں فرق کرنے کے لئے تقوے کی محفوظ چادر اوڑھے رکھیئے [ تاکہ کافروں کی کوئی صفت آپ لوگوں میں نہ آجائے اور ان کی کوئی عادت اور خصلت آپ لوگوں میں پیدا نہ ہو جائے ] ۔
[ARABIC]فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ [/ARABIC](سورہ آل عمران ۔ ۱۵۹)
پھر جب آپ عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کیجئے بے شک اللہ تعالی محبت فرماتے ہیں توکل کرنے والوں سے ۔
[ARABIC]وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ [/ARABIC]( سورہ الحج ۔ ۴۰)
اور بے شک اللہ تعالی اس کی مدد کرے گا جو اللہ کے دین کی مدد کرے گا بے شک اللہ تعالی قوت والا (اور ) غلبے والا ہے ۔
اے میدان جہاد سے بھاگنے والے
اگر تجھے زیادہ عرصہ رہنے کی حرص ہے تو یاد رکھ میدان جہاد سے بھاگنا تیری زندگی میں اضافہ نہیں کرسکتا اور ڈٹ کر لڑنے سے تو اپنے وقت سے پہلے نہیں مر سکتا ۔ آج اگر تو میدان سے بھاگ رہا ہے تو غور کر کہ تو نے کیا پایا ہے اور کیا کھویا ہے ؟ تیرا رب تجھ سے ناراض ہوا مسلمانوں اور کافروں سب کے سامنے ذلیل ہوا ۔ اور تیری زندگی بھی نہیں بڑھی ۔ بلکہ آج تو عزت کی موت سے بھاگ کر ذلت کی موت کے گڑھے کی طرف دوڑ رہا ہے ۔ حالانکہ بہادروں کا شیوہ تو یہ ہے کہ : ( ۱ ) جب مرے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ تو پھر بزدلی کی ذلت والی موت کیوں مریں ۔
( ۲ ) بادشاہوں کی طرح زندگی گزارو ۔ یا عزت کے ساتھ مرو لیکن مرتے وقت تمھاری کھلی تلوار تمھارے ہاتھ میں ہونی چاہئے ۔
( ۳ ) ہمارے گھوڑوں کا پچھلہ حصہ نیزوں پر حرام ہے اور ان کی گردنوں اور سینوں سے لہو ٹپکتا ہے اور بھاگتے ہوئے کی پیٹھ پر وار کرنا ہمارے نیزوں کے لئے حرام ہے ۔ یہ تو صرف سینوں کا شکار کرتےہیں ۔
( ۴ ) تلواروں سے قتل ہونا کوئی نقص کی بات نہیں ۔ اگر یہ عزت اور فخر سے خالی نہ ہو۔
ہم وہ لوگ ہیں جو ایسی موت کو گالی نہیں سمجھتے ۔ جو تلواروں اور عمدہ نیزوں کے درمیان آتی ہے ۔
( ۵ ) کسی کو موت ناپسند ہے تو ہوتی رہے ۔ میرے لئے تو موت شہد سے زیادہ لذیذ اور پسندیدہ ہے ۔
گھمسان کی لڑائیوں میں آگے بڑھنے سے موت جلد نہیں آجاتی۔ اور نہ میدان سے بھاگنا موت سے بچا سکتا ہے ۔
( ۶ ) بزدلی عار اور آگے بڑھنا عزت و کرامت ہے۔ اور بھاگنے والے موت سے بچ نہیں سکتے۔
( ۷ ) جنگ جب آجائے تو وہ تمھاری بزدلی نہ دیکھے ۔ اس میں ڈٹ کر لڑو کیونکہ موت کا وقت مقرر ہے ۔
( ۸ ) جب بدن موت کے لئے پیدا ہوئے ہیں ۔ تو پھر اللہ کے راستے میں تلوار سے مارا جانا ہی زیادہ اچھا ہے ۔
اے پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے
کہیں ایسانہ ہوکہ تو بھاگنا شروع کرے اور تیری پیٹھ میں تیر [ گولی ] آلگے اور تو دنیا آخرت میں نا کام ہو جائے۔ ٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعاء فرمایا کرتے تھے اے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں کہ میں تیرے راستے میں پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہوئے مارا جاؤں ۔ ( نسائی )
٭ شیخ ابو القاسم القشیری رحمہ اللہ دو صوفیوں کا قصہ لکھتے ہیں کہ یہ دونوں ایک عرصے تک اکٹھے احسان و سلوک کی منزلیں طے کرتے رہے پھر ان میں سے ایک غائب ہو گیا اور دوسرا رومیوں کے ساتھ جہاد میں لگ گیا ایک لڑائی کے دوران رومیوں کی طرف سے ایک شخص زرہ اور ہتھیاروں سے لیس ہو کر نکلا اور اس نے مسلمانوں کو مقابلے کی دعوت دی ۔ یکے بعد دیگرے تین مسلمان نکلے مگر اس کے ہاتھوں شہید ہوگئے ۔ تب یہ صوفی بزرگ میدان میں آئے جب مقابلہ شروع ہونے لگا تو رومی نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو وہ اسی صوفی بزرگ کا سابقہ ساتھی نکلا۔ بزرک نے حیرانی سے پوچھاکہ تم کافروں کی طرف سے لڑ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں دنیا کی چکر میں پڑ کر دین اسلام کو چھوڑ چکا ہوں اب میرے پاس عورتیں اور مال بے شمار ہے بزرگ نے کہا تم تو کئی قراءتوں میں قرآن مجید پڑھا کرتے تھے اس نے کہا مجھے اب ایک حرف بھی یاد نہیں ہے بزرگ نے کہا تم واپس لوٹ جاؤ اس نے کہا نہیں میری رومیوں کے درمیان بڑی عزت ہے میں واپسی کی ذلت برداشت نہیں کرسکتا صوفی بزرگ کسی طرح جنگی حیلےسے اسے واپس موڑنے میں کامیاب ہوئے اور پھر انہوں نے نیزہ مار کر اسے ہلاک کر دیا ۔